بین الاقوامی عدالتِ انصاف (آئی سی سی) کے جج اس بات کا تعین کر رہے ہیں کہ آیا افغانستان میں ہونے والے واقعات کے بارے میں جنگی جرائم کی تحقیقات شروع کی جائیں۔
وہ افغانستان کے متاثرہ افراد کی تحریری درخواستوں کی چھان بین کرنا شروع کریں گے تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ ممکنہ تحقیقات کس نکتے پر مرکوز کی جائیں۔
2017 میں آئی سی سی کے افسر استغاثہ فاتو بینسودا نے کہا تھا کہ اس بات کی ’قابلِ قدر بنیاد موجود ہے‘ کہ جنگی جرائم کا ارتکاب ہوا ہے۔
اس جرائم کے پیچھے ممکنہ طور پر طالبان، سی آئی اے اور افغانستان کی سکیورٹی فورسز کا ہاتھ ہو سکتا ہے۔
بی بی سی کو معلوم ہوا ہے کہ اس ضمن میں جو درخواستیں عدالت میں پیش کی گئی ہیں ان میں جنرل عبدالرشید دوستم کا نام بھی شامل ہے۔
وہ افغانستان کے حالیہ نائب صدر ہیں اور ان پر ایک عرصے سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے الزامات لگتے رہے ہیں۔ وہ اس وقت خود ساختہ جلاوطنی اختیار کر کے ترکی میں مقیم ہیں۔ ان پر 2016 کے اواخر میں سیاسی حریف احمد ایشچی نے الزام لگایا تھا کہ انھیں دوستم کے حکم پر زد و کوب کیا گیا اور ان کے ساتھ بدفعلی کی گئی۔
ایشچی نے بی بی سی کو بتایا: ’انھوں نے اپنے محافظوں سے کہا تھا کہ ’انھیں اس وقت تک ریپ کرو جب تک ان کا خون نہ بہنے لگے، اور اس کی فلم بناتے رہو۔‘ انھوں نے میرے مقعد میں کلاشنکوف ڈال دی۔ میں درد سے چلاتا رہا۔‘
جنرل دوستم عدالت میں پیش ہونے سے انکار کرتے رہے ہیں۔ مئی 2017 میں وہ علاج کے لیے ترکی چلے گئے۔ بعض تجزیہ کاروں کے مطابق افغان حکومت نے انھیں ایسا کرنے پر مجبور کیا تھا۔
پچھلے سال جولائی میں انھوں نے افغانستان لوٹنے کی کوشش کی تھی لیکن ان کے جہاز کو اترنے کی اجازت نہیں ملی۔
ایشچی کا کہنا ہے کہ آئی سی سی کو اس سلسلے میں قدم اٹھانا چاہیے۔ ’اس بات کو 14 ماہ گزر گئے ہیں اور دوستم نے ابھی تک کسی سوال کا جواب نہیں دیا۔ جوں جوں وقت گزرتا جا رہا ہے، میری امید دم توڑتی جا رہی ہے کہ حکومت انھیں کبھی انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کر پائے گی۔‘
اس سے قبل جنرل دوستم کے ترجمان نے ان الزامات کی تردید کی تھی۔
بعض دوسرے افغانوں کو امید ہے کہ آئی سی سی ملک میں سرگرمِ عمل شدت پسند تنظیموں پر قابو پانے میں مدد کر سکے گی۔
32 سالہ ثمرہ کابل کے ایک یتیم خانے میں کھانا پکاتی تھیں۔ وہ جولائی 2017 میں طالبان کے ایک خودکش حملے میں ماری گئیں۔
ان کی 17 سالہ بیٹی فاطمہ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’جب میں نے یہ خبر سنی کہ خودکش حملہ ہوا ہے تو میں نے اپنی ماں کو فون کیا۔ ایک پولیس والے نے فون اٹھایا۔ اس نے کہا کہ اسے یہ فون جائے وقوعہ سے ملا تھا۔‘
فاطمہ نے بھی آئی سی سی کو خط لکھا ہے۔ انھیں افغان حکام پر اعتبار نہیں ہے کہ وہ انھیں انصاف دلوا سکیں گے۔
’جب بھی وہ ٹی وی پر اعلان کرتے ہیں کہ انھوں نے کسی کو گرفتار کر کے عدالت میں پیش کیا ہے۔ پھر کچھ دنوں بعد اسے چھوڑ دیا جاتا ہے، اور بم دھماکے جاری رہتے ہیں۔‘
خطرے کے باوجود فاطمہ بولنے سے نہیں ڈرتیں: ’میری ماں نے میرے دوسرے رشتے داروں کے ساتھ لڑ کر اور سماجی دباؤ کا مقابلہ کر کے مجھے فٹبال ٹیم میں شامل کروایا اور گٹار بجانا سیکھنے دیا۔ اب میری باری ہے کہ میں ان کے لیے لڑوں۔‘
فاطمہ یہ بھی چاہتی ہیں کہ عالمی عدالتِ انصاف حملے روکنے میں افغان حکومت کی ناکامی کی تحقیقات بھی کرے۔ بظاہر یہ آئی سی سی کے دائرۂ کار سے باہر نظر آتا ہے، اور طالبان کو انصاف کے کٹہرے تک لانا بھی آسان نہیں لگتا۔
فلپ سینڈز یونیورسٹی کالج آف لنڈن میں سینٹر فار انٹرنیشنل کورٹس اینڈ ٹریبیونلز کے ڈائریکٹر ہیں۔
وہ کہتے ہیں: ’ایک تو طالبان کو پکڑنا پڑے گا اور پھر دوسرے اس کے لیے شواہد درکار ہیں۔ شواہد دستاویزات کی شکل میں ہو سکتے ہیں، عینی شاہدوں کے بیان ہو سکتے ہیں، اور یہ کام کسی ایسے ادارے کے لیے انتہائی مشکل ہوں گے جس کی اپنی کوئی پولیس نہیں ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’عالمی عدالت کی پالیسی ہے اہم عہدوں پر فائز اہلکاروں کو نشانہ بنایا جائے۔ انھیں پیادے پکڑنے میں دلچسپی نہیں ہے۔‘
آئی سی سی کی جانب سے اس مجوزہ تفتیش میں مئی 2003 کے بعد کے واقعات کا جائزہ لیا جانا ہے۔ مارچ 2003 کے بعد سے اگر افغانستان میں کوئی بھی مبینہ جرم ہوا ہے، چاہے وہ کسی غیر ملکی نے ہی کیا ہو، اس تفتیش میں شامل ہو سکے گا۔
اس کا مطلب ہے کہ گوانتانامو بے منتقل کیے جانے سے قبل بگرام حراستی مرکز میں قیدیوں کے مبینہ تشدد کے بارے میں بھی سوالات اٹھائے جا سکیں گے۔
ابتدائی طور پر یہ حراستی مرکز امریکیوں نے تعمیر کیا تھا اور وہ ہی اسے چلاتے تھے، تاہم بعد میں اس کا انتظامی کنٹرول افغان حکام کو دے دیا گیا۔
گوتانامو بے کے چند موجودہ اور سابق قیدیوں کے لیے فلاحی تنظیم ریپریو انٹرنیشنل کریمینل کورٹ میں درخواستیں جمع کروا رہی ہے۔
تنظیم ریپریو کی ڈائریکٹر مایا فو نے بی بی سی کو بتایا کہ بگرام میں مبینہ تشدد کے واقعات میں ’پستولوں کے ساتھ رشیئن رولٹ، قیدیوں کو کئی روز تک سٹریس پوزیشن میں رکھنا شامل ہیں، ایسا تشدد جس نے ان افراد کو جسمانی اور ذہنی طور پر تباہ کر دیا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ یہ واقعات اعلیٰ افسران کی رضامندی کے ساتھ کیے جاتے ہیں اور یہ وہی لوگ ہیں جن کے خلاف آئی سی سی کارروائی کرنا چاہتی ہے۔
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ اگرچہ وہ طالبان کو انصاف کے کٹہرے تک لانا چاہتے ہیں، مگر آئی سی سی کی تفتیش ’بلاجواز اور غیر منصفانہ‘ ہو گی۔ امریکہ آئی سی سی کا رکن ملک نہیں ہے۔
2002 میں امریکی کانگریس نے ایک قانون منظور کیا تھا جس کے تحت امریکی حکام کو اجازت دی گئی کہ آئی سی سی کے زیرِ حراست کسی بھی امریکی اہلکار کو چھڑوانے کے لیے کچھ بھی کیا جا سکتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ امریکی حکام کے خلاف کامیاب مقدمات چلانا انتہائی مشکل ہے۔ مگر آئی سی سی پر بھی دباؤ ہے کہ کیا وہ سیاسی طور پر نازک معاملات سے نمٹ سکتی ہے۔ اب تک ان کی توجہ کا مرکز افریقہ رہا ہے۔
فلیپ سینڈز کا کہنا ہے کہ آئی سی سی کی ویب سائٹ پر جا کر دیکھیں تو جس پر بھی فردِ جرم عائد کی گئی ہے وہ یا تو سیاہ فام ہے یا پھر افریقی یا پھر دونوں۔
’یہ ایک مسئلہ ہے۔ عالمی جرائم پر افریقیوں کی اجاراداری تو نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ افریقی ممالک اب اس پر اپنا ردِ عمل ظاہر کر رہے ہیں۔‘
آئی سی سی کے ججوں کو ابھی یہ فیصلہ کرنا ہے کہ تفتیش کی بھی جائے یا نہیں، مگر افغانستان میں کئی سالوں کی جنگ کے بعد بہت سے لوگ ابھی تک انصاف کے منتظر ہیں۔