بی ایل اے و بی ایل ایف کا اشتراک اخباری بیان تک محدود نہیں، شہدائے تراسانی کو سرخ سلام – گہرام بلوچ

615

بلوچستان لبریشن فرنٹ کے ترجمان گہرام بلوچ نے شہید نور الحق بلوچ اور شہید ضیاالرحمن بلوچ کو سر خ سلام و خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ شہید نورالحق عرف بارگ2005 سے بلوچ جہد آزادی سے منسلک تھے۔ شہیدبارگ 2008 میں بی ایل ایف میں شامل ہوئے۔انہوں نے قومی خدمات اور جہد آزادی کے لیے اپنی زندگی وقف کرتے ہوئے جنگی محاذ کے ساتھ نوجوانوں کی تربیت میں اہم کردار ادا کیا۔شہید بارگ ایک عظیم جہد کار تھے۔انہوں نے اپنی زندگی میں قومی آزادی کی جہد میں کئی نشیب و فراز دیکھے مگر ایک آہن کی طرح وہ پارٹی کے آئین و منشور کے پابند ہونے کے ساتھ قومی محافظ کے طور پر ثابت قدم رہے اور جام شہادت نوش کی۔
شہید نورالحق اپنی علمی صلاحیت، جہدو جہد میں تجربہ اور بہترین حکمت عملیوں کے مالک ہونے کی وجہ سے کمانڈر کے عہدے پر فائز ہوئے۔ نوشکی ،خاران،خضدار،واشک اور بسیمہ میں جنگی محاذ کے ساتھ بلوچ نوجوانوں کی سیاسی تربیت کرتے رہے۔ آزادی کی جدوجہد میں انکی خدمات گراں قدر ہیں۔ وہ نوجوان سرمچاروں کے لیے نظریہ و فکر کے ساتھ ایک استاد کی حیثیت رکھتے ہیں اور جہد آزادی میں انکی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ شہید نورالحق اور شہید ضیاالرحمن کی شہادت میں ملوث افراد کے بارے میں ہماری تحقیق جاری ہے اور وہ ہماری گرفت سے نہیں بچ سکتے۔ انہیں ان کے آقا پاکستانی فوجیوں کی طرح نشانہ بنا کر سبق سکھائیں گے۔

زہری میں فورسز سے لڑتے ہوئے دو سرباز شہید ہوئے : بی ایل اے

گہرام بلوچ نے کہا کہ بی ایل ایف اور بی ایل اے نے اشتراک عمل کا عملا ثبوت دیا ہے بلکہ یہ لفاظی اور اخباری بیان تک محدود نہیں۔ اس کی واضح مثال بی ایل ایف اور بی ایل اے کے سرمچاروں کا ایک ہی مورچہ میں دشمن کے خلاف جنگ اور شہید ہونا ہے۔ 19 فروری کو ضلع خضدار کے تحصیل زہری کے علاقے تراسانی کوچو میں شہید نور الحق اور بی ایل اے کے کمانڈر شہیدضیاالرحمان عرف دلجان نے فورسز کا بہادری سے مقابلہ کرکے جام شہادت نوش کی ۔ بلوچستان لبریشن فرنٹ کمانڈر نورالحق اور کمانڈر ضیاالرحمن کو سرخ سلام پیش کرتی ہے ۔ شہید ضیاالرحمن بی ایل اے کی پلیٹ فارم سے جد و جہد میں مصروف عمل تھے اور سخت محنت، قابلیت اوربہترین گوریلا صلاحیتوں کا مالک ہونے پر بی ایل اے میں کمانڈر مقرر تھے۔ اِن کی شہادت یقیناًایک بہت بڑا نقصان ہے لیکن یہ دشمن کی خام خیالی ہے کہ بلوچ جد و جہد کمزور یا ختم ہوجائے گی۔ یہ ایک قومی تحریک اور قومی آزادی کی جد و جہد ہے اور اس میں آخری منزل تک بلوچوں کی شمولیت اور جنگ جاری رہے گی۔ یہ ایک گروہ نہیں جسے پاکستان اور اس کے کٹھ پتلی ختم کرنے کی باتیں کرتے ہیں۔
ان شہدا اور موجود سرمچاروں کی جد وجہد اور سخت محنت کی وجہ سے آج سراوان اور جھالاوان میں قومی تحریک ایک خوبصورت اور منظم شکل میں موجود ہے اور آنے والے وقتوں میں یہ مزید توانا ہوگی اور کسی قبائلی سردار اور ریاستی آلہ کاروں کے ڈیتھ اسکواڈ اور چند زر خریدوں کی مخالفت سے بلوچ قومی تحریک کا راستہ روکناممکن نہیں۔