بلوچی و براہوی اور مادری زبانوں کا عالمی دن
دی بلوچستان پوسٹ رپورٹ
بہزاد دیدگ بلوچ
دنیا بھر میں 21 فروری کو مادری زبانوں کے عالمی دن کے مناسبت سے منایا جاتا ہے، اس دن کو زبانوں کے تنوع اور مادری زبان کے استعمال پر انسان کے بنیاد حق کو تسلیم کرکے منایا جاتا ہے۔ یہ دن ان چار بنگالی طلبہ کے شہادت کی یاد میں منایا جاتا ہے جو 21 فروری 1952 کو بنگالی کو آفیشل زبان کے حیثیت سے رائج کروانے کی خاطر ایک احتجاج میں شریک تھے اور ایک مہم چلارہے تھے لیکن اس پاداش میں پاکستانی فوج نے احتجاج پر فائرنگ کردی اور انہیں شہید کردیا تھا۔ آج مادری زبان کی خاطر انکی اس قربانی کو تسلیم کرتے ہوئے پوری دنیا 21 فروری کو مادری زبان کے دن کے حیثیت سے مناتی ہے۔
بنگلہ دیش میں 21 فروری کے دن کو بنگلہ دیشں کے آزادی کے بعد سے ہی ہر سال منایا جاتا ہے اور آج کے دن عوامی چھٹی ہوتی ہے، میلے سجتے ہیں اور اس دن کو شان و شوکت سے منایا جاتا ہے، ” شہید مینار” جہاں ان طلبہ کو شہید کیا گیا تھا وہاں پھول چڑھائے جاتے ہیں، کیونکہ یہ واقعہ بنگلہ دیش کی آزادی کی طرف پہلا قدم بھی تھا لیکن باقی دنیا میں اس دن کو 1999 کے بعد سے ہی منایا جاتا ہے، جب یونیسکو نے اس دن کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے 17 نومبر 1999 کو اسے مادری زبانوں کا عالمی دن قرار دے دیا، دنیا کے تقریباً ہر ملک میں اس دن کو سیمینارز منعقد ہوتے ہیں اور زبان کیلئے خدمات سرانجام دینے والوں کو مختلف ایوارڈز سے نوازا جاتا ہے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ 21 فروری 1952 کے اس سبق آموز واقعے سے کچھ نہیں سیکھا گیا اور آج تاریخ ہو بہو خود کو بلوچستان میں دہراتی نظر آرہی ہے۔ وہی پاکستان جس کی وجہ سے اس دن کا جنم ہوا، اسی ملک میں ابتک بلوچی اور براہوی کے ساتھ رویہ بالکل وہی ہے جو آج سے سے 66 سال پہلے بنگالی زبان کے ساتھ تھا۔
بلوچوں کی دو بڑی زبانیں ہیں، براہوی اور بلوچی اور دونوں معدومیت کا شکار ہوتے جارہے ہیں۔ بلوچوں کی مادری زبان ہونے کے باوجود نا ہی بلوچی اور نا براہوی کو اسکولوں میں پڑھایا جاتا ہے اور نا ہی یہ بلوچستان میں آفیشل زبان ہیں۔ اسکی وجہ سے بلوچوں کی اکثریت آبادی بلوچی و براہوی بول تو سکتی ہے لیکن پڑھ اور لکھ نہیں سکتی۔
یہ بات اب دنیا سے ڈھکی چھپی نہیں کہ بلوچستان میں قومی آزادی کیلئے ایک جنگ چل رہی ہے، جس طرح سے بلوچستان میں براہوی اور بلوچی ریاستی نشانے پر نظر آتے ہیں، اس سے ظاھر ہوتا ہے کہ بلوچستان میں زبان کیخلاف بھی ایک جنگ لڑی جاری ہے، کیونکہ زبان قوم پرستی اور قومی جڑت کی ایک بنیادی اکائی ہوتی ہے، زبان ایک قوم کی شناخت اور تاریخی ورثہ ہوتا ہے۔ زبان پر حملہ اور اسے کمزور کرنا اور اسکے بجائے کسی بیرونی زبان کو مسلط کرنا یقیناً قوم پرستانہ جذبات اور تحریک کو کمزور کرنے کے مترادف ہے اور جس طرح بلوچی و براہوئی کو کمزور کرکے ختم کرنے کا سارا بندوبست نظر آتا ہے، اسکے پیچھے یہی واحد دلیل ہی نظر آتی ہے اور یہ وہی دلیل اور اقدامات ہیں، جو بنگلہ دیش میں استعمال ہوئے اور جو 21 فروری 1952 کے واقعے پر منتج ہوئے۔
بلوچوں کے زبانوں براہوی اور بلوچی کو اسکولوں اور دفاتر سے ختم کرکے ناصرف زبان مخالف ایک خاموش جنگ لڑی جارہی ہے بلکہ دوسری جانب ہمیں خاص طور پر گذشتہ پانچ ، چھ سالوں کے دوران اب بلوچی کتابیں بیچنے والے، لکھنے والے اور پڑھانے والوں کے خلاف باقاعدہ کریک ڈاون بھی نظر آتی ہے۔ گذشتہ سالوں کے دوران فرنٹیئر کور نے مختلف چھاپوں کے دوران کئی کتب خانوں سے تربت اور گوادر کے علاقوں میں بلوچی زبان کے کتابیں ضبط کرلیں ہیں، ان چھاپوں میں قابلِ ذکر عطا شاد ڈگری کالج تربت پر لگا چھاپا ہے جہاں ان کتابوں کو دہشتگرد مواد تک قرار دیا گیا۔
سرکاری اسکولوں میں تو براہوی اور بلوچی زبان ویسے ہی نہیں پڑھایا جاتا ہے لیکن گذشتہ سالوں کے دوران جو چند ایک پرائیوٹ اسکول جہاں ان مادری زبانوں میں پڑھایا جاتا تھا، وہاں چھاپے مارے گئے اور خفیہ ادارے و فرنٹیئر کور کے اہلکار وہاں کے استادوں کو گرفتار کرکے اپنے ساتھ لے گئے، جن میں سے چند ایک آ ج تک لاپتہ ہیں۔
بلوچی و براہوی زبان کے شاعروں، دانشوروں حتیٰ کے گلوکاروں تک کو نشانہ بنانا بھی بلوچستان میں معمول بن چکا ہے، ان میں سب سے بڑا نام پروفیسر صبا دشتیاری کا ہے۔
بلوچستان میں براہوی و بلوچی کو آفیشنل زبان کے حیثیت سے رائج کرنا، اسکولوں میں بلوچوں کو انکے مادری زبانوں براہوی اور بلوچی میں پڑھانا بلوچوں کا بنیادی انسان حق ہے۔ 21 فروری کا دن بھی اسی حق کو تسلیم کرنے کا دن ہے اور جو اس حق کو تسلیم نہیں کرتے تو تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ پھر 21 فروری 1952 کے کوکھ سے ہی 16 دسمبر 1971 جنم لیتے ہیں۔