بلوچستان: 7لاکھ بچے تعلیم سے محروم

406

كوئٹہ كے مقامی ہوٹل میں غیر سركاری تنظیم ’’الف اعلان‘‘ كی جانب سے بلوچستان میں تعلیم كے حوالے سے گزشتہ 5 برس میں كی جانے والی اصلاحات اور درپیش چیلنجز کے حوالے سے تقریب منعقد ہوئی۔

اس موقع پر ’’الف اعلان‘‘ كے پالیسی ہیڈ سلمان نوید خان نے سپاس نامہ پیش كرتے ہوئے بتایا كہ بلوچستان میں تعلیم كے حوالے سے مزید اقدامات ہونے چاہئیں، ہمیں 4 اہم چیزوں پر فوكس كرنے كی ضرورت ہے، اس بارے میں ڈیٹا اكٹھا كركے ان كا استعمال كرنا ضروری ہے، گھوسٹ اساتذہ اور گھوسٹ اسكولوں کے بارے چھان بین كركے فعال رپورٹ سامنے لائی جائے، 5 سال میں تعلیم كے حوالے سے بے پناہ اصلاحات كی گئی ہیں وہیں چند چیلنجز درپیش ہیں۔
الف اعلان نے یہ بھی کہا ہے کہ پورے پاکستان کے لحاظ سے بلوچستان کے بچے سب سے زیادہ محروم اور نظر انداز کردہ ہیں۔ بلوچستان میں 18 لاکھ 90 ہزار بچے تعلیم حاصل نہیں کر پارہے ۔ دوسری جانب پرائمری اور سیکنڈری اسکولوں میں بہت فرق اور تفریق ہے اسی وجہ سے پرائمری جماعت کے بچے سیکنڈری تعلیم سے محروم رہ جاتے ہیں۔

سیكریٹری تعلیم نورالحق بلوچ نے كہا كہ اس وقت جو بچے بلوچستان كے مختلف اضلاع میں اسكولوں سے باہر ہیں ان كے بارے میں پوچھنے كی ضرورت ہے، نقل كے رجحان اور امتحانی سینٹرز میں سی سی ٹی وی كیمروں كی تنصیب كے ساتھ شعور بیداری كی بھی ضرورت ہے، بلوچستان میں اس وقت سب سے بڑا مسئلہ سیاسی عدم استحكام كا ہے جس طرح 66 فیصد بچے غذائیت سے محروم ہیں اسی طرح شرح تعلیم بھی كم ہے۔

تقریب سے ماہرین نے پینل كی شكل میں فرداً فرداً دشواریوں اور بہتری کے حوالے سے بتایا كہ ضرورت اس امر كی ہے كہ شرح خواندگی كو بڑھایا جائے جو اس وقت 28 فیصد ہے، تعلیم اور غربت كے حوالے سے بلوچستان سرفہرست ہے، گزشتہ 70 سال میں اس قدر تعلیم پر توجہ نہیں دی گئی جس قدر گزشتہ 5 سال میں دی گئی، اس وقت بلوچستان میں 800 اسكولوں كی صرف عمارتیں كھڑی ہیں جن كا بچوں كو كوئی فائدہ نہیں پہنچ رہا۔