ایرانی آیت اللہ کا حزب اللہ کے کمانڈروں کے ہمراہ لبنان ،اسرائیل سرحد کا دورہ

197

ایران کے ایک معروف آیت اللہ اور شورائے نگہبان کے رکن السید ابراہیم الرئیسی نے شیعہ ملیشیا حزب اللہ کے لیڈروں کے ہمراہ لبنان اور اسرائیل کے درمیان سرحدی علاقے کا دورہ کیا ہے۔

58 سالہ رئیسی کی حزب اللہ کے ملٹری کمانڈروں اور ایرانی افسروں کے ساتھ اس دورے کی ایک تصویر منظرعام پر آئی ہے ۔اس میں وردی پوش ایرانی اہلکاروں کے چہرے چھپا دیے گئے ہیں۔یہ تصویر ان کے گذشتہ ہفتے لبنان کے دورے کے موقع پر لی گئی تھی اور اس کو اسرائیلی اخبار یروشلیم پوسٹ نے شائع کیا تھا لیکن اس کے ساتھ مزید کوئی تفصیل نہیں دی۔

البتہ اخبار نے ان کا یہ بیان نقل کیا ہے :’’ القدس (یروشلیم) کی آزادی قریب ہے‘‘۔انھوں نے مزید کہا:’’یہ مزاحمتی تحریک ہی ہے جس کی بدولت آج تک فلسطینی اسرائیل کے مقابل کھڑے ہیں اور انھوں ( فلسطینیوں ) نے یہ سیکھا ہے کہ یہ مذاکرات کی میز نہیں بلکہ صرف مزاحمتی جنگ ہے جو ان کے ملک کی قسمت کا فیصلہ کرے گی‘‘۔

آیت اللہ ابراہیم الرئیسی کا لبنان کا یہ دورہ خفیہ رکھا گیا تھا اور گذشتہ سوموار کو اس دورے سے لوٹے تھے ۔انھوں نے مختلف لبنانی لیڈروں اور سرکاری عہدہ داروں سے ملاقاتیں کی تھیں۔لبنانی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق ان کے اعزاز میں مسلم علماء کی ایک تقریب بھی منعقد کی گئی تھی۔اس میں بڑی تعداد میں سنی اور شیعہ علماء موجود تھے۔

سعودی عرب کا بھارتی طیاروں کو اسرائیل کیلئے فضائی حدود کی اجازت

آیت اللہ رئیسی کے اس دورے سے چند روز قبل ہی اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے ایک بیان میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ ایران لبنان میں ایک میزائل فیکٹری تعمیر کررہا ہے۔

فاکس نیوز کے مطابق اسرائیل کے اقوام متحدہ میں متعیّن سفیر ڈینی ڈینن نے ایک خط میں ایرانی آیت اللہ کے اس دورے کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی ننگی خلاف ورزی قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ انھوں نے اسرائیل اور لبنان کے درمیان اقوام متحدہ کے بفر زون کا دورہ کیا ہے جہاں مسلح  اہلکار  تعینات نہیں ہوتے ہیں۔

ایران کے رہبر اعلیٰ مشرق وسطیٰ کے نئے ہٹلر ہیں : سعودی عرب

انھوں نے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے نام خط میں مزید لکھا ہے :’’ میں ایک مرتبہ پھر اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کے رکن ممالک کو ایران کی گماشتہ تنظیم حزب اللہ کے خطرناک اور عدم استحکام سے دوچار کرنے والے اقدامات کے بارے میں مطلع کرنا اور باور کرانا چاہتا ہوں‘‘۔