افغان طالبان نے ایک کھلے خط کے ذریعے امریکی حکام کو مذاکرات کی پیشکش کی ہے۔

247

برطانوی میڈیا کے مطابق افغان طالبان کی جانب سے لکھے گئے کھلے خط کے متن میں کہا گیا ہے کہ امریکی عوام اور امن پسند ارکان کانگریس مذاکرات کے لیے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ پر دباؤ ڈالیں۔

ترجمان افغان طالبان ذبیح اللہ مجاہد کی جانب سے جاری خط میں کہا گیا ہے کہ اگر طاقت کے استعمال کی پالیسی مزید 100 سال بھی جاری رہی تو اس کے نتائج ایسے ہی نکلیں گے جیسے ٹرمپ کی نئی پالیسی کے بعد گزشتہ 6 ماہ کے دوران دیکھنے میں آئے ہیں۔

ذبیح اللہ مجاہد کی جانب سے جاری کیے گئے خط میں مزید کہا گیا ہے کہ امریکی عوام کے ٹیکس کے اربوں ڈالر افغانستان میں چوروں اور قاتلوں کو دیے گئے۔

خیال رہے کہ امریکی سینیٹر رینڈ پال نے دعویٰ کیا تھا کہ ٹرمپ انتظامیہ نے 2018 کے لیے افغانستان میں 45 ارب ڈالر کے اخراجات رکھے ہیں جو ضائع کرنے کے مترادف ہیں۔

امریکی سیینیٹر کے اس دعوے کے بعد طالبان نے چند روز قبل رینڈ پال کو قطر میں اپنے دفتر میں مذاکرات کی دعوت بھی دی تھی۔

دوسری جانب ’تھامس روٹیگوف تھنک ٹینک دی افغانستان انالسٹ نیٹ ورک‘ کے مطابق امریکی پالیسی میں تبدیلی لانے کے لیے طالبان کی جانب سے سینیٹر رینڈ پال کو دی گئی دعوت ایک عمومی خط سے زیادہ بہتر طریقہ ثابت ہو سکتا ہے۔

تاہم امریکی حکام نے اس حوالے سے کسی قسم کا تبصرہ کرنے سے گریز کیا ہے۔

ایک امریکی عہدیدار نے گزشتہ ماہ کابل میں ایمبولنس حملے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایسے حملے اس بات کا ثبوت ہیں کہ طالبان مذاکرات کے لیے تیار نہیں ہیں۔

خیال رہے کہ رواں برس کے آغاز سے ہی افغانستان میں طالبان کی جانب سے امریکی اور افغان فورسز کے خلاف کارروائیوں میں تیزی آئی ہے جس میں اب تک درجنوں سیکیورٹی اہلکاروں سمیت سیکڑوں افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہو چکے ہیں