بولان کی سحر – گلزار بلوچ

548

گراناز یہ میرو کی بانسری کی آواز ہے نا ؟؟ آنی نے گدھے پر لادھی مشکیزہ اتارتے وقت پیچھے موڑ کر پہاڑی کی جانب دیکھتے ہوئے پوچھا ۔۔۔۔۔
وہی ابدال ہے اور کون ہوسکتا ہے جو پہاڑوں میدانوں میں بانسری بجاتا پھرے ہمیشہ ۔۔۔۔گراناز نے بے دلی سے جواب دیا ۔۔۔۔
جو بھی ہومیرو بانسری اچھابجاتا ہے۔۔جی کرتا ہے بس اسے سنتی جاہوں۔۔مدہوش کرنے والی بانسری ہے اسکی۔۔ اپنی طرف کھینچتی ہے اسکی آواز۔۔جسم میں جیسے انگڑاہی سی آجاتی ہے۔۔دوڑ کر اس کی طرف جانے کو دل کرتا ہے۔۔۔آنی بے اختیا ر میرو کی بانسری پر بول پڑی ۔۔۔۔
آنی کےساتھ پانی بھرنے آئے اس کی سہیلیوں گراناز اور نوری نے زور دار قہقہ مارااور کہنے لگیں۔۔میرو ابدال ہے۔۔۔۔اس سے سر سنگیت کا کیا واسطہ۔۔آنی مشکیزے میں پانی بھرتے ہوئے کہنے لگی کہ میرو ابدال ہے مگر اسکی بانسری نہیں۔۔میرو کی بانسری میں درد ہے۔۔ کرب ہے۔گہرائی ہے۔۔مہر ہے ۔یا پھرگہراعشق۔۔۔آنی دوپٹے کو دانتوں میں لیکر بھری مشکیزے کے منہ کو باندھتے ہوئے پوچھنے لگی ۔۔۔کیا میرو بچپن سے ابدال ہے۔۔؟؟یا کسی کے عشق میں پاگل ہے ؟؟گراناز نے کہنے لگی ۔۔ میرو کے بارے میں کسی کو پتہ نہیں کہ وہ کب سے ایسا ہے۔۔ وہ کون ہے۔۔اسکے گھر والے کون ہیں۔۔۔۔پھر منہ چھڑاتے ہوئے گرانا ز کہنے لگی ۔۔اور کوئی کیوں کسی ابدال کے بارے میں اتنی معلومات رکھے۔۔۔میرو کراہی (کچھی سے خراسان منتقلی)کے دوران قافلوں کے ساتھ ہوکر آتا ہے اور سردیوں کی آمد پر وہ قافلوں کے ساتھ بولان کے کسی مزار پر رک جاتا ہے۔۔۔۔میرو کا مسکن بولان ہے۔۔وہ ابدال ہے۔۔۔دیوانہ ہے۔۔۔۔کسی سے لینا دینا نہیں اسکا۔۔۔۔
آنی پوچھنے لگی ۔۔ میرو خود نہیں کہتا کہ وہ کون ہے کیوں ایسا ہے ؟
گراناز کہنے لگی میرو کسی سے بات نہیں کرتا دوسروں کی بات سن کر بس مسکرادیتا ہے۔۔۔۔۔بانسری اس کانشہ ہے یا پھر اسکا ساتھی۔۔۔
گراناز ٹھنڈے پانی سےمنہ دھوتے ہوئے کہنے لگی۔۔۔ بابا کہہ رہے تھے کہ اس سال جب ہمارا کارواں کراہی ( کچھی سے خراسان منتقلی ) کیلئے بولان سے گذر رہا تھا ۔۔۔بی بی نانی کے مقام پر ہم رکے تو میرو وہاں مزار کے قریب بیٹھے قافلو ں کو دیکھ رہا تھا۔۔جب ہم روا نہ ہوئے تو ہمارے ساتھ ہو لیا۔۔۔
آنی ۔۔۔ قافلے والے اسے اپنے ساتھ لانے لیجانے کے لئے منع نہیں کرتے؟؟
گراناز ۔۔ میرو کو کوئی منع نہیں کرتا۔۔منع کرے بھی تو کیوں و ہ ابدال ہے۔۔کسی کو تنگ نہیں کرتا۔۔میرو کارواں کے کسی خلق میں نہیں رہتا۔کسی سے کچھ نہیں مانگتا۔۔وہ بس خلق سے دور پہاڑوں پر بیٹھ کر مدہوش رہتا ہے۔۔میدانوں میں دیوانہ وار چلتا ہے۔۔بانسری بجاتا اور سرونز سے سر بکھیرتا ہے۔۔۔۔خود میں گم رہتا ہے۔۔۔۔آنی پر جیسے ان باتوں کا اثر ہورہا تھا وہ میرو میں غرق ہوئے جارہی تھی۔وہ اس قدر ان باتوں کوانہماک سے سننے لگی کہ اس کا مشکیزہ بھر چکا تھا مگراسے پتہ ہی نہیں تھا۔۔۔۔
نوری نے جب مشکیزے کو بھرتے دیکھا تو آنی سے کہنے لگی ۔۔۔گودی مشکیزہ بھر چکا ہے اور تمہیں پتہ ہی نہیں۔۔۔۔گراناز مسکرا کر طنزا کہنے لگی ۔۔۔ آنی کو میرو ابدال سے عشق ہوگیا ہے۔۔۔۔دونوں قہقہ مار کر ہنسنے لگیں۔۔۔۔آنی شرما کر مشکیزے کوبابیرہ (مشکیزے کے منہ باندھنے والی رسی )سے باندھ کر گدھے پر لادھی اور گراناز اور نوری سے کہا ۔۔۔چلو دیر ہوگئی خلق بھی تو دور ہے۔۔۔۔آنی نے روانہ ہوتے ہوئے میرو کی طرف پہاڑی کی جانب دیکھا جسکی بانسری کی آواز اب بھی فضاﺅں میں مدہوشی پھیلارہاتھا ۔۔۔۔وہ چل دیے۔چشمے سے خلق تک کے سفر میں آنی جیسے کسی اور دنیا میں ڈوبی ہوئی تھی۔۔۔۔گراناز اور نوری باتوں میں مشغول تھیں جبکہ آنی سوچوں میں غرق تھی۔۔۔۔آنی سوچ رہی تھی کہ کچھ تو ہے جو میرو کے سر اور ساز کو اس قدر پراثر بنائے رکھتا ہے۔۔وہ خلق پہنچ چکے تھے۔۔۔آنی اس غم اور خیالوں سے آزاد ہوکر گھر کے کام کاج میں لگ گئی۔۔۔بزگل بھی آچکا تھا۔۔مال خوڑدہ (بکریوں کے دودھ دھونا کا وقت )کا وقت تھا آنی کام میں اس قدر مگن رہی کہ اسے میرو یاد ہی نہیں رہا۔۔آنی کو بکریوں کے بچوں سے بہت پیار تھا۔۔وہ انکے ساتھ کھیلتی۔۔۔انہیں پیار کرتی۔۔۔۔شام کے وقت جب سب سونے لگے آنی بھی دن بھر کے کام کاج سے تھکی نیند کیلئے بستر پر سر رکھی تو نیند نے اسے اپنی آغوش میں لے لیا۔۔
خلق کی عورتیں ہر دو دن بعد پانی بھرنے جاتی تھیں۔۔۔۔آج پھر عورتیں پانی بھرنے نکلیں۔۔ خلق کی کچھ دیگرعورتیں بھی ساتھ تھیں۔۔جب وہ چشمے پر پہنچیں تو سب اپنے اپنے مشکیزے بھرنے لگیں۔۔۔کچھ عورتیں کپڑے دھونے کیلئے لائے تھے انہوں نے پانی گرم کرنے کیلئے آگ جلائی تاکہ اس میں ’کال‘( جڑی بوٹیو ں سے بنائی گئی کپڑے دھونے والی دیسی صابن) کو ڈال کر اس سے کپڑے دھو سکیں۔۔کچھ عورتیں سردھونے لگ گئیں۔۔آنی پانی بھرتے ہوئے بار بار موڑ کر اس پہاڑی کی جانب دیکھتی ۔۔۔۔۔جہاں پچھلی دفعہ میرو بیٹھ کر بانسری بجا رہا تھا۔۔مگر آج میرو نہیں تھا۔۔گراناز جو آنی کے قریب تھی آنی کوکونی مار کر چھیڑتے ہوئے کہنے لگی۔۔کیوں میرو کو ڈھونڈ رہی ہو ؟؟ آج نہیں ہے تیرا ابدال ۔۔۔آنی گراناز کی طرف پیار سے آنکھیں نکال کر کہنے لگی کیسی باتیں کرتی ہو۔۔۔میں تو یوں ہی دیکھ رہی تھی۔۔میرا اس ابدال سے کیا لینا۔۔۔گرانا ز اور آنی کی باتوں کو سن کر خلق کی ایک عمر رسیدہ عورت ماہ گنج نے پوچھا کیا دیکھ رہی ہو لڑکیوں ؟؟؟ گراناز نے کہا آنی ابدال میرو کا پوچھ رہی ہے پچھلی دفعہ ہم پانی بھرنے آئے تو وہ اس پہاڑ ی پر بیٹھا بانسری بجا رہا تھا۔۔ماہ گنج نے ٹھنڈ ی سانس بھرتے ہوئے کہا۔۔۔۔میرو۔۔۔میرو ابدال ہے۔۔۔اللہ کا بندہ ہے۔۔ایسا ابدال جو عشق میں ہے اپنے خدا کا۔۔۔ درویش ہے میرو۔۔۔آنی تاتہ ماہ گنج کے قریب جا کر بیٹھ گئی جو کہ اپنے ساتھ لائے کپڑے دھو رہی تھی۔۔آنی نے پوچھا تاتی آ پ میرو کو جانتی ہو ؟ میرو کون ہے ؟ وہ ابدال کیسے بنا ؟ وہ کہاں رہتا ہے ؟ آج کیوں نہیں یہاں ؟ آنی بے چینی میں سوال پہ سوال کر رہی تھی۔۔۔۔ اس کی آنکھوں میں جیسے ایک چمک سی تھی۔۔ایک چاہ تھی میرو کے بارے میں۔۔۔ ماہ گنج نے کہا میری بیٹی میرو کا کسی کو پتہ نہیں کہ وہ کون ہے۔۔اس کے ماں باپ کون ہیں۔۔۔۔وہ ان وادیوں میں گھومتا رہتا ہے۔۔۔وہ کھبی کھبی کسی کو دکھائی دیتا ہے۔۔۔ کسی کو کیا پتہ وہ کہاں جائے کہاں رکے ؟؟ وہ خلق کے ہمراہ تو ہوتا ہے مگر ساتھ نہیں ہوتا۔۔۔۔جس خلق کے ہمراہ ہوتا ہے وہ خلق اس کا نگہبان ہوتا ہے۔۔۔یاپھر۔۔گہر ی سانس بھرتے ہوئے تانی نے کہا ۔۔۔۔ یا پھر وہ ہی اس خلق کااور ہم سب کانگہبان ہوتا ہے۔۔۔۔۔وہ انسانی تصور اور وجود سے ماورامعلوم ہوتا ہے۔۔۔۔ یا پھر بہت ہی وسیع ہے اسکی شخصیت جسکا احاطہ عام انسانی سوچ اور خیال سے نہیں کیا جاسکتا۔۔۔۔تاتی ماہ گنج میرو کی شخصیت اسطرح بیان کررہی تھی جیسے وہ کسی انسان نہیں فطرت کی تعریف کررہی ہو فطرت کے کسی رنگ کو بیان کررہی ہو۔۔۔
ماہ گنج کہنے لگی بیٹی میرو کو دیکھنا ہو اسکی شخصیت یا پھر اسکے اندر جھانکھنا ہو تومیرو کو چودیں کی رات کو کسی بہتے پانی کے قریب یا پھر کسی چٹا ن پر بیٹھے بانسری بجاتے سننا۔۔ دیکھنا۔۔میروہر چودیں کی رات کو کسی پانی کے قریب والی پہاڑی پر بیٹھ کر بانسری بجاتا ہے۔۔۔۔اس رات اسکی بانسری مدہوش کرنےوالی ہوتی ہے۔۔کہتے ہیں کہ ا س رات اس کی بانسری پر جن اور پری آکر رقص کرتے ہیں۔۔۔۔تاتی ماہ گنج کہے جارہی تھی اور آنی سنے جارہی تھی۔۔۔۔۔۔آنی نے پوچھا کہ تاتی میرو کسی کے عشق میں ایسا ہے ؟ تاتی ماہ گنج ۔۔ میری بیٹی ایسے درویش کسی مخصوص فرد کی عشق سے بالا ہوتے ہیں۔۔یہ خودسے عشق کرتے ہیں۔خدا سے عشق کرتے ہیں۔کائنات کی ہر پیاری چیزاور ہر انسان انکا عشق کا محور ہوتا ہے۔۔۔جس دھر تی پر رہتے ہیں اس سے عشق کرتے ہیں۔۔۔میرو کا عشق بھی ایسا ہے۔۔لیکن میرو کسی سے بات کرتا ہی نہیں آج تک کوئی میرو کو نہیں جان سکا اسکی اس کیفیت کا پس منظر کیاہے۔۔۔
ماہ گنج گہری سوچ میں ڈوبنے کے بعد کہنے لگی۔۔ شاید میرو کواس جیسا کوئی عاشق ابدال درویش ہی جان سکے۔۔۔۔
تاتی ماہ گنج نازاں ہو کرکہنے لگی پتہ ہے ۔۔۔ میرو بولان میں جس قافلے کے ہمراہ ہو لیتا ہے تو وہ قافلہ اس سال کا بولان کا انعام یافتہ قافلہ کہلاتا ہے۔۔۔۔ میرو بولان کے ہر گھاٹی اور ہر چوٹی سے جیسے بغل گیر ہوئے جاتا ہے۔۔وہ سفر کے دوران بولان سے باتیں کرتا جاتا ہے۔۔ایسا لگتا ہے بولان بھی اس سے باتیں کرتا ہے۔۔۔وہ بولان کے ساتھ ہنستا ہے۔۔۔۔کہتے ہیں کہ جب وہ بولان میں سفر کر نے پر روانہ ہوتا ہے تو بہت خوش ہوتا ہے۔۔۔اس پر مختلف کیفیت طاری رہتی ہے۔۔مدہوش رہتا ہے۔۔ہنستا ہے۔۔۔دھاڑیں مارتا ہے۔۔نازاں ہوکر چلتا ہے۔۔معصوم بن کر بولان کی آغوش میں سوتاہے۔۔۔۔وہ بولان کے چشموں کی پانی کوپی کر مدہوش ہوتا دکھائی دیتا ہے۔۔۔ایسا لگتا ہے بولان کے رنگ بولان کی خوبصورتی اسکے ساتھ سفر کرتے ہیں۔۔۔وہ بولان کو ایسے دیکھتا ہے جیسے کوئی عاشق اپنی محبوبہ کی دیدار کر رہا ہو۔۔۔بولان کی بلند پہاڑیوں کو غورسے دیکھتا ہے۔۔۔۔ تاتی ماہ گنج مسکر ا کرآنی کو دیکھتے ہوئے کہنے لگی ۔۔۔پتہ ہے آنی جب وہ دور بیٹھ کر بانسری بجاتا ہے تو ہمارے قافلے کے جانوروں سے لیکر جنگلی پرندوں تک اس کے بانسری کی آواز پر جیسے رقص کرتے دکھائی دیتے ہیں۔۔۔۔تاتی تواتر سے میرو کے بارے میں بولے جا رہی تھی۔۔۔ میرو کو دیکھو تو جیسے بولان اس میں دکھتا ہے ۔۔یا اس وقت بولان کو دیکھو تو میرو اس میں دکھتا ہے ۔۔بولان کی فطرت ہے میرو ۔۔بولان کا عشق ہے میر و ۔۔رنگ ہے بولان کا وہ ۔۔۔۔حسن ہے بولان کا میرو ۔۔۔
عورتیں پانی بھر چکی تھیں۔۔نوری نے آنی کو آواز دی آنی جلد ی کرو اپنے مشکیزے بھر لو ہمیں جانا ہے تاتی والے دیر سے آئیں گی مال خوڑدہ (بکریوں کے دودھ دھونے )کا وقت ہوئے جارہا ہے۔۔آنی ایک دم چونک پڑی ۔۔ اٹھی اور کہنے لگی نوری ٹھیک کہہ رہی ہو۔۔جلدی کرو اماں نے کہا تھا کہ آج ’مدرخریش‘ (دیسی گھی ) بنانا ہے۔۔بہت کام ہے ماں آج ڈانٹے گی۔۔جلد ی چلو۔۔۔۔آنی نوری اور گراناز پانی لیکر چل پڑیں۔۔۔راستہ تھا۔۔۔گراناز اور نوری کی باتیں تھیں۔۔۔۔مگر آنی گم سم تھی۔۔وہ خود میں تھی یا تھی میرو کے ساتھ۔۔۔سفر تھا۔۔کٹ رہی تھی۔۔۔خلق میں بابا کی گرج دار آواز نے آنی کو میرو کی خیالوں سے کھینچ لایا۔۔۔۔جلدی کرو آنی بزگل آرہا ہے۔۔آنی ایک دفعہ پھر خود سے دنیا کے اس بھیڑ کا حصہ بن گئی جو کہ انسان کو ہمیشہ سے خود سے بیگانہ کرتی آئی ہے۔۔۔آنی بزگل سے فارغ ہوئی تھی کہ ماں نے کہا۔۔آنی کہاں ہو۔۔جلد ی کرو مدر (دیسی گھی ) بنانے کیلئے آگ جلاﺅ۔۔۔مگر جوں ہی آنی بابا کے ڈر اور ماں کی ڈانٹ سے آزاد ہوتی میرو کے خیالات آن گھیر لیتے اسے۔۔مدر کیلئے آگ جلا کر جب آنی اس کے قریب بیٹھی تھی تو ایک بار پھر وہ میرو کے بارے میں سوچنے لگی۔۔۔۔میرو سب کیلئے ایک ابدال تھا۔۔یا پھر شاید کچھ کیلئے بزرگ۔۔۔یا درویش۔یا پھر کچھ کیلئے اللہ کا بندہ ۔۔یا معصوم یا قابل ہمدردایک انسان۔۔۔مگر آنی یہ ماننے کیلئے تیار ہی نہیں تھی۔۔ماں کی بار بار آوازیں ہی آنی کواس گم سم سی دنیا سے آزاد کرتی اور وہ اپنے کام میں مصروف ہوتی۔۔
اگست کا مہینہ تھا۔۔خلق دوزان کے چشمہ سے اوپر شوگ پہاڑی کے دامن میں ابھی تک پڑاﺅڈالے ہوئے تھا۔۔۔رات کی خنکی آوائیں افق پر چمکتے ستارے اور خاموشی۔۔۔۔ایک نوجوان جسم میں ایسی موسم سے ابھرتی انگڑائیاں فطری ہی ہوتی ہیں۔۔مگر کچھ دنوں سے آنی کی راتیں جیسے سوئے ایک جسم کے ساتھ ہوتی تھیں۔۔سوچ تھا کہ غالب تھا ہر چیز پھر۔۔۔دن بھر کی تکی جسم رات کو بستر پر سوچوں کے باعث نیند سے باغی تھی۔۔۔۔میرو کے بارے میں ماہ گنج کی باتیں افسانوی تھیں یا حقیقت ؟؟ آنی اس سچ کی تلاش میں تھی۔۔۔۔
یا خدایا ! کیسی کیفیت ہے۔۔۔آنی رات بھر کروٹوں میں گذارتی دن بھر کی مشقت بھر ی زندگی۔۔۔اعصاب شل ہوئے جارہی تھیں۔۔۔الجھی ہوئی خیالات تھیں۔۔۔ایسےجیسے روح بھٹک گئی ہو۔۔۔آنی خود میں نہیں تھی۔۔ماں آنی کی اس کیفیت کو بھانپ چکی تھی۔۔۔۔چہکتی آنی گم سم سی رہ کر ماں کی نظروں میں آچکی تھی۔۔۔ماں نے کئی دفعہ نظر انداز کیا مگر اب آنی کی کیفیت بدلنے لگی تھی۔۔ماں کو غم کھائے جانے لگی۔۔۔کئی دفعہ آنی سے اسکی طبیعت کا بھی پوچھتی مگر آنی کہتی ماں ٹھیک ہوں۔۔پانی بھر نے جانیوالی آنی جو ہمیشہ راستے میں چہکتی۔۔۔دوڑھتی۔۔۔۔فطرت کی عاشق آنی جب سہیلیوں کے ہمرا ہ پانی بھرنے جاتی تو راستے میں اداﺅں سے چلتی۔۔گنگناتی۔۔پہاڑوں کی عاشق تھی۔۔کہتی تھی کہ پہاڑوں سے عزم و حوصلہ سیکھتی ہوں میں۔۔باپ کی مانند ہوتی ہیں۔۔ہر کیفیت میں سینہ تانے کھڑے رہتے ہیں۔۔۔مایوسں نہیں کرتے کسی کو۔۔ یہ مضبوط قلعے کی مانند ہوتی ہیں۔۔اپنے فرزندوں کے قلعے ہیں۔۔۔میدان ماں ہوتی ہے۔۔زرخیز ہوتی ہے۔۔پالتی ہے ہمیں۔۔آنی فطرت کی عاشق تھی۔۔یاپھر فطرت کی کوئی خوبصورت رنگ تھی۔۔۔جب کچھی سے خراسان یا خراسان سے کچھی قافلے نقل مکانی کرتے تو آنی سج سنور کر اپنے قافلے میں چلتی اور کہتی کہ ہماری نقل مکانی ڈر اور خوف کی وجہ سے نہیں ہوتی اور نہ ہی یہ مایوسی کا اظہار ہوتی ہیں ۔۔۔۔۔یہ تباہی یا پھر بربادی کی علامت نہیں ہوتی ہیں۔۔۔ یہ تو مہر کا سفر ہوتا ہے ۔۔عشق کے قافلے ہوتے ہیں یہ۔۔۔اپنی سر زمین سے مہر اپنی تہذیب سے عشق ۔۔۔۔ہتم کی چاہت ہوتی ہے موسموں سے مہر کا ثبوت ہوتے ہیں یہ۔۔۔میں اس لئے سج سنور کے چلتی ہوں کہ بولان کے رنگوں میں رنگ جائوں ۔۔۔۔یہ قافلے بولان کاحسن ہوتی ہیں اور میں اس حسن کا ایک حصہ بننے کی کوشش کرتی ہوں ۔۔۔۔۔
آنی جب ان راہوں میں اداﺅں سے چلتی ایسے لگتا قدرت فطرت کے زریعے اپنی وجود کا اظہار کررہا ہو۔۔۔۔مگر اب بجھی بجھی سی تھی آنی۔۔۔فطرت کا کوئی رنگ جیسے دیمی پڑھ گئی ہو۔۔ شباب سے بھر پور آنی اب سب کچھ جیسے لٹا چکی تھی۔۔۔گراناز اور نوری بھی اسے دیکھتے۔۔سہیلی کی یہ حالت دیکھی نہیں جاتی ان سے پریشان ہوتے تھے وہ۔۔
ماں نے خلق کے بزرگ مامد بخش سے دم بھی کروایا۔۔۔مگر آفاقہ نہ ہوا۔۔شوگ پہاڑی پر (خان نا مسیت ) خان اعظم میر نوری نصیر خان کی آمد پھر بنائی گئی مسجد جو کہ اب عقیدت گاہ بن چکی ہے ’روایت‘ ) وہاں بھی ماں آنی کو لے گئی۔۔تاکہ کچھ آفاقہ ہو۔۔مگر آنی تھی کہ سنھبل ہی نہیں رہی تھی۔۔۔کچھ کھویا تھا آنی نے یا پھر سب کچھ کھو دیا تھا۔۔۔خیال سے خیالوں میں میرو کاہوچکا تھا۔۔یا پھر میرو کے روحانی سفر میں شریک ہوچکی تھی۔۔۔۔۔۔ماں تھی کی پریشان تھی آنی کیلئے۔۔بابا کو بھی اب فکر ہونے لگا تھا۔۔دونوں نے سوچ بچار کے بعد آنی کی شادی کرانے کا فیصلہ کیا۔۔۔۔اس دفعہ کچھی میں جاکر آنی کی شادی کرا دینگے آنی کے بابا نے کہا۔۔۔۔آنی کی ماں نے حامی بھر لی۔۔۔مگر دم درود اور دوا دارو کا سلسلہ بھی جاری رہا۔۔۔ آنی کو تلاش تھی جیسے کسی کی۔۔۔پانی کیلئے دوزان کے چشمہ پر جاتی تو اس کی نظریں میرو کو ڈھونڈتیں۔۔
اگست کے مہینے کے دن تھے چاند کی ساتویں تاریخ تھی۔۔آنی کی طبیعت دن میں سنبھلی رہتی مگر رات کو چاند کے چڑھ جانے سے آنی کی طبیعت بگڑ جاتی۔۔وہ گدان سے دور جاتی بیٹھ کر چاند کو دیکھتی۔۔بستر میں ہوتی تو کروٹیں بدلتی۔۔درد تھا۔۔۔کرب تھی۔۔۔۔خودسے الجھی تھی آنی۔۔۔طوفانوں میں جیسے اکیلی لڑھ رہی تھی آنی۔۔۔دھند تھاتاریک رات تھی آنی کو تلاش تھی سورج کی۔۔چاندنی رات میں ٹوٹتی بدن سے آنی کا کرب بڑھ جاتا۔۔۔۔۔چاند کے شباب کے بڑھ جانے سے آنی کی حالت اور بگڑنے لگی تھی۔۔۔راتوں کو نیند نہ کرنے سے آنی کی آنکھیں سوجی سرخ اور مخمور دکھتی تھیں۔۔
آج چودویں کی رات تھی۔۔ آنی کی طبیعت کچھ سنبھلی سے دکھائی دے رہی تھی۔۔۔آنی نے دن کو پانی بھرنے کے بعد نہادھو کر اپنے نئے کپڑے پہن رکھی تھی۔۔۔۔اس کی چوٹی میں بندھے گنگروکی آواز و اور ماتھے پر گرے بالوں کے لٹ ہائے اللہ کیا غذب کر رہی تھیں۔۔آنی آج اپنے بھر پور شباب میں تھی۔۔۔۔۔ماں بھی بہت خوش تھی کہ اسکی آنی کی طبیعت آج ٹھیک تھی۔۔۔ماں نازاں بھی تھی اپنی بیٹی کی خوبصورتی پر۔۔کیو ں ناز نہ کرتی آنی خلق میں سب سے خوبصورت بھی تو تھی۔۔۔بیٹی کو نظر نہ لگے ماں نے طافو(توا ) سے توڑی سیاہی لیکر بیٹی کی گردن پر ایک سیاہ تل بنا دیا۔۔۔آنی کا چہرہ چودیں کی چاند کی طرح چمک رہی تھی ۔۔۔فطرت کا کھیل تھا یا پھر انجانے میں سب اتفاق سے ہو رہا تھا۔۔آنی کو سجایا جا رہا تھا۔۔دلہن بننے جارہی ہو جیسے۔۔۔۔رات کو گدان کے سامنے جلتے آگ کے قریب سب بیٹھے تھے۔۔۔۔۔۔آگ کے الائو میں آنی کا چہرہ طلوع سورج کی مانند چمک رہی تھی ۔۔آنی مائیکان کے انتظار میں تھی ۔۔۔۔۔ شوگ کی پہاڑی آڑے آرہی تھی آنی اور مائیکان کے درمیان ۔۔دونوں کا جیسے مقابلہ حسن ہونے جارہا تھا۔۔۔۔بابا اٹھے سونے کیلئے تو سب سونے کی غرض سے بستروں میں جاگھسے۔۔۔آنی بھی بستر پر آکر لیٹ گئی۔۔۔توڑی ہی دیر میں شوگ کی پہاڑی سے بلند ہوتامائیکان (چودویں کی چاند )آج اپنے شباب میں تھا۔۔ایسے جیسے سب کو بغل گیر کرنے آیا ہو۔۔آنی نے جونہی چاند کو دیکھا تو اسکی طبیعت عجیب سے ہونے لگی۔۔۔۔وہ کروٹیں بدلنے لگی۔۔۔دن کی تھکاوٹ تھی سب نیند کی آغوش میں چلے گئے تھے۔۔مگر آنی نیند سے کہیں دور خلاﺅں میں سفر کررہی تھی۔۔اسے انتظار تھا۔۔۔خواہش تھی کی کبھی میرو کو چودویں کی رات کو بانسری بجاتے قریب سے جا کر دیکھوں۔۔۔کروٹیں لیتی آنی رات گزار رہی تھی۔۔۔آج کی کیفیت تو الگ ہی تھی۔۔چاند آنی سے اورآنی چاند سے جیسے ہم کلام تھیں۔۔۔۔۔یا پھر دونوں کو میرو کا انتظار تھا۔۔۔
آدھی رات ہوچکی تھی۔۔آنی سیدھی لیٹی چاند کو دیکھ رہی تھی چاند سر پر آکر جیسے آنی کے ماتھے کو چوم رہا تھا۔۔۔خاموشی تھی ہر طرف۔۔۔۔دوزان پہاڑ کی دامن میں ہلکی سی ہوا ہر طرف خوشبوئیں بکھیر رہی تھی۔۔۔آنی کو گمان تھا جیسے کسی کی آمد کا۔۔۔۔کہ۔۔ہلکی سی آواز آنی کی کانوں میں ٹکرائی۔۔چونک پڑی آنی۔۔۔دھوکہ تھا یاشدت اتنظار کے باعث خود فریبی۔۔۔۔۔آنی گو مگو کی کیفیت میں تھی۔۔آواز بکھرنے لگی چار سو۔۔۔
میرو کی بانسری دوزان کی دامن میں بولان کے لئے سر بکھیرنے لگا۔۔آنی کی جسم میں انگڑائیاں ابھرنے لگیں۔۔۔بے چینی بڑنے لگی۔۔۔آنی اٹھ بیٹھی بستر پر۔۔۔آواز تھا کہ دل کی دھڑکنوں کو پسیجنے جارہی تھی۔۔۔انگڑائیاں ابھرنے لگی تھی آنی کی جسم میں۔۔۔۔ضبط ٹوٹ رہا تھا۔۔۔آنی بے اختیار اٹھی اور قدم بڑھانے لگی۔۔۔آنی اپنے اردگرد کے ماحول سے نکل چکی تھی۔۔بابا کا ڈر سماج کے بندھن بھول چکی تھی آنی۔۔۔۔ننگے پیر کھلے بال اور سہمی آنی دیمی قدموں کے ساتھ روانہ ہوگئی۔۔آنی اپنے حواس میں نہیں ہو جیسے۔۔۔۔آہستہ قدم تیز ہونے لگیں ۔۔کچھ ہی دیر میں آنی دوڑ رہی تھی ۔۔۔آواز دوزان کے چشمے کی طرف سے آرہی تھی۔۔آنی جیسے ہواﺅں میں تیرتی آواز کی جانب دوڑ رہی تھی۔۔۔توڑی ہی دیر میں آنی چشمے کے قریب پہنچ گئی۔۔چشمے کے قریب ایک شخص آگ جلائے بیٹھا بانسری بجھا رہا تھا۔۔آنی کی قدموں کی آہٹ سن کر وہ خاموش ہوا ۔۔اورپھر سر اٹھاکر دیکھنے لگا۔۔۔ چہرے پر گھنے بکھر ے بال ،گھنی داڑھی ،رعبدار مونچیں سرخ بڑی آنکھیں آنی پر جم گئیں۔۔۔۔
آنی دوڑ کر آئی تھی۔۔اکھڑی اکھڑی گہری سانسیں۔۔کھلے بال ۔۔دوڑ کے باعث سرخ چہرہ۔۔۔ بڑی او ر بھری آنکھیں۔۔۔نازک ننگے پیروں سے رستے خون۔۔۔
دونوں ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔۔۔لمحے گذرے۔۔یا برس ہابرس۔۔صدیاں بیت گئی ہوں شاید۔۔۔یا پھر وقت رک گیا ہو۔۔آنی آنکھوں ہی آنکھوں میں میرو سے سوالات کرنے لگی۔۔۔سوالات۔۔ جو شاید اس کے ساتھ ازل سے تھے۔۔اسکی سرشت کا حصہ ہوں جیسے۔۔
تم کون ہو۔۔۔کب سے ہو۔۔۔۔ابدال کیوں ہو۔۔تمہاری سنگیت میں اتنا درد کیوں ہے۔۔کس سے عشق ہے تمہیں۔۔یہ کرب کیسا ہے۔۔۔اس دیوانگی کی وجہ۔۔۔۔تاریکی سے سحر تک سر کا راز کیا۔۔۔۔میرو آنکھیں جمائے آنی کی حسن اور ا س کی آنکھوں میں ابھرنے والے سوالات محسوس کررہا تھا۔۔۔
آنی جیسے میرو کو ریزہ ریزہ کرکے اس کے راز افشاں کرنا چا رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔آنی آنکھوں ہی آنکھوں میں پوچھ رہی تھی بولان میں کیا ایسا ہے جس سے تمہیں دیوانگی کی حد تک لگاﺅ ہے۔۔بولان سے رشتہ کیسا۔۔ بولان سے جنمے ہوتم۔۔۔؟؟؟؟
میرو سن رہا تھا۔۔۔۔۔سوالوں کے تواتر کے درمیان میرو مسکرایا۔۔۔۔ ہاتھوں میں پکڑی بانسری ہونٹوں پر لگائی سر جھکا یا اور بجانے لگا۔۔۔
بانسری کی آواز کے ساتھ ہی آنی کے سوالات کا سلسلہ رک گیا۔۔اور آنی کی جسم کا ضبط ٹوٹ گیا۔۔لمحوں میں آنی کی شباب بھری جوانی محو رقص تھی۔۔۔۔
(ہائے اللہ ! چودیں کی چاند ہوبولان کا دامن ہودوزان کی گود ہو میرو کی بانسری ہواور آنی کا رقص ہو۔۔بولان کی حسن اور عشق کا ملاپ ہو رہا ہو ۔۔میں کہتا ہوں زمین تو کیا آسمانوں پر بھی رقص ہورہا ہو گا اس لمحے )
میرو جیسے اپنے سر سے سنگیت سے آنی کے سوالوں کاجواب دینے لگا۔۔
میں عشق ہوں۔۔فطرت ہوں۔۔۔ازل سے ہوں ابد تک رہونگا۔۔۔۔درد مجھ میں نہیں۔۔۔ حس میں ہے۔۔ ۔شعور میں ہے۔۔ چاہ میں ہے۔۔ عشق میں ہے۔۔۔بولان !بولان تو دکھنے والی نظروں کودکھتا ہے۔۔عشق سے بڑھ کر عشق ہے بولان۔۔۔۔فطرت ہے بولان ہے۔۔محبوب ہے بولان۔۔۔جذبہ ہے بولان۔۔مہر گڑھ ہے بولان۔۔۔۔انسانی تہذیب کی تاریخ کا نگہبان ہے بولان۔۔میرا خمیر ہے بولان۔۔۔۔میں لہو ہوں ہر اس شخص کا جو ازل سے ابد تک بولان کی عشق میں خود کو مٹایا اور مٹاتا رہیگا ۔۔۔میں رقص ہوں ہر اس شباب کا جو بولان کی عشق میں مدہوش ہے ۔۔۔میں حسن ہوں ہر اس قافلے کا جو بولان کی بل کھاتی گاٹیوں میں تہذیب کو لیکر چلتا ہے ۔۔۔میں لج و معیار ہوں بولان کے ہر اس ماہ کا جس کا لال بولان کی آغوش میں لہو بہائے سو رہے ہیں ۔۔۔میں رنگ ہوں بولان کا ۔۔۔ میں سنگیت ہوں بولان کا ۔۔۔۔
میرا کرب تاریکی سے ہے مگر میری امید سحر سے ہے۔۔
۔۔۔
۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سورج کی کرنیں آنی کی چہر ے پر پڑیں تو آنی کو ہوش آیا وہ چشمے کے قریب رقص کرتے کرتے گر کر بے ہوش پڑی تھی۔۔۔آنی اٹھیں اور جلد ی سے نظریں دوڑائیں۔۔۔
میرو نہیں تھا۔۔تاریکی نہیں تھی۔۔۔
سورج کی کرنیں شوگ کی پہاڑی سے سحر کی نوید لئے چمک رہی تھیں۔۔۔۔۔