بلوچ آزادی پسند قیادت اور ٹوئیٹر
دی بلوچستان پوسٹ رپورٹ
بہزاد دیدگ بلوچ
اگر بلوچستان کے بارے میں یہ کہا جائے تو ہر گز غلط نا ہوگا کہ بلوچستان سے صرف بلوچ واقف ہیں کیونکہ یہاں جو کچھ ہورہا ہے، ان پر گذر رہا ہے اور باقی سب حقائق کے بر خلاف دانستگی یا غیر دانستگی میں کسی کے مفاد، کوئی قیاس یا کسی کے پروپگینڈے پر مبنی بیانیے کو دہرا کر اس پر حقیقت کا گمان کررہے ہیں۔ خیال و حقیقت کے اس وسیع خلیج کی سب سے بڑی وجہ نا واقفیت اور حقائق تک رسائ حاصل کرنے میں بے بسی ہے۔ اسی خلیج کو مٹانے کیلئے ہی صحافت جیسے مقدس پیشے کا آغاز ہوا، لیکن بلوچستان جس طرح سے عملی طور پر صحافیوں کیلئے نو گو ایریا بن چکا ہے، اس امر نے یہ بات نا ممکن بنا دیا ہے کہ دنیا بلوچستان کے حقیقی حالات سے واقف ہوجائے۔
یہ بات محض بلوچستان کے حالات اور حقائق تک موقوف نہیں بلکہ یہاں موجود آزادی پسند قیادت اور جماعتوں کا دنیا اور بلوچ عوام سے رابطہ کاٹنے کیلئے کسی بھی طرح کے میڈیا میں ان کے موقف پر اور اظہار رائے پر مکمل سنسرشپ عائد کی گئی ہے، ایک طرف یہ قائدین و جماعتیں سنسرشپ کا شکار ہیں تو دوسری جانب بلوچستان میں کسی بھی آزادی پسند جماعت کیلئے پر امن سیاسی جدوجہد یا عوامی رابطے کے تمام ذرائع کو قابلِ قتل جرم بنادیا گیا ہے۔
یہ پوری صورتحال یقیناً ایک سوچے سمجھے پالیسی و منصوبے کے تحت پیدا کیا گیا ہے، جس کا مقصد خالصتاً بلوچ آزادی پسند موقف و بلوچستان کے حقیقی حالات کو نا صرف بیرونی دنیا بلکہ بلوچ عوام سے بھی اوجھل رکھنا ہے اور سرکاری میڈیا و سرکاری اشتہارات کے طفیل چلنے والے میڈیا ہاوسز کے ذریعے ایک مسلسل پروپگینڈے کے ذریعے ریاستی بیانیے کو مستحکم کرنا ہے۔
اکیسیوں صدی ٹیکنالوجی کی صدی ہے، اس صدی کی ایک سب سے بڑی دین سوشل میڈیا ہے، سوشل میڈیا نے جس تیزی سے اور جس کثیر تعداد میں لوگوں کو جوڑا ہے اس کی نظیر تاریخ میں نہیں ملتی، تاریخ میں پہلی بار میڈیا اور خبر عام لوگوں کے ہاتھوں میں آئی ہے، اسی لیئے ہمیں سوشل میڈیا کئی ایک ممالک میں انقلابی تبدیلیاں لاتے ہوئے بھی دیکھائی دیتا ہے۔
اسی صورتحال کے پیش نظر ہمیں بلوچ سیاسی جماعتیں اور قائدین بھی اپنی حکمت عملیاں بدلتے دِکھائی دیتے ہیں، ریاستی کوششوں کے باوجود وہ عوامی رابطے سے کٹنے کے بجائے، ہمیں سوشل میڈیا کے ذریعے اپنا موقف بیرونی دنیا اور بلوچ عوام تک پہنچاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اس وقت تقریباً تمام بلوچ قائدین کے ٹوئیٹر اکاوئنٹ ہمیں متحرک نظر آتے ہیں، اب وہ اخبارات اور دوسرے میڈیا ذرائع کے مقابلے میں زیادہ تیزی اور زیادہ لوگوں تک اپنی بات پہنچا رہے ہیں۔
اس بابت ہمیں جو غیر معمولی بات نظر آتی ہے، وہ یہ ہے کہ ٹؤئیٹر پر نا صرف بلوچ آزادی پسند سیاسی جماعتوں کے سربراہان آپکو موجود ملتے ہیں، بلکہ اب بہت سے بلوچ آزادی پسند مسلح جماعتوں کے سربراہان و سینئر کمانڈران بھی اپنی بات اور پیغام بذریعہ ٹوئیٹر آسانی سے پہنچا رہے ہیں، جو چند سال پہلے مین اسٹریم میڈیا کے ذریعے ایک بہت مشکل کام تصور ہوتا تھا۔
اس وقت آپ ٹوئیٹر پر بلوچ لبریشن فرنٹ کے سربراہ ڈاکٹر اللہ نظر بلوچ سے لیکر بلوچ لبریشن آرمی کے سینئر ترین کمانڈر اسلم بلوچ تک اور بلوچ نیشنل مومنٹ کے سربراہ خلیل بلوچ سے لیکر بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے سربراہ کریمہ بلوچ تک سب سے بآسانی ٹوئیٹر پر رابطہ رکھا جا سکتا ہے اور فالو کرکے نا صرف بلوچستان کے حالات بلکہ عالمی حالات پر انکی رائے کو پڑھی جا سکتی ہے۔
براہمداغ بگٹی:
براہمداغ بگٹی شہید بلوچ رہنما اور بلوچ آزادی پسند تحریک کے ایک ہیروک کردار نواب اکبر خان بگٹی کے پوتے ہیں، جو سوئیٹزرلینڈ میں جلاوطنی کی زندگی گذار رہے ہیں۔ آپ بلوچ ریپبلکن پارٹی کے صدر ہیں۔ ٹوئیٹر پر ایک لاکھ سے زائد فالور رکھنے والے براہمداغ بگٹی ٹوئیٹر ہینڈل @BBugti سے ٹویٹ کرتے ہیں۔
اپنے تازہ ترین ٹویٹ میں وہ اپنے ہمشیرہ کے برسی کے موقع پر کہہ رہے ہیں کہ ” مجھے اپنے ہمشیرہ پر فخر ہے، انہوں نے اپنی بچی کو اپنے آنکھوں کے سامنے قتل ہوتے دیکھا اور پھر اپنی جان قربان کردی لیکن پھر بھی دشمن سے رحم کی بھیک نہیں مانگی۔ وہ ڈاڈائے قوم شہید اکبر بگٹی کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے شہید ہوئی۔ تم ہمیں مار سکتے ہو لیکن ہمیں جکھنے پر مجبور نہیں کرسکتے”۔
ڈاکٹر اللہ نظر بلوچ:
ڈاکٹر اللہ نظر بلوچ اس وقت بلوچستان میں سب سے متحرک اور بڑے مسلح جماعت بلوچستان لبریشن فرنٹ کے سربراہ ہیں، وہ پیشے کے اعتبار سے ایک ڈاکٹر ہیں۔ آپ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے بانی اور پہلے چیئرمین بھی رہ چکے ہیں۔ ایک عام غریب بلوچ گھرانے میں پیدا ہونے سے لیکر بلوچستان کے سب سے بڑے مسلح جماعت کے سربراہ بننے کے اس غیر معمولی سفر کی وجہ سے بلوچ نوجوانوں میں ڈاکٹر اللہ نظر بلوچ انتہائی مقبول ہیں۔ ٹوئیٹر پر 32 ہزار فالور رکھنے والے ڈاکٹر اللہ نظر بلوچ ٹوئیٹر ہینڈل @DRAllahNizar سے ٹوئیٹ کرتے ہیں اور اپنے تعارف میں کہتے ہیں کہ میں بی ایل ایف کا ایک معمولی سپاہی ہوں جو بلوچستان کے آزادی کے غیرمعمولی مقصد کیلئے جدوجہد کررہا ہے۔
ڈاکٹر اپنے تازہ ٹوئیٹ میں چین سے مخاطب ہوکر کہتا ہے کہ ” چین کو یہ بات اچھے سے ذہن نشین کرلینا چاہیئے کے وہ ایک ایسے قوم کا سامنا کررہے ہیں جس طرح کے قوم کا سامنا امریکیوں نے ویتنام اور جاپانیوں نے چین میں کیا تھا۔ بلوچستان میں بھی وہی حالات ہیں۔ گوادر پورٹ اور سی پیک روز اول سے ہی ناکام منصوبے ہیں۔ چین کو اپنی ہی تاریخ بلوچستان میں دہرانے سے اجتناب کرنا چاہیئے”۔
اسلم بلوچ:
اسلم بلوچ کا شمار ان چند ایک لوگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے بلوچستان میں موجود جاری تحریکِ آزادی کی بنیاد رکھی اور بلوچستان کے پہاڑوں سے نکال کر گوریلا جنگ کو شہروں میں شروع کردیا۔ اسلم بلوچ بلوچ لبریشن آرمی کے سینئر ترین کمانڈروں میں سے ہیں۔ اسلم بلوچ اپنے جنگی و علمی صلاحیتوں، سیاسی بالیدگی اور غیر روایتی حربی حکمت عملیوں کی وجہ سے، بلوچ مزاحمتی تحریک میں ایک نمایاں و مستند مقام رکھتے ہیں، طویل عرصے تک زیر زمین اور مخفی رہنے کے باوجود انکی آواز الجزیرہ سمیت مختلف میڈیا ذرائع میں بی ایل اے کی نمائیندگی کرتے سنائی دیتی رہی لیکن حال ہی میں وہ اپنے مکمل شناخت کے ساتھ ٹوئیٹر پر ہمیں نظر آتے ہیں اور ٹوئیٹر ہینڈل @Aslam_Baluch1 سے ٹویٹ کرتے ہیں۔
اپنے تازہ ترین ٹویٹ میں پاک چین گٹھ جوڑ پر وہ کہتے ہیں کہ ” بلوچ قوم اور بلوچ سرزمین کیلئے اصل خطرہ پاکستان اور چین کے ناروا اور توسیع پسندانہ عزائم ہیں جنکو وہ سی پیک منصوبے کے نام پر پایہ تکمیل تک پہنچاتنے کی کوشش کررہے ہیں۔، بلوچوں کا مزاحمتی کردار ان عزائم کے خلاف اور اپنے وطن کے دفاع کیلئے ہے، جس میں وسعت اور شدت کی اسلیئے بھی ضرورت ہے کیونکہ ہمارے دشمن اسی کو اپنے لیئے بڑا خطرہ سمجھتے ہیں۔”
خلیل بلوچ:
خلیل بلوچ اس وقت بلوچستان کے سب سے بڑے آزادی پسند سیاسی جماعت بلوچ نیشنل مومونٹ کے چیئرمین ہیں، آپ نے سیاست کا آغاز بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن سے کیا اور بی ایس او کے وائس چیئرمین بھی رہ چکے ہیں۔ خلیل بلوچ کا شمار با علم اور باخبر بلوچ سیاسی قائدین میں سے ہوتا ہے۔ خلیل بلوچ ٹوئیٹر ہینڈل @ChairmanKhalil سے ٹویٹ کرتے ہیں۔
اپنے آخری ٹویٹ پیغام میں خلیل بلوچ پختون احتجاج کو ایک مثبت قدم گردانتے ہوئے کہتے ہیں کہ ” پختون نسل کشی کے خلاف احتجاج میں کثیر تعداد میں پختونوں کی شرکت ایک آزاد پختون وطن کے جدوجہد کیلئے مثبت علامت ہے”۔
کریمہ بلوچ:
کریمہ بلوچ اس وقت بلوچستان کے سب سے بڑے طلبہ تنظیم بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے چیئرپرسن ہیں، وہ کینیڈا میں جلاوطنی کی زندگی گذاررہے ہیں۔ وہ بی ایس او کی طویل تاریخ میں تنظیم کی پہلی خاتون سربراہ ہیں۔ وہ بلوچ خواتین میں ایک آئیڈیل کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ٹوئیٹر پر تیس ہزار سے زائد فالور رکھنے والے کریمہ بلوچ ٹوئیٹر ہینڈل @KarimaBaloch سے ٹوئیٹ کرتی ہیں۔
اپنے ایک تازہ ٹویٹ پیغام میں کریمہ بلوچ اپنے تنظیم بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے سیکریٹری جنرل عزت بلوچ کے جبری گمشدگی کی خبر سے لوگوں کو آگاہ کرتے ہوئے کہہ رہی ہیں کہ ” پاکستانی خفیہ اداروں اور رینجرز نے بی ایس او آزاد کے سیکریٹری جنرل ثناء اللہ عرف عزت بلوچ کو کراچی سے اغواء کرلیا ہے۔”
حیربیار مری:
طویل عرصے سے لندن میں جلاوطنی کی زندگی گذارنے والے حیربیار مری بلوچ رہنما مرحوم خیربخش مری کے صاحبزادے ہیں۔ آپ فری بلوچستان مومنٹ نامی تنظیم کے سربراہ ہیں۔ حیربیار مری کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بلوچ لبریشن آرمی کے بھی سربراہ ہیں لیکن حیربیار مری اس بات کی تصدیق نہیں کرتے۔ حیربیار مری اپنا ٹوئیٹر اکاونٹ خود نہیں چلاتے، انکے ٹوئیٹر اکاونٹ کے مطابق یہ انکے دوست چلاتے ہیں لیکن اکاونٹ انکا آفیشل ہے۔ آپ @hyrbyair_marri کے ٹوئیٹر ہینڈل سے ٹوئیٹ کرتے ہیں۔
آپنے آخری پیغام میں وہ کہتے ہیں کہ ” پاکستان گذشتہ سات دہائیوں سے امریکہ اور عالمی برادری کو دھوکہ دے رہا ہے، پاکستان پر دوبارہ بھروسہ کرنا ایک بہت بڑی غلطی ہوگی”۔
مہران مری:
مہران مری مرحوم نواب خیربخش مری کے سب سے چھوٹے صاحبزادے ہیں، آپ یواین ایچ سی آر اور یورپین یونین میں بلوچستان کے نمائیندے ہیں۔ مہران مری کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ یونائیٹڈ بلوچ آرمی کے سربراہ بھی ہیں لیکن وہ یو بی اے سے کسی طرح کی تعلق سے انکار کرتے ہیں۔ ٹوئیٹر پر 21 ہزار سے زائد فالور رکھنے والے مہران مری ٹوئیٹر ہینڈل @MehranMarri سے ٹوئیٹ کرتے ہیں۔
31 جنوری کو اپنے آخری ٹوئیٹ پیغام میں وہ کہتے ہیں کہ ” چھ سال پہلے آج کے دن پاکستانی خفیہ ادارے آئی ایس آئی نے نواب براہمداغ بگٹی کی ہمشیرہ زامر اور انکی بیٹی جانان کو کراچی میں قتل کردیا۔ ان دو شہیدوں کی یاد اب تک ہمارے دلوں میں تازہ ہے اور ہمیشہ رہے گی۔ انکا بہترین بدلہ آزاد بلوچستان ہے۔
حمل حیدر بلوچ:
حمل حیدر بلوچ کا تعلق بلوچ نیشنل مومنٹ سے ہے، آپ بی این ایم کے عالمی نمائیندے اور بیرون ممالک ترجمان ہیں۔ حمل حیدر ایک متحرک سیاسی کارکن ہیں، ایک قلیل عرصے میں انہوں نے بی این ایم کو بلوچستان سے باہر کئی ممالک میں منظم کیا اور کئی احتجاجیں اور آگاہی مہم چلانے اور میڈیا روابط قائم کرنے میں کامیاب ہوئے۔ وہ ٹوئیٹر ہینڈل @HammalHaidar سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔
گوادر ایکسپو کے بارے میں ٹوئیٹ کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ” گوادر ایکسپو مکمل طور پر ناکام ہوگیا،، بلوچستان میں بلوچوں کے منشاء کے بغیر کچھ بھی کامیاب نہیں ہوسکتا۔ چین کو اب سمجھ لینا چاہیئے کہ جس طرح وہ اربوں ڈآلر بلوچستان میں پانی کی طرح بہارہا ہے سب ضائع ہوجائیں گی”۔
میر عبدالنبی بنگلزئی:
میر عبدالنبی بلوچ تحریکِ آزادی کے ایک سینئر ترین رہنما ہیں، وہ خیربخش مری کے قریب ترین رفقاء میں سے ایک تھے، آپ 1973 سے بلوچ آزادی کیلئے مسلح جدوجہد کررہے ہیں۔ اس دوران آپ طویل عرصے تک قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کرچکے ہیں۔ میر عبدالنبی بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے چیئرمین بھی رہ چکے ہیں۔ آپ ٹوئیٹر ہینڈل @MeerAbdulNabi سے ٹویٹ کرتے ہیں۔
بی بی گل بلوچ:
بی بی گل بلوچ انسانی حقوق کی ایک متحرک کارکن ہیں، آپ بلوچ انسانی حقوق کیلئے ایک طویل عرصے سے پر امن جدوجہد کررہی ہیں۔ بی بی گل بلوچ بلوچ ہیومن رائٹس آرگنائزیشن کے چیئرپرسن ہیں۔ آپ ٹوئیٹر ہینڈل @Bibi_Baloch سے ٹویٹ کرتی ہیں اور تواتر کے ساتھ اپنے اکاوئنٹ سے بلوچستان میں انسانی حقوق کے صورتحال پر روشنی ڈالتی ہیں۔
رحیم بلوچ:
رحیم بلوچ کے بارے میں عام معلومات یہ ہیں کہ وہ بلوچستان لبریشن فرنٹ کے ایک سینئر کمانڈر ہیں لیکن اس بابت انکے اکائنٹ سے کوئی تصدیق یا تردید نہیں ملتی۔ آپ بی ایس او کے سابق چیئرمین اور بی این ایم کے سابق سیکریٹری جنرل بھی رہ چکے ہیں۔ رحیم بلوچ پیشے کے اعتبار سے ایک وکیل تھے۔ آپ ٹوئیٹر ہینڈل @RahimBalochh سے ٹوئیٹ کرتے ہیں۔
کمال بلوچ:
کمال بلوچ اس وقت بی ایس او آزاد کے سینئر وائس چیئرمین ہیں اور بلوچ نیشنل فرنٹ کے سیکریٹری جنرل ہیں۔ آپ ایک ہمہ وقت متحرک سیاسی کارکن ہیں۔ خفیہ اداروں کے ہاتھوں اغواء ہوکر قیدو بند کی صعوبتیں بھی برداشت کرچکے ہیں۔ آپ @kamal_Baluch کے نام سے ٹوئیٹ کرتے ہیں۔
گلزار امام:
گلزار امام بلوچ آزادی پسند مسلح جماعت بلوچ ریپبلکن آرمی کے ایک کمانڈر ہیں، بلوچستان کے علاقے مکران میں بی آر اے کو منظم کرنے میں گلزار امام کا ایک متحرک کردار رہا ہے۔ گلزار امام بی ایس او کے زونل صدر بھی رہ چکے ہیں۔ آپ ٹوئیٹر ہینڈل @GulzarImam1 سے ٹویٹ کرتے ہیں۔
مذکورہ بالا سربراہان اور کارکنان کے علاوہ ٹوئیٹر کو اور بہت سے بلوچ سیاسی کارکن بھی زیر استعمال لاتے ہیں اور کئی سیکیورٹی کے پیش نظر جعلی ناموں سے استعمال کرتے ہیں۔
ایک بات یہاں واضح سمجھ آجاتی ہے کہ میڈیا بندشوں اور سنسرشپ کے باوجود بلوچ آزادی پسند رہنما جدید ذرائع استعمال کرکے اپنی آواز زیادہ موثر طریقے سے نا صرف بلوچ عوام بلکہ اب آسانی کے ساتھ بیرونی دنیا تک پہنچا رہے ہیں۔ دوسری بات جو یہاں قابلِ ذکر ہے کہ اگر ہم تمام ٹویٹس دیکھیں تو ہمیں ایک بات واضح طور پر دِکھائی دیتی ہے کہ یہ بلوچ رہنما چاہے جلاوطنی کی زندگی گذار رہے ہیں اور کسی بیرونی ملک سے ٹویٹ کررہے ہیں، یا کئی میل چل کر کسی نیٹورک میں آکر اپنے مبائل سے ٹویٹ کررہے ہیں۔ پر امن سیاسی کارکن ہیں یا پھر مسلح کمانڈر۔ سب کے ٹویٹس سے اس بات کا اظہار ہوتا ہے کہ یہ تمام عالمی اور علاقائی حالات سے پوری طرح واقف ہیں اور ہر مسئلے پر ایک موقف رکھتے ہیں اور اپنے موقف کو دنیا تک پہنچانے کیلئے وقت کے ساتھ ذرائع بدلتے ہیں، جس سے پتہ چلتا ہے کہ بلوچ جدوجہد ایک ترقی پسند، باشعور اور تعلیم یافتہ طبقے کے ہاتھوں میں ہے، جو یقیناً عام سرکاری بیانیے کے منافی ہے جو ہمیشہ یہ تاثر دیتی رہی ہے کہ لڑنے والے اجڑ قبائلی ہیں۔