کو ئٹہ میں فرنٹیر کو ر بلوچستان کے حکام کا کہنا ہے کہ پاک افغان سرحد پر خار دار تار چین سے منگوائی گئی تھی جو پاکستان پہنچ چکی ہے اور اس کی تنصیب کی کاکام جلد شروع کیا جائیگا۔ تاہم تار نصب کرنے کا کام شروع کرنے کی حتمی تاریخ ابھی طے نہیں کی گئی۔
ترجمان کے بقول پاک افغان سرحد پر نئے 14 چھوٹے قلعے بھی قائم کئے جائیں گے جہاں ایف سی کے جوان موجود ہوں گے اور سرحد کی نگرانی کر ینگے ۔ اس کے علاوہ مزید 50قلعے بھی قائم کئے جائینگے ۔
ان کا مز ید کہنا ہے کہ فرنٹیر کور کے دو نئے ونگ تشکیل دینے کا بھی امکان ہے جو فینسنگ کے کام کو مکمل کرنے میں اپنا کردار اداکرینگے۔
حکام کے بقول سرحد پر لگائے جانے والی باڑ کی اونچائی بارہ فٹ اور چوڑائی نوفٹ ہوگی، جبکہ درمیان میں خاردار تار کے رول کو ڈالاجائے گاجو بتیس بتیس انچ کی ہوگی۔
فرنٹیر کور بلوچستان کے حکام کا کہنا ہے کہ ان اقدامات سے نہ صرف پاکستان ، بلکہ افغانستان کی سرحدیں بھی محفوظ ہونگی اور پاکستان میں دہشت گردی میں کمی آئے گی ۔ دہشت گردوں کی نقل وحمل پر نظربھی رکھی جائے گی ۔
حکام کا کہنا ہے کہ چمن کے عوام نے بھی حکومت کی طرف سے سرحد پر باڑ لگانے کے کام کو مکمل کر نے میں تعاون کرنے کا اعلان کیاہے ۔
حکام کے بقول سرحد پر سیکورٹی ہائی الرٹ ہے۔ دہشتگرووں کی روک تھام کیلئے ہرقسم کے اقدامات کئے گئے ہیں ۔
دوسری طرف ضلع قلعہ عبداللہ چمن کے بعض قبائلی عمائدین نے، جن میں حاجی حبیب اللہ حافظ مطیع اللہ بھی شامل ہیں، گزشتہ دنوں ایک مشتر کہ پر یس کانفرنس کے دوران کہا تھا کہ پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے سے سرحد کے دونوں طرف رہنے والے قبائل کے خاندان تقسیم ہو جائیں گے ۔
سرحد کے دونوں طرف رہنے والے خاندانوں کے ایک دوسرے سے رشتے ہیں ۔ باڑ لگانے سے رشتہ داروں کا آپس میں ملنا جلنا نا ممکن ہوجائیگا۔ اس کے علاوہ سرحد کے اس پار رہنے والے لوگوں کی وہاں اپنی کئی صدیوں سے زمینیں ہیں جو وہاں ہر سال مختلف فصلیں کاشت کر تے ہیں۔ باڑلگانے سے یہ زمیندار بھی وہاں نہیں جاسکیں گے اور نا ن شبینہ کے محتاج ہوجائیں گے ۔اس لئے سرحد پر باڑ لگانے کے بارے میں ہمارے تحفظات ہیں اور حکومت کو ان تحفظات کو دور کرنا چاہیے۔
پاکستان اور افغانستان کے در میان تقریباً 2500 کلو میٹر طویل سرحد ہے جس کا تقریباً 1200 کلو میٹر حصہ صوبہ بلوچستان کے ساتھ لگتا ہے، اس سرحد پر دو سال پہلے فرنٹیر کور بلوچستان میں گیارہ فٹ گہر ی اور 14 فٹ چوڑی کھائی یاخندق بھی کھود چکی تھی جس کا کام 2013 میں شروع کیا گیا تھا اور جون 2016 میں مکمل کیا گیا تھا۔