سندھ کو اس خطے میں تہذیبوں کی ماں بھی کہا جاتا ہے، لیکن اس ماں کی حرمت ہمیشہ سے بیرونی حملہ آوروں کے نشانے پر رہی ہے، اس لیئے سندھ دھرتی کی حفاظت کیلئے، ہمیں سندھ میں قوم پرستی و مزاحمت کی ایک طویل تاریخ ملتی ہے، دھرتی سے اسی محبت کا عکس ہمیں سندھ کے صوفی شاعروں کے کلاموں میں بھی جابجا ملتا ہے۔ سندھو دیش تاریخ کے مختلف نشیب و فراز سے ہوتے ہوئے آ ج پھر ایک ایسے مقام پر کھڑا ہے، جہاں ہمیں سندھ ایک بار پھر بیرونی حملہ آوروں کے زیر قبضہ نظر آتی ہے۔ اپنے تاریخی روایات کا امین بنتے ہوئے، سندھی ہمیں ایک بار پھر سربکف اس قبضے کے خلاف جدوجہد کرتے نظر آتے ہیں۔
سندھ میں قوم پرستی و مسلح مزاحمت کی تاریخ اور سندھو دیش قومی تحریک کو درپیش دوسرے مسائل و مقاصد کو سمجھنے اور ان پر تفصیلی گفتگو کرنے کیلئے گذشتہ دنوں دی بلوچستان پوسٹ کے نمائیندہ خصوصی نے سندھی قوم پرست رہنما، دانشور اور سندھو دیشں روویولیوشنری آرمی ایس آر اے کے کمانڈر صوفی شاہ عنایت سےضلع کشمور کندھ کوٹ میں ایک نامعلوم مقام پر ملاقات کی اور تفصیلی گفتگو کی۔
صوفی شاہ عنایت اس وقت سندھو دیش روویولیوشنری آرمی کے کمانڈر ہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ تاریخ، سیاست، مزاحمت اور فلسفے کا گہرا مطالعہ کرتے ہیں۔وہ اسیّ کے دہائی میں جیئے سندھ کے تحریک سے وابسطہ ہوئے، جو سندھ کے آزادی کیلئے شروع ہونے والی تحریک تھی اور آج تک اپنے اسی فکر و نظریئے سے جڑے ہوئے ہیں۔ نوّے کے دہائی سے لیکر ابتک وہ وہ مزاحمتی عمل سے جڑے ہوئے ہیں،اس دور میں اسکے جتنے بھی سینئر لیڈر تھے یا پھر ہم عصر تھے، وہ اکثریت ایک ایک کرکے اپنے نظریات سے سرینڈر ہوگئے لیکن صوفی شاہ عنایت ان گنے چنے سندھی قوم پرستوں میں سے ایک ہیں، جواسیّ کے دہائی سے لیکر ابتک اپنے نظریات پر ڈٹے رہے اور تمام مصائب کے باوجود آزادی کے اس کاروان کو کسی نا کسی صورت بڑھاتے رہے ہیں۔ وہ آزادی کیلئے مسلح جدوجہد پر یقین رکھتے ہیں، انہوں نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ دسمبر 2010 کو سندھودیش روویولوشنری آرمی SRA کی بنیاد رکھی ۔ وہ بلوچ قومی تحریک آزادی پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں اور بلوچ قومی آزادی کے مضبوط حمایتی ہیں۔ وہ ہمیشہ مشترکہ دشمن کے خلاف جدوجہد کرنے کیلئے ایک بلوچ۔ سندھی مشترکہ محاذ پر زور دیتے ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: سندھ کا بنیادی مسئلہ کیا ہے؟
صوفی شاہ عنایت: سندھ کے ویسے تو بہت سارے مسائل ہیں۔ جن میں سیاسی، معاشی، ثقافتی، جغرافیائی، ڈیموگرافک مسائل شامل ہیں، لیکن ان سب مسائل کی بنیادی اور اہم وجہ ایک ہے۔ وہ ہے قومی غلامی۔ قومی غلامی ہی سب مسائل اور بیماریوں کی ماں ہوتی ہے۔ اور اُس کا ایک ہی حل اور علاج ہوتا ہے۔ وہ ہے صرف او ر صرف قومی آزادی۔
دی بلوچستان پوسٹ: سندھ کی تحریک آزادی کی ابتداءکب اور کیسے ہوئی؟
صوفی شاہ عنایت: فطرت میں کوئی بھی چیز ساکن یا جامد نہیں ہوتی۔ ہر چیز ارتقا پذیر ہوتی ہے۔ چاہے وہ سماج ہو، سیاست ہو یا جدوجہد ہو۔ بلکل اسی طرح سندھ کی تحریک آزادی بھی اپنے مختلف سیاسی، نظریاتی اور تنظیمی مراحل، نیچے سے اوپر اور سادہ سے پیچیدہ والے طے کر تے ہوئے اس لیول اور اسٹیج پر پہنچی ہوئی ہے۔ یہ کہنا درست ہوگا کہ کل اس کا لیول اور Shape قومی حقوق یا آئینی حقوق کی سادہ مانگ پر تھا اور آج اس کا لیول اور shape مکمل قومی آزادی کی اعلیٰ ڈیمانڈ پر ہے۔ جب انگریزوں نے سارے برصغیر پر قبضہ کیا تھا، تو سندھ اس وقت ایک آزاد اور خودمختار قومی ریاست کی حیثیت میں موجود تھا۔ جس پر انگریزوں نے مارچ 1843 کو مکمل قبضہ کر کے اس کو ایک صوبے کی حیثیت میں اپنے ساتھ ملا لیا۔ آگے چل کر سندھ کی وہ صوبائی حیثیت بھی ختم کر کے، اس کو بمبئی(ممبئی) پریزیڈنسی کا حصہ بنا دیا گیااور سندھ کی وہ حیثیت 1936 تک سندھ کی دوبارہ صوبائی حیثیت کی بحالی تک برقرار رہی۔
اس کے بعد جیسے ہی نام نہاد دو قومی مذہبی نظریے کے بنیاد پر پاکستان بنا، تو اس کے بننے کے فوراً بعد 1948 میں سندھ کی شہہ رگ کراچی، جو ساری دنیا کے اندر ”مشرق کی رانی” (Queen of the East) کے نام سے پہچانی جاتی تھی کو پاکستان کا کیپیٹل بنا کر سندھ سے علیحدہ کر دیا گیا۔ آگے چل کے1954-55 میں سارے پاکستان کے اندر ون یونٹ نافذ کر کے مظلوم سندھی، بلوچ، پشتون اور بنگالی قوموں کا بڑے پیمانے پر استحصال کیا گیا۔ اس سارے دورانیے کے اندر ہماری ساری محب وطن قیادت بلخصوص سائیں جی ایم سید کا فوکس قومی حقوق، آئینی جدوجہد اور 1940 کی قرارداد پر رہا اور وہ اپنی سیاسی جدوجہد کے معرفت سندھ کی بمبئی سے واپسی، کراچی کو دوبارہ سندھ کا حصہ بنانے اور ون یونٹ توڑوانے میں کامیاب رہا۔
سیاسی جدوجہد کا یہ سلسلہ شیخ مجیب الرحمان کے چھ نقاط اور 1970 کے الیکشن تک چلتا رہا۔ اس وقت سارے پاکستان کے اندر پاور کے دو مرکز تھے۔ ایک فوجی پاور (Bullet Power)، جو پنجاب کے پاس تھا اور دوسرا ووٹ پاور (Ballot Power) ، جو بنگالیوں کی موجودگی میں باقی مظلوم قوموں کے پاس تھا اور اسی بنیادی سبب کو آگے رکھ کر پاکستان کے وفاقی ڈھانچے میں قید مظلوم قوموں نے سمجھا کہ عددی اکثریت اور ووٹ پاور ہمارے پاس ہے، اس لیئے ہم پنجاب سے حقوق لینے اور اس کو شکست دینے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ لیکن 1970 کے الیکشن میں شیخ مجیب الرحمان کی عوامی لیگ کو اکثریت سے جیت جانے کہ باوجود اقتدار نا دینا، بنگالیوں کا لاکھوں کے تعداد میں قتل عام کرنا اور بنگال سے بنگلادیش بن جانے کے بعد سائیں جی ایم سید اپنے سیاسی تجربے اور معروضی صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے ،اس نتیجے پر پہنچے کہ بنگال کے علیحدہ ہونے کے بعد دونوں پاور Bullet اور Ballot، پنجاب کے ہاتھ میں چلے گئے ہیں۔ اس لئے اب پاکستان کے وفاقی ڈھانچے میں، قومی حقوق کے لیئے آئینی جدوجہد کرنا وقت گنوانے کہ سوا کچھ بھی نہیں ہے۔
سائیں جی ایم سید نے قومی حقوق اور آئینی جدوجہد کو الوداع کر کے 31مارچ 1972 کو جدید سندھی نیشنلزم کے بنیاد پر ”آزاد سندھودیش” کا نظریہ پیش کیا۔ اپنے نظریے کی تشریح اور تاویل کیلئے اپنا شاندار کتاب ”سندھودیش کیوں اور کس لیئے ” لکھ کر ”سندھودیش کی آزاد اور خودمختیار قومی ریاست” کے قیام کے لیئے جدوجہد کا آغاز کیا۔ سائیں جی ایم سید کے نظریے کو اگر اور بھی مزید مختصر بیان کیا جائے تو وہ اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے۔ جس میں سے شروعاتی چار نقاط سندھودیش کی آزادی اور باقی تین نقاط آزادی کے بعد اقوام عالم کی خوشحالی کے لئے بیان کئے گئے ہیں۔
1۔ سندھ ایک علیحدہ تاریخی وطن ہے۔
2۔ سندھی ایک تاریخی قوم ہے۔
3۔ آزادی ہمارا بنیادی انسانی حق ہے۔
4۔ اور آزادی ممکن ہے۔
5۔ اتحاد انسانی۔
6۔ امن عالم۔
7۔ ترقی بنی آدم۔
دی بلوچستان پوسٹ: سندھ کی تقریباً تمام قومپرست جماعتیں سائیں جی ایم سید کے نظریے اور فلسفے کے پیروکار ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ لیکن وہ سب آپس میں الگ الگ کیوں ہیں؟
صوفی شاہ عنایت: سندھ کے حوالے سے ویسے تو قومی تحریک کے بہت سارے فکری نظریاتی اور سیاسی حاصلات موجود ہیں۔ لیکن جو آپ ”سب آپس میں الگ الگ” ہونے کا کہہ رہے ہیں وہ بھی بالکل سچ ہے۔ اس کے چھوٹے موٹے بہت سارے اسباب ہو نگیں، مگر میں آپ کے سامنے اس کے کچھ اہم نقاط رکھنا چاہتا ہوں۔
1۔ بنیادی طور پر قومی سوال، قومی منڈی کا سوال ہوتا ہے۔ اگر کسی قوم کا قومی منڈی پر کنٹرول ہوتا ہے، تو اس قوم کی قومی تحریک، سیاست اور سیاسی عمل بھی اتنا ہی mature، پکا، پختہ، متحد اور منظم ہوتا ہے۔ بالکل اسی طرح اگر کسی قوم کی قومی منڈی پر باہر سے آنےوالے لوگوں یا قابض قوم کے لوگوں کا کنٹرول اور قبضہ ہو جاتاہے، تو اس قوم کی قومی تحریک، سیاست اور سیاسی عمل بھی اتنا ہی immature، توڑ پھوڑ، منتشر اور انتشار کا شکار ہو جاتاہے۔ پاکستان بننے سے پہلے سندھ کی قومی منڈی پر سندھی ہندو کا کنٹرول تھا، جو کہ سندھی قوم کا ہی کاروباری اور واپاری کلاس تھا، لیکن پاکستان بننے کے بعد ایک سوچی سمجھی سازش اور پلاننگ کے تحت ہمارے اس کلاس کو قومی منڈی اور بڑے بڑے شہروں سے بیدخل کر کے نکال دیا گیا اور ان کی جگہ مہاجروں، پنجابیوں اور پٹھانوں کو آباد کیا گیا۔ ظاہر ہے کہ اس کا اثر ہمارے سارے سماج، سیاست اور قومی تحریک پر پڑنا ہی تھا۔ دوسرا یہ کہ سندھ میں پہلے سے ہی انگریزوں کے طرف سے نافذ کردہ جاگیرداریت کو پاکستان بننے کے بعد اور بھی مزید آرگنائیز کر کے سندھی عوام کے گلے میں ڈال دیا گیا۔ فیوڈل سماج کیونکہ اپنے جوہر میں ہوتا ہی مردار، منتشر اور انتشار کا شکار سماج ہے، اس لیئے اس کے عکس اور آثا ر آپکو ہمارے سارے سماج اور قومی سیاست پر بھی واضح نمونے سے نظر آئینگے۔
2۔ دوسرا سبب حکمت عملی (strategy) کا ہے۔ اگر آپ کا مقصد درست اور صحیح ہے، لیکن حکمت عملی اور طریقہ کار غلط یا اس کے opposite میں ہے تو ظاہر ہے کہ آپ کو نتائج ویسے نہیں ملیں گے، جس کا تقاضا آپ کا مقصد، تضاد اور معروضی صورتحال کرتے ہیں۔ جیساکہ سندھ اور پنجاب کے بیچ جو تضاد موجود ہے، وہ ہے ہی دشمن تضاداور آپکو تو معلوم ہے کہ دشمن تضاد کبھی بھی جنگ اور مزاحمت کے بغیر حل نہیں ہوتا۔ لیکن ہمارے ہاں اکثر سر فیس پر کام کرنے والے دوست اور جماعتیں مزاحمت تو دور، عدم تشدد کے نام پر عدم جدوجہد کا شکار بنے ہوئے ہیں۔ سندھی میں ایک کہاوت ہے کہ ” نا سجن کو آسرہ، نا دشمن کو خوف ” ہمارے ہاں بھی کچھ ایسی ہی صورتحال بنی ہوئی ہے یا بنائی گئی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ جب تک آزادی پسند جماعتیں، اپنے مقصد، نظریے، عمل اور حکمت عملیوں میں توازن، یکجہتی اور یکسوئی پیدا نہیں کریں گے تب تک ہماری سیاست اور قومی تحریک بھی بکھری بکھری اور آسمان میں لٹکی رہے گی۔
3۔ تیسرا سبب لالچ اور حرص ہے۔ اگر کوئی بھی سیاسی قومی پارٹی اور اس کے لیڈر صاحبان اپنے ذہن ،شعور، عقل و فہم اور ادراک کو آگے رکھ کر سوچنے سمجھنے اور عمل کرنے کے بغیر صرف اور صرف اپنے داخلیت پسندی اور ذات کا شکار ہوکر پیٹ سے سوچنا اور سمجھنا شروع کریں، تو کسی بھی قوم اور قومی تحریک کیلئے اس سے بڑی بد بختی کیا ہو سکتی ہے۔ سندھ کے اکثر قومی تحریک سے جڑے ہوئے لیڈر حضرات مڈل کلاس پر مشتمل ہونے کی وجہ سے آپ کو زیادہ تر اپنی ذات اور پیٹ کے موقع پرستانہ رویوں اور رجحانات میں گھِرے ہوئے ملیں گے۔ اگر مڈل کلاس اپنے مکمل کمٹمینٹ، سچائی، ایمانداری اور dedication کے ساتھ اپنے مقصد اور موقف پر کھڑا ہو گیا، تو ٹھیک ہے ورنہ اپنے ذات، لالچ اور حرص کی وجہ سے slip ہونے میں دیر نہیں کرتا۔ slip ہونے کے بعد وہ نہ صرف قومی تحریک بلکہ اپنی قوم کو بھی کچھ ٹکوں میں فروخت کرنے میں دیر نہیں کرتا۔
4۔ خوف کا ہونا۔ جتنا اعلیٰ اور شاندار مقصد، اتنا ہی بڑا حوصلہ، ہمت اور بہادری۔ بہادر اور بے خوف تنظیمیں ہی ریاست کی طرف سے مقرر کردہ دائروں اور لکیروں کو توڑ کر اور اپنے مقصد اور منزل کا تعین کر کے آگے نکلتی ہیں اور اپنی قوم کو آزادی سے ہمکنار کرتی ہیں۔ لیکن خوف میں گھری ہوئی تنظیمیں اور لیڈرشپ ریاست کے مقرر کردہ مخصوص دائروں اور فیصلوں میں ہی گھومتے رہتے ہیں۔ نتیجے میں نا صرف اپنے کیڈر کو کنفیوز کر کے تھکا دیتے ہیں، بلکہ ساری قوم کو بھی مایوس کر دیتے ہیں۔ آپ دیکھتے ہیں کہ سندھ کے قومی ایشوز پر لاکھوں کی تعداد میں سندھی قوم نے شاندار جدوجہد کر کے پنجاب کے خلاف شدید نفرت اور غصے کا عملی اظہار کیا ہے۔ لیکن خوف میں گہری ہوئی تنظیموں اور قیادتوں نے سندھی قوم سے ملنے والی حمایتوں اور محبتوں کو آزادی کے راستے پر لے جانے کے بجائے ایسے ہی بنا نتیجہ ضائع کر دیا۔
5۔ شخصیت پرستی۔ تاریخ، انقلاب اور جہد آزادی کی تحریکوں میں کسی بھی شخصیت کا اپنا ایک مخصوص رول ہوتا ہے۔ لیکن وہ رول مشروط ہوتا ہے۔ مشروط اس لئے کہ کسی بھی شخصیت کو بنانے میں تاریخ، قوم، مقصد، تنظیم، ادارے اور سسٹم ہی بنیادی اور اہم رول ادا کرتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی شخصیت ان اعلیٰ آدرشی اصولوں کی نفی کرتے ہوئے، اپنے آپ کو”جز”سمجھنے کے بجائے ”کل” سمجھنا شروع کرے، تو آپ یقین جانیں کے اس دن سے آپ کی تحریک اور جدوجہد کا اللہ ہی حافظ ہے۔ پھر ساری بھاگ دوڑ وہ اپنی شخصیت کو بنانے اور سنوارنے میں لگ جاتا ہے۔ اس کی زبان سے نکلا ہوا ہر لفظ آسمانی اور الہامی بن جاتاہے۔ اس پر جائز اور مثبت تنقید یا رائے دینا کفر کے زمرے میں آجاتا ہے۔ تنظیم کے اندر جاہلوں اور خوشامدیوں کی ایک ایسی فوج تیار کی جاتی ہے، جو عقیدے اور اندھی تقلید کے بناء پر اس شخصیت کے آگے پیچھے گھومتی رہتی ہے۔ نتیجہ تنظیم اور جدوجہد کی تباہی بربادی اور قوم اور کیڈر کی فرسٹریشن کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ سندھ کی قومی سیاست میں آپ کو ایسے بہت سارے نقلی اور مصنوعی خان، چے گویرا اور دریا خان ملیں گے، جو قومی سیاست کو آگے لے جانے کے بجائے، اپنی ذاتی خواہشات، نام، شہرت اور پیسے کمانے کے خفت میں جٹھے ہوئے ہیں۔نتیجے کے طور پر سندھ کی قومی سیاست روز بروز محدود، لاچار اور بیوس بنتی جا رہی ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: سندھودیش کی تحریک میں ہم مسلح مزاحمت کی مثالیں کم دیکھتے ہیں۔ اس کی وجہ کیا ہے؟
صوفی شاہ عنایت: اگر آپ سندھ کی ماضی کی تاریخ کا جائزہ لیں، تو آپ کو ساری تاریخ سندھی عوام کے طرف سے اپنے مادر وطن کے دفاع کے لیئے مزاحمت کرتے ہوئے ملے گی۔ ق م میں سکندر یونانی کا حملہ ہو یا عرب سامراج کے طرف سے تسلسل سے 16 حملے ہوں، سندھی عوام اپنے وطن کے دفاع میں ہزاروں لاکھوں کے تعداد میں اپنی زندگیوں کا نذرانہ دے کر اپنے سرحدوں کی حفاظت کرتا رہا ہے۔ یہاں تک کہ عربوں کے 16 حملوں میں سے 15 حملے سندھیوں نے اپنی بہادری سے پسپا کر کے عربوں کو بھاگنے پر مجبور کر دیا تھا۔ یہ عربوں کا سولہواں (16) حملہ تھا، جس میں بڑی مزاحمت کے بعد محمد بن قاسم کو کامیابی نصیب ہوئی تھی۔ اور سندھ کا محب وطن حکمران راجہ ڈاہر اپنے ساتھیوں سمیت اپنے وطن کی حفاظت کرتے ہوئے شہید ہو گئے تھے۔ ڈاہر کی شہادت کے بعد بھی اس کا بیٹا جئے سینا اور سندھی عوام سارے عرب دور میں مسلسل عربوں کے خلاف گوریلا جنگ لڑتے رہے۔ جب تک جا کے 1010 عیسوی میں سندھیوں کے ”سومرہ گھرانے” نے دوبارہ اقتدار نہیں سنبھالا۔ سومرا گھرانے کہ بعد سندھیوں کے ہی ”سما اور کلہوڑا دور” میں بھی جب سندھ کے اوپر ارغون، ترخان اور مغل حملے آوروں نے حملے کئے، تو اس سارے عرصے کہ اندر بھی شہید دولھ دریا خان، شہید مخدوم بلاول، شاھ حیدر سنائی، صوفی شاھ عنایت شہید کی سربراہی میں یا ”میاں وال تحریک” کے پلیٹ فارم سے سندھی عوام مسلسل مزاحمتی جنگیں لڑتے رہے۔
آگے چل کر جب سارے برصغیر پر انگریزوں کا قبضہ ہوا تو اس قبضے کے خلاف بھی سندھی عوام سورہیہ بادشاہ کی سربراہی میں ”حر گوریلا تحریک” کے پلیٹ فارم سے مزاحمت کرتا رہا۔ اس تحریک کا نعرہ ہی یہی تھا کہ”وطن یا کفن” ”آزادی یا موت”۔ اور وہ تحریک اس دور میں اتنی مضبوط اور منظم تھی کہ انہوں نے مکھی جنگل(سانگھڑ) میں اپنی جلاوطن حکومت بھی قائم کی ہوئی تھی۔ اس تحریک اور مذاحمت کو کچلنے اور ختم کرنے کے لئے انگریزوں کو سارے برصغیر کے اندر سب سے پہلے سندھ میں مارشل لاء لگا کر بمبارمنٹ کیلئے جیٹ جہازوں کا استعمال کرنا پڑا تھا۔
آپ کے سامنے سندھ کی ماضی کا یہ مختصر پس منظر رکھنے کا مقصد یہ تھا، تاکہ آپ چیزوں کو اچھی طرح حال کے پیش منظر میں سمجھ سکیں۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سندھ کے ماضی کی اتنی شاندار مذاحمتی تحریکیں پاکستان بننے کے بعد اتنی سست، دہیمی اور کمزور کیوں پڑ گئیں؟ جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں، اس کے بنیادی دو اسباب ہیں۔
1۔ جس کا مختصر ذکر میں پہلے ہی کر چکا ہوں کہ پاکستان بننے سے پہلے 1940 کی قرارداد کے بناء پر سندھی، بلوچ، پختون اور بنگالی قوموں کو دھوکے سے یہ باور کرایا گیا کہ، پاکستان، مسلم اکثریتی علاقوں پر مشتمل آزاد ریاستوں (States) کا ملک ہو گا۔ دوسرا یہ کہ بنگال کی موجودگی میں عددی اکثریت ہونے کے بناء پر ووٹ کے ذریعے اسمبلی میں پنجاب کو شکست دینے میں کامیاب ہو جائینگے۔ ظاہر ہے کہ جیسا مقصد اور مطالبہ ہو گا اس کے لئے جدوجہد کا طریقہ کار بھی و ہی استعمال کیا جائے گا۔ اس لئے ہمارے ہاں پاکستان بننے سے لیکر 1970_71 تک سارا فوکس قومی حقوق کی ڈیمانڈ اور آئینی جدوجہد پر ہی رکھا گیا۔
2۔ آگے چل کر جب سائیں جی ایم سید نے 1972 میں سندھودیش کا نظریہ پیش کیا تو اس کے فوراً بعد سائیں نے ”رہبر” نام سے گوریلا جنگ پر ایک شاندار بک لیٹ لکھ کر کیڈر اور تحریک کیلئے حکمت عملی اور طریقہ کار کو واضح کیا۔ لیکن سائیں جی ایم سید مسلسل قید و نظر بند رہنے اور عمر کی ضعیفی کی وجہ سے اس کام کو آگے بڑھانے اور تنظیمی شکل دینے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ سائیں جی ایم سید کی موجودگی یا اس کی وفات کے بعد مذاحمت کے نام پر جو نام نہاد لیڈر بنے انہوں نے ”سیاست کی بھی اعلیٰ شکل” والے اس اہم اور حساس سبجیکٹ کو کبھی بھی بطور آرگنائزیشن، قاعدہ، قانون، اداروں، اصولوں، ضابطوں اور رازداری سے نہیں چلایا۔ بس اس کو openly ڈرامہ اسٹیج بنا کر اپنی ذات، نام، شہرت، پیسے اور ریاست کے ساتھ کمپرومائیزیشن اور بارگیننگ کیلئے استعمال کیا۔ ظاہر ہے نتیجہ ناکامی کی صورت میں نکلنا تھا۔ آج ان سابقہ مذاحمتکاروں کی صورتحال یہ ہے کہ کوئی پرو پاکستانی بن کر ریاست کے گیت گا رہا ہے۔ کوئی ریاست کے خوف سے اپنے ضمیر کے سامنے سرینڈر کر کے بچوں کے لئے روٹی پانی کما رہا ہے، تو کوئی گراﺅنڈ پر مذاحمتی سوچ اور کیڈر کو شہید کروا کر، خود سارے خاندان کے ساتھ باہر بھاگ گیا ہے، اور اب ادھرسے بیٹھ کر مذاحمتی سوچ، عمل اور سندھ کے اندر واحد اور اکیلی مزاحمتی تنظیم ”سندھودیش ریوولیوشنری آرمی”(SRA) اور اس کی کاروائیوں اور دوستوں کی مخبری کر کے 164 کر رہا ہے۔
باوجود ان سب کے میں سمجھتا ہوں کہ سندھ کے اندر بڑے پیمانے پر سیاسی، قومی اور مذاحمتی شعور موجود ہے اور بڑی بات یہ کہ ماضی کی تاریخ کا شاندار اور باوقار مذاحمتی تسلسل اور ورثہ ہمارے ساتھ ہے۔ اس لئے سندھ ایک بار پھر ضرور اٹھے گی اور پنجاب سامراج کو شکست فاش دینے میں یقینا کامیاب ہو گی۔
دی بلوچستان پوسٹ: سندھودیش روولیوشنری آرمی (SRA) کس مقصد کے تحت لڑ رہی ہے؟ آپ کے بنیادی مقاصد اور مطالبات کیا ہیں؟
صوفی شاہ عنایت: تاریخ کے مختلف ادوار میں سندھ ایک ”آزاد اور خودمختیار” قومی ریاست کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پربرقرار رہی ہے۔ پاکستان بننے کے بعد اس کی وہ تاریخی حیثیت اور حقیقت ختم کر کے اس کو مکمل طور پر سیاسی ثقافتی اقتصادی اور جغرافیائی حوالے سے غلام بنا کر پنجاب سامراج کی کالونی بنا دیا گیا ہے۔ سندھودیش روولیوشنری آرمی(SRA) ایک ذمہ دار تنظیم کی حیثیت سے سندھ کی اس تاریخی حیثیت کو بحال کروانے کے لئے مذاحمت کر رہی ہے۔ SRA کا اس وقت صرف ایک ہی مقصد اور مطالبہ ہے۔ وہ ہے ”آزاد سندھودیش کی قومی ریاست” کا قیام۔
دی بلوچستان پوسٹ: سننے میں آ رہا ہے کہ سندھ کے اندر SLA سندھ لبریشن آرمی کے نام سے پہلے ہی ایک مذاحمتی تنظیم کام کر رہی ہے۔ اگر یہ سچ ہے تو پھر سندھودیش روولیوشنری آرمی(SRA) کے قیام کا کیا جواز ہے؟
صوفی شاہ عنایت: تاریخ کے اپنے قانون اور فیصلے ہوتے ہیں۔ وہ نا ہی کسی کے ذاتی خواہشات کی محتاج ہوتی ہے اور نا ہی کسی کا انتظار کرتی ہے۔ تاریخ میں جو قوتیں تاریخ کی ضروریات اور لوازمات پوری نہیں کرتیں، تاریخ ان قوتوں کو ردی کی ٹوکری میں ڈال کر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دفن کر دیتی ہے۔ اور ان کی جگہ نئی اور صحتمند قوتوں کو جنم دیتی ہے۔ SLA نے بھی جب تاریخ کی ضروریات اور لوازمات کو پورا نہیں کیا، تو آج وہ اپنے سماج، قومی تحریک اور کیڈر سے تحلیل ہو کر ختم ہو چکی ہے۔ ظاہر ہے کہ ایک چیز گراﺅنڈ پر ہے ہی نہیں، تو تاریخ کو وہ خلا(space) تو پر کرنا ہی کرنا تھا۔ S.R.A کا قیام اس تاریخی جواز کا نتیجہ ہے۔ SRA اپنے قیام دسمبر 2010 سے لیکر آج تک تاریخ کے اس خلا اور ضرورت کو پورا کرنے کے لئے اپنی بھرپور کوششوں میں مصروف عمل ہے۔ ہم جھوٹے دعوﺅں پر یقین نہیں رکھتے کہ ہم نے سندھ کے اندر خون کی ندیاں بہا دیں ہیں، لیکن ہاں ہم یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ ان سات سالوں کے اندر ہم نے اپنے کردار، عمل اور قربانیوں کے ذریعے بالخصوص قومی تحریک اور کیڈر اور عمومی طور پر اپنے سماج کے اندر ایک جگہ بنانے اور مذاحمتی سوچ کو آگے بڑھانے میں ضرور کامیاب ہوئے ہیں۔ ہم اس سوچ کو اور بھی آگے بڑھانے اور اس کو مزید مضبوط، منظم اور وسیع تنظیمی شکل دینا اپنا اولین فرض سمجھتے ہیں۔ تاکہ مادر وطن سندھودیش کی آزادی کے حاصلات کو سندھی عوام کے وسیع حمایت اور شرکت کے ساتھ یقینی بنایا جا سکے۔
دی بلوچستان پوسٹ: بلوچ قومی تحریک آزادی کے بابت سندھ میں عام رائے کیا ہے؟ اور قومپرست جماعتیں اس بابت کیا پالیسی رکھتے ہیں؟
صوفی شاہ عنایت: سندھی اور بلوچ قومیں نا صرف آپس میں برادر اقوام ہیں بلکہ ان دونوں قوموں کا دشمن(پاکستان) بھی ایک ہے، تو مقصد(آزادی) بھی ایک ہے۔ بنیادی نقاط کی ہم آہنگی کی وجہ سے ان دونوں قوموں میں آپسی قریب ہونا اور ایک دوسرے کی حمایت اور مدد کرنا ایک فطری امر ہے۔ سندھی قوم شروع سے لیکر آج تک بلوچ قومی تحریک کو عزت اور احترام کی نگاہوں سے دیکھتی رہی ہے۔ ایک وقت تھا کہ بلوچ قومی تحریک، سندھ کی قومی تحریک سے فکری نظریاتی اور سیاسی حوالے سے انسپائریشن لیتی تھی۔ لیکن آج کا سچ یہ ہے کہ سندھ کی قومی تحریک، بلوچ قومی تحریک سے مذاحمتی انسپائریشن لے رہی ہے۔ رہا سوال پالیسی کا تو اس پر سائیں جی ایم سید کا فکر اور فلسفہ بالکل کلیئر اور واضح ہے کہ ہم سندھ کے اندر اور سندھ سے باہر پنجاب سامراج کے خلاف جدوجہد کرنے والی ہر قوت/ پارٹی کی نا صرف حامی ہیں بلکہ ”مشترکہ دشمن، مشترکہ حکمت عملی” کے تحت اتحاد کے لئے بھی تیار ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: بلوچوں اور سندھیوں کے بیچ ہزاروں سالوں سے برادرانہ تعلقات رہے ہیں۔ اس نسبت سے یہ دونوں برادر قومیں اپنی آزادی کی تحریکوں میں ایک دوسرے کی کیسے مدد کر سکتے ہیں؟
صوفی شاہ عنایت: ہمارا دشمن اپنی پوری ریاستی طاقت اور مشینری کے ساتھ ہمارے خلاف ہر محاذ پر جنگ مسلط کر چکا ہے۔ چاہے وہ محاذ سندھ اور بلوچستان کے اندر وڈیروں، جاگیرداروں، سرداروں اور اپنے ایجنٹوں کے معرفت سے ہو یا پاکستان سے باہر اپنے اور چائنا کے گٹھ جوڑ سے دنیا کے مختلف ممالک اور ڈپلومیٹک چینلوں سے ہو۔ ہمارا دشمن ہمارے دونوں قوموں اور تحریکوں کے خلاف یہ سب کچھ بڑی تیزی، ہوشیاری، چالاکی، مکاری اور سفاکی کے ساتھ کر رہا ہے۔ اس ساری صورتحال کو فیس اور کاﺅنٹر کرنے کے لئے ہمیں کیا پالیسی اور حکمت عملی اختیار کرنی چاہئے؟ یہ ایک انتہائی اہم، بنیادی اور سنجیدہ سوال ہے۔ جس پر ہمیں بالکل سنجیدگی سے اپنی طاقت، معروضی صورتحال، ریجنل اور انٹرنیشنل صورتحال اور دشمن کی طاقت اور اس کے چائنا سمیت اتحادیوں کی صورتحال کو سامنے رکھ کر سوچنا چاہئے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں اس وقت تین محاذوں پر مشترکہ کام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ 1۔ سیاسی محاذ 2 ۔ مذاحمتی محاذ 3۔ عالمی سفارتکاری کا محاذ۔
اور ان تینوں محاذوں پر آپسی میں مشترکہ ورکنگ رلیشن شپ، کوآرڈینشن یا اتحاد کی صورت میں آگے بڑھنا چاہئے۔ تاکہ مشترکہ سیاسی، مذاحمتی اور سفارتکاری کے عمل کے ذریعے مشترکہ مقصد(آزادی) تک پہنچا جا سکے۔
دی بلوچستان پوسٹ: تاریخی طور پر دیکھا جائے تو سندھ ایک سیکیولر ملک رہا ہے۔ اور وہاں ہمیشہ تمام مذاہب کے لوگ باہمی احترام کے ساتھ رہتے آئے ہیں۔ حالیہ دنوں سندھ میں مذہبی شدت پسندی کی ایک نئی لہر دیکھی جارہی ہے۔ جس میں خاص طور پر ہندوو برادری کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور جہاں ہندو نوجوان لڑکیوں کو اغواءکر کے زبردستی مسلمان بنانے جیسے واقعات تواتر سے ہو رہے ہیں۔ اس کی وجہ کیا ہے؟
صوفی شاہ عنایت: صدیوں سے سندھ تاریخی طور پر ایک سیکیولر اور مذہبی حوالے سے روادار، سہپ اور برداشت والا خطہ رہا ہے۔ امریکی تاریخی محققAOUMIEL اپنے مشہور کتاب Dancing Shadows میں وادیءسندھ کو مذاہب کی ماں(Mother) لکھتے ہوئے کہتی ہے کہ دنیا کے تمام مذاہب کی پالنا تاریخ کے مختلف ادوار میں سندھ کے ہی گود میں ہوئی ہے۔ سندھ میں آج بھی آپکو و یدک دھرم، ھندو مت، بدھ مت، جین مت، زرتشت، عیسائیت اور اسلام کے مذہبی لوگوں اور ان کے عبادت گاہوں مساجد، مندروں، گرجا گہروں اور پاٹھشالوں کے نشانات دیکھنے کو مل جائیں گے۔ لیکن پاکستان بننے کے بعد ایک سوچی سمجھی سازش اور پلاننگ کے تحت سندھ کے اس سیکیولر اور روادار روح اور چہرے کو مسخ کرنے کے لئے ریاستی سرپرستی کے نیچے مذہبی جماعتوں کا جال بچھایا گیا۔ اس کو مزید تقویت اس وقت ملی جب-2011 2010 میں سندھ کے اندر مہا سیلاب آیا تھا۔ اس سیلاب کی وجہ سے ویسے تو پوری سندھ متاثر ہوئی تھی لیکن زیادہ نقصان ہندوستان سے متصل اضلاع ٹھٹہ، سجاول، بدین، مٹھی، تھر پارکر، سانگھڑ وغیرہ وغیرہ میں ہوا تھا۔ وہاں سے ہی پاکستانی ریاست نے حافظ سعید جیسے عالمی دہشتگرد کی تنظیم جماعت الدعوہ، لشکر طیبہ، جماعت اسلامی اور ایسی دوسری تنظیموں کو متاثرہ لوگوں کے امداد کے بہانے انٹری دلوائی تھی۔ آگے چل کر انہوں نے متاثرہ علاقوں میں بڑے بڑے مدارس اور مراکز قائم کر لئے۔ تاکہ پنجاب اور آزاد کشمیر کے بعد سندھ کے سرحد سے بہی ہندوستان کیلئے ایک نیا جنگی محاذ کھولہ جا سکے۔ اور زیادہ تر جو ہندو لڑکیوں، عورتوں، مردوں اور بچوں کے اغواءاور زور ذبردستی سے مسلمان بنا کر شادیوں کے واقعات ہو رہے ہیں، وہ ان ہی مذہبی فاشسٹ تنظیموں کے معرفت میں ہو رہا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ سندھ کے اندر یہ جو واقعات ہو رہے ہیں، اس میں مکمل طور پر پاکستانی ریاست اور اس کی ایجنسیاں ملوث ہیں۔ تاکہ سندھ کو باب السلام کے نام پر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے غلام رکھا جا سکے۔
دی بلوچستان پوسٹ : آپ چائنا پاکستان اقتصادی راہداری(CPEC) کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
صوفی شاہ عنایت: میں سمجھتا ہوں کہ چائنا پاکستان اقتصادی راہداری(CPEC) نا صرف ہم دونوں سندھی اور بلوچ اقوام کے لئے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے بلکہ اس خطے کے لئے بھی انتہائی خطرناک منصوبہ ہے۔ اصل میں یہ ایک بڑا اقتصادی اور عسکری جال ”اوبور”(ون بیلٹ ون روڈ) کا منصوبہ ہے۔ جس کے ایم او یو(میمورینڈم آف انڈراسٹینڈنگ) پر چائنا اور پاکستان گورنمینٹ نے 2013 میں دستخط کئے تھے۔ جس کے مطابق چائنا پاکستان کے اندر 46۔ ارب ڈالر (اب 62۔ارب ڈالر سے بھی اوپر) سیڑپکاری کرے گا۔ CPEC سے سندھ کے اندر شروع ہونے والے اہم پراجیکٹس میں سے کراچی۔لاہور موٹر وے(سکھر۔ملتان روٹ)، تھر کول پاور پراجیکٹ، جہمپیر ونڈ پاور پراجیکٹ، پورٹ قاسم پاور پراجیکٹ، مٹیاری۔لاہور اور مٹیاری۔فیصل آباد ٹرانسمیشن لائین، نوابشاہ LNG گیس پائیپ لائین، کراچی۔لاہور اور کراچی۔پشاور ریلوے لائین وغیرہ وغیرہ شامل ہیں۔ جیسا کہ CPEC کے منصوبوں کا بڑا حصہ توانائی (Energy) کے منصوبوں پر مشتمل ہے۔ اس لئے چائنا کو اپنی انڈسٹری چلانے کے لئے بجلی، تیل، گیس، پانی اور ہوا پر چلنے والے سب ذرائع درکار ہیں اور وہ توانائی کے سب پراجیکٹ سندھ میں ہی موجود ہیں۔ CPEC کے حوالے سے جو سندھ کے اندر رستوں کا جال بچھایا جا رہا ہے یا انڈسٹریل زون اور بڑے بڑے شہر تعمیر کئے جا رہے ہیں، ان منصوبوں میں ساری سیڑپکاری پنجابی فوج کی کمپنیوں اور سیکیورٹی اداروں کی نگرانی میں ہو رہی ہے۔ اس لئے ہمیں شدید خطرہ لاحق ہے کہ سارا کنٹرول فوج اور پنجاب اور دوسرے علاقوں سے آنے والے آبادکاروں کے ہاتھوں میں چلا جائیگا۔ اور ہم اپنی جغرافیائی، ڈیموگرافی، واپار، کاروبار، تیل، گیس، کوئلے، مارکیٹ، شاہراہوں اور سمندری بندرگاہوں سے محروم ہو کر مکمل طور پر اقلیت میں تبدیل ہو جائیں گے۔
اس کے علاوہ اس منصوبے کے تحت چائنا کی فوج اور سرمایہ دار آسانی سے سندھ کے سمندر اور سمندری بندرگاہوں پر پہنچ جائے گا۔ جس کی وجہ سے سندھی عوام سے اپنا ساڑھے چار سو کلومیٹر لمبا سمندری ساحل، بندرگاہیں اور سمندری جزیرے مطلب سارا ”سندھی سمندر” ہاتھوں سے نکل جائے گا۔ اس لئے ہم واضح طور پر CPEC کو سندھ اور سندھی عوام کے لئے انتہائی خطرناک سمجھتے ہیں۔ اور اس منصوبے کو ناکام بنانے کے لئے مذاحمت کرنا اپنا اولین فرض سمجھتے ہیں۔ اور نا صرف ہم بلکہ اس منصوبے کو ناکام بنانے کے لئے اپنے بلوچ بھائیوں اور آزادی پسند مذاحمتی تنظیموں سے بہی روابط قائم کریں گے۔ تاکہ مشترکہ حکمت عملی، جدوجہد اور مذاحمت کے زریعے اس منصوبے کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دفن کیا جا سکے۔
دی بلوچستان پوسٹ: سندھ میں مہاجروں کی بڑی آبادکاری کے بعد سندھ کے کئی علاقوں خاص طور پر کراچی اور حیدرآباد میں مہاجر اکثریت میں نظر آتے ہیں۔ اور ہمیں اس بابت جناح پور، الگ صوبے، مہاجر وطن اور مہاجرستان جیسے مطالبات اور تحریکوں کی آوازیں اٹھتی سنائی دیتی ہیں۔ آپ اس مسئلے کو کیسے دیکھتے ہیں؟ اور آپ کی نظر میں اس کا حل کیا ہے؟
صوفی شاہ عنایت: ہمارے لئے یہ ایک انتہائی اہم اور حساس مسئلہ ہے۔ اس لئے میں اس پر تھوڑا تفصیل سے بات کرنا چاہوں گا۔ جہاں تک آپ کے سوال کا تعلق ہے کہ ”مہاجر کراچی اور حیدرآباد میں اکثریت میں ہیں”۔ تو یہ دعویٰ غلط، بے بنیاد اور ذمینی حقائق کے بالکل برخلاف ہے۔ حیدرآباد سمیت ہمارے اور بڑے شہروں میں سندھیوں کی کثیر آبادی رہتی ہے۔ جہاں پر اردو بولنے والوں کی تعداد سندھیوں سے بالکل کم ہے اور جہاں تک کراچی کا تعلق ہے، تو تازہ 2017 میں ہونے والی آدمشماری کے سرکاری اعداد وشمار کے مطابق کراچی کی ٹوٹل آبادی ایک کروڑ ساٹھ لاکھ ہے۔ جس میں اندازاً اسی لاکھ سے بھی اوپر سندھی اور بلوچی بولنے والے شامل ہیں۔ کراچی میں ملیر، گڈاپ، لیاری اور ابراھیم حیدری سے لیکر کراچی مشرق تک سندھی آبادی کی ایک بڑی تعداد آباد ہے۔ سندھی سمندر کے اندر بھی سینکڑوں جزیرے ہیں، جن پر سندھی مچھیروں کے ہزاروں کی تعداد میں گاوں آباد ہیں۔
مطلب یہ کہ اگر کراچی کا جغرافیائی حوالے سے حقیقت پسندانہ جائزہ لیا جائے تو آج بھی کراچی شہر چاروں اطراف سے سندھی آبادیوں میں گہرا ہوا ہے۔ مہاجروں کی اکثریتی آبادی کا زیادہ تر تعلق صرف کراچی سینٹرل سے ہے۔ اس لئے یہ تو صاف ظاہر ہے کہ کراچی کی سیاست ہو، جغرافیائی ہو یا ڈیموگرافی ہو اس میں صرف مہاجر اکیلے اسٹیک ہولڈر بالکل بھی نہیں ہیں۔اس لئے کراچی کا سندھ سے علیحدہ ہونا یا مہاجر صوبے کا خواب دیکھنا احمقوں کی جنت میں رہنے کے برابر ہے۔ کیونکہ یہاں کے ذمینی حقائق بالکل مختلف ہیں۔ ایسے کسی شوشے کا کامیاب ہو جانے کا دور دور تک کوئی بھی امکان نہیں۔
دوسری بات یہ کہ ساری دنیا کے اندر لاکھوں مہاجرین خانہ جنگی، سیلاب اور دوسرے اسباب کی وجہ سے ادھر ادھر ہجرت کرتے رہتے ہیں۔ تو کیا اس کا مطلب یہ ہوا کہ دنیا کے سارے ممالک ان مہاجرین کو اپنے اپنے ممالک میں علحیدہ علیحدہ ملک بنا کر دینگے؟ نہیں بالکل نہیں۔ جس کی تازہ مثال سارے یورپ کے اندر شامی پناہ گزینوں کی ہے۔ سندھ میں آنے والے مہاجر بھی 1947 میں ہونے والے بٹوارے کے بعد یہاں آ کر پناہ گزین بنے تھے۔ اور سندھیوں نے اپنے دھرتی پر ان کو پناہ دی تھی۔ بقول سائیں جی ایم سید؛ ” بٹوارے کے وقت ان کو اپنی دھرتی گنوانے کے بعد قدرت والے نے ان کو سندھ جیسی خوبصورت دھرتی نصیب کی ہے۔ اب ان کا جینا مرنا اس دھرتی سے ہی وابستہ ہے۔ اس لئے وہ خود سندھی کلچر کو اپناتے ہوئے، ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اس دھرتی کا حصہ بن جائیں”۔
باقی جو کراچی اور حیدرآباد میں مہاجر صوبے یا نعرے کی لسانی بنیادوں پر آج کل یا اس سے پہلے سیاست ہو رہی تھی، اس کے پیچھے تین عناصر شامل ہیں۔
1۔ مہاجر صوبے یا نعرے کی سیاست کر کے مہاجروں کو اموشنل بلیک میل کر کے ان کی ہمدردی اور حمایت حاصل کی جائے۔ تاکہ ان کا ووٹ بینک اپنے پاس یرغمال بنا کر رکھا جا سکے۔
2۔ سندھ کے اندر قومی تضاد اور قومی تحریک کو کاﺅنٹر کرنے کے لئے ضیاءدور میں مہاجر قومی موومینٹ(MQM) کو ریاستی سرپرستی میں شہروں کے اندر پیدا کیا گیا۔ جس کے نتیجے میں 1988 اور 1990 میں ریاستی اداروں کے معرفت سندھی۔ مہاجر فساد بھی کروائے گئے۔ لیکن آگے چل کر دونوں فریقین کو احساس ہوا کہ یہ جھگڑا ہم دونوں کے حق میں نہیں ہے۔ الطاف حسین جو اس وقت مہاجر قومی موومنٹ کا سربراہ تھا، اس نے اپنی پارٹی سے ”مہاجر” لفظ نکال کر اس کو متحدہ قومی موومینٹ میں تبدیل کر لیا۔ اور اس وقت سندھ کے تین اہم اشوز کالاباغ ڈیم، این ایف سی ایوارڈ اور آدمشماری کے مسئلے پر جیئے سندھ قومی محاذ اور متحدہ قومی موومینٹ میں اتحاد بھی ہوا۔
مطلب آج اگر پھر سے سندھ کی شہری آبادی میں سندھی۔مہاجر تضاد ابھارنے کی کوشش ہوتی ہے تو اس کے پیچھے ریاستی ہاتھ ملوث ہو نگے۔ جو سندھ کی دو مستقل آبادیوں کو پنجاب کے خلاف متحد ہونے نہیں دیتے۔ مہاجر لسانی سیاست کرنے میں اس وقت مہاجر قومی موومنٹ(آفاق) وغیرہ جیسی تنظیمیں ملوث ہیں۔ سندھ اندر یہ سندھی۔ مہاجر لسانی تضاد پیدا کرنے میں صرف مہاجروں کی تنظیمیں ملوث نہیں ہیں، بلکہ ریاستی آشیرباد اور پنجاب سامراج کی پالیسیوں پر کام کرنے والی سندھ کی کچھ نام نہاد الیکشنی فرقے وار قومپرست جماعتیں بھی شامل ہیں۔ جو وقتاًفوقتاً سندھی۔ مہاجر تضاد کو ہوا دے کر اپنے سیاست کو چمکاتے رہتے ہیں۔
3۔ سندھ میں مہاجر صوبے یا سندھ کے ساحلی علاقوں اور شہروں کو الگ کر کے ایک الگ مہاجر ریاست بنانے میں ایک تیسرا فریق بھی شامل ہے۔ جس کا تعلق عالمی شازش کے تحت اس گریٹ گیم سے ہے جن کی نظریں سندھ کے سمندر اور خاص طور پر کراچی شہر کی جغرافیائی اہمیت پر ہے۔ اس میں MQM لندن کی عالمی سازش میں شامل گٹھ جوڑ کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
بحرحال مہاجر جو اس وقت پہلے ہی آپس میں MQM۔پاکستان، MQM۔لندن، PSP، MQM۔ آفاق اور مختلف مذہبی جماعتوں میں بٹ چکے ہیں۔ ان کے لئے بہت سال پہلے جو سائیں جی ایم سید نے پیشن گوئی کی تھی، وہ آج بالکل سچ ثابت ہو رہی ہے۔ سائیں نے کہا تھا کہ؛” مہاجر آگے چل کر تین حصوں میں تقسیم ہو جائیں گے۔ ان میں سے ایک حصہ سندھیوں سے ٹکرانے کی صورت میں شکست کھا کر ختم ہو جائے گا۔ دوسرا حصہ باہر بھاگ جائے گا۔ تیسرا حصہ جو اکثریت میں ہو گا وہ سندھیوں سے مل جائے گا”۔
یہی سبب ہے کہ آج مہاجروں کا ایک بڑا حصہ سمجھ چکا ہے کہ ان کو ادھر ہی مل جل کر رہنا ہے۔ وہ MQM کے سارے گروپوں سے مہاجر نعرے یا الگ صوبے والی سیاست سے جان چھڑا کر اپنے لئے متبادل راستے تلاش کر رہا ہے۔ اور سندھیوں سے اپنے رشتے جوڑ رہا ہے۔
سندھ میں مہاجر مسئلے کا مستقل حل بھی یہی ہے کے سندھی اور اردو بولنے والے مشترکہ سیاسی اور اقتصادی مفادات کے تحت سندھ وطن کے بنیاد پر ایک مشترکہ قوم بن کر ایک دوسرے کے ساتھ رہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: آپ کی لڑائی ایک کیسے سندھودیش کے لئے ہے؟
صوفی شاہ عنایت: ہماری لڑائی سندھودیش کو ایک آزاد، خودمختار، سیکیولر، جمہوری اور سوشل ویلفیئر قومی ریاست بنانے کے لئے ہے۔ جس میں بنا کسی رنگ، نسل، ذات پات، مذہب، جنس اور اونچ نیچ کے فرق سے سب لوگ مساوی اور برابری کے بنیادوں پر ایک مشترکہ قوم کے حیثیت میں اپنی زندگی بسر کرینگے۔ سارے پیداواری وسائل اور ذرائع پر سندھی عوام کا کنٹرول اور اختیار ہو گا۔ جس میں ریاستی معاملات میں مذہبی مداخلت کی کوئی گنجائش نہیں ہو گی۔ جس میں ہر مذاہب کے لوگوں کو اپنے اپنے عبادت گاہوں مساجد، مندروں اور گرجا گھروں میں جانے اور اپنے اپنے مذہبی تہوار منانے کی مکمل آزادی ہو گی اور جس میں دنیا کی ترقی اور امن کے لئے اتحاد انسانی، امن عالم اور ترقی بنی آدم کے رہنما اصولوں کو آگے رکھ کر ”جیو اور جینے دو” کی پالیسی رائج ہو گی۔
دی بلوچستان پوسٹ: بلوچ عوام میں سندھودیش کی آزادی کیلئے ہمیشہ سے ہمدردی اور حمایت پائی جاتی ہے۔ آپ بلوچ عوام کے لئے کوئی پیغام دینا چاہیں گے؟
صوفی شاہ عنایت: بلوچ عوام اور بھائیوں کیلئے میں سندھ کے دو عظیم فکری رہبروں شاہ عبداللطیف بھٹائی اور سائیں جی ایم سید کے زبانی یہ پیغام دینا چاہوں گا کہ:
ووء ووء کندی وت، متاں ووء وسارئیں
رندن متھاں رت، ھار تہ پسیں ھوت کھے
شاہ لطیف
ترجمہ: ”جس مقصد سے نکلے ہو اس مقصد کو کبھی بھی نہیں بھولنا۔ اپنے مقصد کے لئے چلتے رہنا۔ تکلیفوں اور قربانیوں کے بعد ہی آپ کو مقصد حاصل ہو گا“۔
‘غلامی آخر غلامی ہے۔ وہ جب تک موجود ہے ، تب تک ہر ایک غلام کا سیاسی اور اخلاقی فرض بنتا ہے کہ وہ اس غلامی کو ختم کرنے کے لئے اپنی آخری سانس تک جدوجہد جاری رکھے”۔(سائیں جی ایم سید)