بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے مرکزی ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا کہ تنظیم کے مرکزی رہنماؤں کی گمشدگیوں کو تین مہینہ مکمل ہونے کے باجود تاحال ان کو منظرعام پر نہیں لایا گیا ہے اور نہ ہی ان کے بارے میں ہمیں کسی قسم کےاطلاعات دیئے جارہے ہیں۔
بی ایس او آزاد کے مرکزی سیکریٹری جنرل ثناء اللہ بلوچ، مرکزی کمیٹی کے ممبران نصیر احمد ، حسام بلوچ اور بی این ایم کے ممبر رفیق بلوچ کو پاکستان کی سیکورٹی فورسز (سندھ رینجرز) اور خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے 15نومبر 2017ء کو ان کے رہائش گاہ یونیورسٹی روڈ کراچی سے گرفتار کرکے لاپتہ کردیے تھے، واقع کی چشم دید گواہ نصیر احمد کی اہلیہ بی بی زبیدہ بلوچ اور ان کے کمسن بچے ہیں۔
بی ایس او آزاد کے مرکزی سیکریٹری جنرل ثناء اللہ بلوچ ، مرکزی کمیٹی کے ممبران نصیر احمد ، حسام بلوچ اور بی این ایم کے ممبر رفیق بلوچ سیاسی کارکنان اور طالب علم تھے جو کراچی کے مختلف تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم تھے ان کے اغواہ نما گرفتاریوں کی فوری بعد ان کے اہل خانہ اغواہ نما گرفتاریوں کے ایف آئی آر درج کرنے متعلقہ پولیس تھانے میں گئے لیکن پولیس نے اغواہ نما گرفتاریوں میں ملوث ریاستی سیکورٹی فورسز ( سندھ رینجرز) کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے سے صاف انکار کردیا جبکہ تنظیم نے سیاسی کارکنان کی پاکستانی سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں جبری گمشدگیوں کی رپورٹ پاکستان سمیت بین القوامی انسانی حقوق کے اداروں میں جمع کرادی تھی لیکن تین ماہ کے طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود ان کو نہ منظرعام پر لایا گیا اور نہ ہی ان کے بارے میں ہمیں کوئی معلومات دیے جارہے ہیں۔
ترجمان نے انسانی حقوق کی اداروں کو متوجہ کرتے ہوئے کہا کہ ثناء اللہ بلوچ ، نصیر احمد ، حسام بلوچ اور رفیق بلوچ کے متعلق تمام بنیادی و ضروری معلومات انسانی حقوق کے تمام اداروں کو ارسال کیے گئے لیکن انسانی حقوق کے ادارے ہنوز اپنی ذمہ داریوں سے انحراف کرتے آرہے ہیں، سیاسی کارکنان اور طالب علموں کی اغواہ نما گرفتاریوں کے حوالے سے تمام شواہد فراہم کیے گئے ہیں، عینی شاہدین اپنے بیان ریکارڈ کراچکے ہیں اس کے باوجود انسانی حقوق کے اداروں نے ہماری تنظیم کے مرکزی رہنماؤں کی بازیابی میں کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے ہیں جو انتہائی افسوناک امر ہے۔
ترجمان نے کہا کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ انسانی حقوق کے ادارے بی ایس او آزاد کی مرکزی سیکریٹری جنرل ثناء اللہ بلوچ ، مرکزی کمیٹی کے ممبران نصیر احمد ، حسام بلوچ اور بی این ایم کے ممبر رفیق بلوچ کو منظر عام پر لانے کیلئے ریاستی اداروں پر دباؤڈالے کیونکہ ہمیں ان کے زندگیوں کے بارے میں شدید خدشات لاحق ہے۔
اس سے قبل ہمارے تنظیم کی سینکڑوں کارکنان ریاستی عسکری اداروں کے ہاتھوں جبری طور لاپتہ ہو ئے جن میں اب تک کوئی بھی سیاسی کارکن زندہ و سلامت بازیاب نہیں ہوا ہے البتہ تنظیم کے لاپتہ کیے گئے سینکڑوں کارکنان میں سے درجنوں کی مسخ شدہ لاش برآمد ہوئی ہیں۔
ترجمان نے مزید کہا کہ بلوچستان میں طلباء اور سیاسی کارکنان کی زندگیاں کسی بھی صورت محفوظ نہیں ہیں ریاست کی عسکری اداروں نے طلباء اور سیاسی کارکنان کو براہ راست نشانے پر رکھا ہے اس کی مثال بی ایس او آزاد جیسے جمہوری طلباء تنظیم کی ریاستی عسکری اداروں کے ہاتھوں زیر عتاب رہنا ہے۔
اقوام متحدہ سمیت انسانی حقوق کے بین القوامی ادارے بی ایس او آزاد کی مرکزی سیکریٹری جنرل ثناء اللہ بلوچ ، مرکزی کمیٹی کے ممبران نصیر احمد ، حسام بلوچ اور بی این ایم کے ممبر رفیق بلوچ کی تین ماہ سے زائد عرصہ گزرجانے کے باوجود منظر عام پر نہ لانے کی نوٹس لیتے ہوئے پاکستان کی عسکروں اداروں کو عالمی انصاف کے کٹہرے میں لائے اور ان نوجوان سیاسی کارکنان کی زندگیوں کو محفوظ کرنے میں اپنے بنیادی ذمہ داریوں کو پورا کریں۔