کریمہ بلوچ کے ماموں نور احمد بلوچ کے شہادت کی مذمت کرتے ہیں۔ بی این ایم

458

بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی ترجمان نے نور احمد بلوچ کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ہم کچھ عرصے سے جس اجتماعی سزا کی بات اور خدشات کا اظہار کر رہے تھے اُس میں نہایت ہی شدت لائی گئی ہے اور میڈیا اور انسانی حقوق کے ادارے حسب سابق خاموش ہیں۔

کل 2 دسمبر کو بی ایس او آزاد کی چیئرپرسن کریمہ بلوچ کے ماموں نوراحمد کی تشدد زدہ لاش برآمد ہوئی۔ انہیں 28 جولائی 2016 کو دوران سفر ایک فوجی چیک پوسٹ پر کئی مسافروں کے سامنے پیراملٹری فورس فرنٹیر کور(ایف سی) نے مسافر وین سے اُتار کر اغوا کیا گیا اور ڈیڑھ سال بعد شہید کرکے ان کی تشدد زدہ لاش پھینکی گئی۔اس سے پہلے بھی بلوچ رہنماؤں اوردیگرجہدکاروں کے رشتہ داروں کو نشانہ بنایاجاتارہاہے۔

انھوں نے کہا کہ شہید کا جرم بی ایس اوآزادکے چیئرپرسن بانک کریمہ بلوچ کے ماموں ہوناتھا ،اسی طرح ان کا قتل اجتماعی سزا کے تسلسل کا حصہ ہے ۔شہیدنوراحمدکے حراست میں لاپتہ کرنے سمیت تمام تفصیل میڈیا اور انسانی حقوق کے اداروں کو رپورٹ کی گئی ہیں۔آج ایسی سینکڑوں مثالیں موجودہیں کہ جنہیں بھرے بازاروں سے اٹھایاگیا،ان کی تمام تر تفاصیل میڈیا میں جاری کی گئیں مگرفورسز نے انہیں جعلی مقابلوں میں مارنے کا ڈارمہ رچاکر شہید کیاگیا۔تمام حقائق سامنے ہونے کے باوجود آج تک کسی انسانی ادارے نے اس کا نوٹس نہیں لیاہے۔ یہاں سے ان کی اپنے فرائض کے تئیں غیرذمہ داری اوربلوچ کے متعلق جانب داری عیاں ہورہاہے ۔

انہوں نے کہاکہ اجتماعی سزاء سے پہلے بھی پاکستان نے بلوچ اساتذہ کو ٹارگٹ کرنے کا سلسلہ شروع کیا تھا تاکہ بلوچ قوم کے باشعور اورتعلیم یافتہ لوگوں کو نشانہ بناکر دوسرے کے لئے عبرت قائم کی جائے تاکہ وہ علمی میدان میں بلوچ قومی آزادی کے لئے درس و تدریس سے بازرہیں۔

شہید نور احمد بھی ایک بلوچ ٹیچر تھے جواپنی زندگی کا بیشترحصہ درس و تدریس میں گزاررہے تھے۔اساتذہ اوراعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کو نشانہ بنانے کے سلسلے میں پروفیسر صبا دشتیاری، زاہد آسکانی، استاد علی جان ، پروفیسر عبدالرزاق، ماسٹر سفرخان سمیت کئی دیگر اساتذہ کو پاکستانی فورسز نے شہید کیا گیاہے۔

ترجمان نے کہا کہ بلوچ قومی تحریک میں پاکستان بلوچوں کی سیاسی طاقت سے گھبرا کر نہتے شہریوں اور سیاسی کارکنوں کے رشتہ داروں کو نشانہ بنا کر اپنا فرسٹریشن نکال رہی ہے۔ پچھلے ڈھائی مہینوں میں ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کی اہلیہ اور بچوں اور اسلم بلوچ کی ہمشیرہ کو دیگر خواتین کے ساتھ کوئٹہ سے اغوا کیا گیا۔ مزکورہ رہنماؤں پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی مگر شدید قومی دباؤ کے بعد انہیں شدید ذہنی و جسمانی تشدد کے چار دن بعد رہا کیا گیا۔بعد میں راگئے ، مشکے اور گچک سے کئی خواتین کو اغوا کیا گیا جن میں ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کی دو بہنیں بچوں سمیت شامل تھیں۔ اس سے پہلے کراچی سے نوسالہ آفتاب اور بارہ سالہ الفت اور کئی طلبا کو فورسز نے اغوا کیاگیا، دو مہینے سے زائد کا عرصہ گزرنے کے باوجود ان معصوم بچوں کا کوئی حال نہیں۔
ترجمان نے کہا پاکستان نے بلوچوں کے خلاف اس صدی کے شروع میں جن مظالم کا آغاز کیا، ان کے خلاف بلوچ قوم نے شدید مزاحمت کی اور پاکستان اپنی شکست سامنے دیکھ کر غیر انسانی اعمال پر اُتر آیا۔ پہلے لوگوں کو اغوا کرکے کئی مہینے ٹارچر کے بعد چھوڑ دیا جاتا تھا۔ اغوا کے بعد ’’ مارو اور پھینکو‘‘ کی پالیسی شروع ہوئی۔ ڈیتھ اسکواڈزوجود لائے گئے، ساتھ ہی جعلی انکاؤنٹروں کا ڈرامہ بھی آزمایا گیا۔ اب اجتماعی سزا کے طور پر بلوچ جہد کاروں کے رشتہ داروں، ہمسایوں اور ہمدردوں کو شہید کیا جارہاہے۔

ترجمان نے مزید کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان نفسیاتی طور پر پست ہو کر ایک درندہ کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ اسی پالیسی کے تحت عام آبادیوں کے خلاف فوجی آپریشن جاری ہے۔ کولواہ، دشت، تمپ، مند، مشکے سمیت کئی علاقوں میں آپریشن کے ایک اور فیز کی شروعات کی گئی ہے جہاں سے کئی لوگوں کو پاکستانی فوج نے اُٹھا کر لاپتہ کیا ہے۔