بزدل قوم کی بہادر بیٹی – نادر بلوچ

640

بزدل قوم کی بہادر بیٹی 

نادر بلوچ

عاصمہ جہانگیرکی پیداہیش جنوری ۱۹۵۲ میں ہوی وہ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک متحرک کارکن تھِی۔ وہ انسانی اور شہری حقوق کے لیے کام کرنے والے مختلف تنظیموں سے وابسطہ رہی ۔

اقوام متحدہ نے انکو انسانی حقوق ، مذہبی اور سیاسی حقوق کے لیے اپنا خصوصی مندوب مقرر کیا۔ وہ پاکستان کے شہر لاہور میں پیدا اور بڑی ہوئی اوراپنی تعلیم بھِی پنجاب یونیورسٹی سے مکمل کی۔لاہور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے وکیل کی حثیت سے بھِی کام کرتی رہی، سیاسی طور پر محترک کردار اور جنرل ضیاالحق کے ڈکٹیٹر شپ کے خلاف احتجاج کرنے پر گرفتار ہو کر جیلوں میں بھی رہی۔ دو قومی نظریہ کی جھوٹ اور فریب کو اج تک پاکستانی عوام سچ سمجھتی رہی ہے ،

آج ایسے بہت کم لوگ ہیں جو اس سچ کو سمجھتے ہیں کہ دو قومی نظریہ در اصل ہندوستان کو تقسیم کرنے کی سازش تھی اور ہزاروں سالوں سے یہاں آباد اقوام بلوچ سندھی پختون اور دیگر اقوام کو غلام اور تابع بنایا گیا اس سچ کو ہمیشہ سچ بولنے والے افراد کی تعدا گنتی میں رہی ہے۔

آج جو لوگ بھی اس نسل کشی اور خون خرابے پر خاموش ہیں وہ تاریخ میں مجرم ثابت ہونگے۔ بھارت سے ۱۹٦۵ میں جہنگ ہارنے ، پاکستان کا ۱۹۷۱ میں دو لخت ہونے اور ۴۰ سال تک فوجی بوٹوں کے ساے تلے رہنے والی اس عوام نے ہمیشہ سچای کے لیے آواز اٹھانے کی بجاے بزدلی دکھائی ہے ۔

آج بلوچ سندھی مہاجر پشتون سے انکے اپنی سر زمین پر خون سے نہلایا جا رہا ہے مگر کوئی اپنے جنرلوں سے یہ نہیں پوچھتا کہ ان انسانوں سے کیوں خون کی ہولی کیھلی جا رہی ہے مگر کروڑوں کی آبادی والے اس ملک میں کوئی آواز اٹھانے والا نہیں۔

عاصمہ جہانگیر ایسے ہی قوم سے تعلق رکھنے والی اس قوم کی بہادر بیٹی تھی جو اب اس دنیا میں نہیں رہی انکی اس جہد و جہد نے ثابت کیا کہ انسانیت اور انسانی حقوق کے لیے آواز اٹھانے کے لیے مظلوم طبقہ یا اس قوم سے تعلق ہونا ضروری نہیں بلکہ اصل مقصد سچ اورانسانیت کی سر بلندی ہوتی ہے۔ ایسے کردار تاریخ میں کم ملتے ہیں لیکن یہ عمل جاری رہتی ہے اور عاصمہ جہانگیر اور ثبین محمود پیدا ہوتے رہنگے ۔
پاکستانی سیاست میں فوجی کردار کے خلاف بڑی دلیرانہ اور بے باک انداز میں اپنے خیالات کا اظہار کرتی تھِی اور ہمیشہ پاکستانی فوج کو بنگلادہیش میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا زمہ دار قرار دیکر تنقید کا نشانہ بناتی تھی وہ پاکستانی فوج اور ایجنسیوں کو مزہبی دہشتگردی اور فرقہ واریت کا زمہ دار سمجھتی تھی ۔

بلوچستان میں جاری انسانی حقوق کی پامالیوں اور فوجی آپرہشنوں میں بلوچ قوم کی نسل کشی کی مخالفت کرنے والوں میں سرفہرت سمجھی جاتی تھی بلوچستان میں جاری پاکستانی قبضہ گیریت کے خلاف سیاسی اور مزاحمتی جہدوجہد کو جاہز قرار دیتی تھِِی بلوچستان میں پاکستانی ایجنسیوں کی جانب سے جبری طور پر غایب کیے ہوے ہزاروں لاپتہ افراد کے لیے آواز اٹھاتی رہی ہیں بلوچستان میں جاری فرقہ واریت کی جہنگ میں بھی پاکستانی فورسز کی کردار سے بھی نالاں تھی۔ شہید نواب اکبر بگٹی کے خلاف آپرہیشن شروع ہونے کے بعد ڈیرہ بگٹی اظہار یکجہتی کرنے کے لیے آنے پر عاصمہ جہانگیر کی گاڑی کو پاکستانی فوج کی جانب سے نشانہ بنانے کی کوشیش کی گہی جس میں وہ معجزانہ طور پر وہ بچ گہی ۔

عاصمہ جہانگیر کی ناگہانی موت کی خبر آتے ہی دنیا بھر سے افسوس کے پیغامات آنے شروع ہوے اور محترمہ عاصمہ جانگیر کی انسانی حقوق اور انسانیت کی بھلای کے لیے خدمات کے اعترف میں انہیں خراج عقیدت پیش کررہے ہیں۔ پاکستانی قبضہ والے بلوچستان میں سوگ کا عالم رہا اور سیاسی کارکن اور سیاسی تنظیموں نے سوشل میڈیا اور پرنٹ میڈیا کے ذریعے مرحومہ کو خراج عقیدت کے ساتھ ساتھ انکی تقاریر اور خیالات کو بھی شایع کر رہے ہیں۔ پاکستانی ایجنسیوں کا ہمیشہ سے یہ وطیرہ رہا ہے کہ پاکستان سے تعلق رکھنے والے افراد اگر انسانی حقوق کی پامالیوں پر آواز اٹھاتے ہیں تو ان افراد کو غدار قرار دیتے ہیں یا مزہبی جنونیوں کے زریعے مزہب کو استعمال کر کے کافر قرار دیا جارہا ہے آج عاصمہ جہانگیر کی وفات کے بعد بھی ایک بار پھر یہی توہین آمیز پروپگنڈہ کا سہارا لے رہے ہیں جو انتہای قابل مزمت عمل ہے اس طرح سے انسانی حقوق اور سیاسی آواز کو ہرگز روکا نہیں جاسکتا بلکہ ان قوتوں کو جو انسانی اقدار کی سر بلندی کے لیے آواز اٹھا رہے ہیں انکو مزید توانای فراہم کرے گی۔
پاکستان جیسی بنیاد پرست ریاست جو مذہبی جنونیت اور دہشتگردی کے زریعے بلوچستان ، افغانستان ، بنگلادہیش ، ہندوستان ، امریکہ ، برطانیہ سمیت پوری دنیا کا امن تہ و بالا کی ہوی ہے ۔ جہاں ظلم و بربریت اپنے انتہا کو پہنچ چکی ہے ایسے ملک میں انسانی حقوق کی پامالیوں کے خلاف بولنا اور کھل کر ریاستی فوج کو ان پالیسیوں پر تنقید کا نشانہ بنانا انتہای جرات کا مظاہرہ ہے اور اس ظلم و جبر کو روکوانے کے لیے کردار ادا کرنا اس کے لیے آواز اٹھانا یقینا انسانی اقدار کا واضع ثبوت ہے۔بلوچ قوم کی جہدوجہد کسی ایک خاص قوم یا پنجابی کے خلاف نہیں بلکہ یہ جہد و جہد صرف اور صرف ایک قبضہ گیر ریاست کے خلاف ہے جو بلوچستان پر قابض بھی ہے اور یہاں پر پیچھلے ۷۰ سالوں سے بدترین انسانی حقوق کی پامالیوں میں ملوث ہیں بلوچ قوم اور سیاسی کارکن مقافات عمل پر یقین رکھتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستانی حکمرانوں ، فوجی جنرلوں کو اس قتل عام اور نسل کشی کے خلاف جواب دہ ہونا پڑے گا۔آج وقت گزرنے کے ساتھ اقوام عالم کو بلوچ قومی تحریک اور بلوچ موقف کو جاننے کا موقع مل رہا ہے اسی لیے بلوچ قومی تحریک براے آزادی کو حماہت حاصل ہو رہی ہے اس میں عاصمہ جہانگیر ، جبری گمشدگیوں کے خلاف آواز بلند کرنے پر صحافی حامد میرپر قاتلانہ حملہ سمیت کی دیگر سینکڑوں صحافیوں کو شہید کر دیا گیا ثبین محمود کو کراچی میں دن دھاڑے شہید کیا گیا ، حامد شکیل آی جِی پولیس بلوچستان جہنوں نے شہید مہران بلوچ کی اغواء میں پاکستانی فورسز کے ملوث ہونے کے بارے میں گواہی دی تھی ، حامد شکیل کو ریاستی تعاون سے چلنے والی تنظیموں کے زریعے قتل کروایا گیا۔بلوچ قوم کے حق میں آواز اٹھانے کے لیے آج بھی پاکستان سے سیاسی شعور رکھنے والے بہت سے نوجوانوں کو گرفتاریوں اور ملک بدری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ، بلوچ قوم ان انسانیت دوست قوتوں کی کوششوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے اور امید رکھتی ہے کہ بلوچ قومی تحریک کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے مزید آگے آہیں گے اور عاصمہ جہانگیر شہید ثبین محمود سمیت دیگر امن دوستون کو حقیقی طور پر خراج عقیدت پیش کریں گے۔