ڈاکٹر منان و ساتهیوں کی قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں – خلیل بلوچ

233

ڈاکٹر منان بلوچ اور ساتھیوں کی قربانی کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ خلیل بلوچ

بلوچ نیشنل موومنٹ کے چیئرمین خلیل بلوچ نے عظیم رہنما اوربی این ایم کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر منان بلوچ اور ساتھیوں دانشوراوررائٹرر بابونوروزبلوچ ،اشرف بلوچ،حنیف بلوچ اورساجد بلوچ کی دوسری برسی پر انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ بلوچ قوم کی تاریخ اور بحیثیت جماعت بلوچ نیشنل موومنٹ کی تاریخ قربانیوں سے بھری ہے۔ شہیدفدا بلوچ سے لیکر شہیدچیئرمین غلام محمدبلوچ اور شہیدڈاکٹرڈاکٹر منان بلوچ تک ایسے عظیم رہنماؤں نے بلوچ وطن کی آزادی ،قومی تشخص اورقومی بقاء اورتحفظ کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے وہ تاریخ رقم کی ہے جس کی نظیر بہت کم ہے۔اس صدی کے آغاز میں بلوچ قومی تحریک میں نئی ابھار،ماضی کے برعکس تسلسل برقراررکھنا، تحریک کے ماضی میں سیاسی اداروں کی عدم موجودگی سے پیداہونے والی کمزوریوں کا ادراک کرکے سدباب کے لئے بلوچ نیشنل موومنٹ جیسے قومی پارٹی کونیشنلزم کے واضح خطوط پر قومی آزادی کے جدوجہد کے منظم کردارکے لئے تیارکرنا شہیدچیئرمین غلام اور شہید ڈاکٹر منان بلوچ جیسے رہنماؤں کی ناقابل فراموش کارنامے ہیں اورڈاکٹر صاحب کی جدوجہد نے بلوچ قومی تحریک اور تاریخ پر ایسے گہرے نقوش چھوڑے ہیں انہیں تاریخ کے صفحات سے محوکرنا ناممکنات سے ہے ۔

خلیل بلوچ نے کہا کہ اس صدی کے آغاز پر بلوچ قومی تحریک کے تنظیمی شکل میں احیاء اورمسلسل کامیابیاں حاصل کرنے میں ڈاکٹر منان جان بلوچ جیسے زیرک رہنما ،ہمہ وقت مستعد اور متحرک لیڈراورعظیم موبلائزرکے خدمات نمایاں ہیں۔ تحریک کو موجودہ مقام پر لانے میں تمام بلوچ سیاسی رہبروں اورکارکنوں کی قربانیاں لازوال ہیں۔ سیاسی محاذپر واجہ غلام محمد اور ڈاکٹر منان جان کی شہادت اب تک کی سب سے بڑی نقصانات ہیں۔ یہ دونوں رہنماء زندہ ہوتے تو ان کی خدمات بلوچ قومی تحریک کے لئے یقیناًانتہائی مفید ثابت ہوتے لیکن شہادت کے عظیم منصب پر فائز ہوکروہ ایسی مینارہ نور بن چکے ہیں کہ تاابد بلوچ سیاست اورسماج ان سے روشنی حاصل کرتارہے گا۔ ساتھ ہی یہ ان کی بلوچ سرزمین اوربلوچ قومی آزادی سے عشق کے صداقت کے لئے اپنی خون سے اس تحریک کی آبیاری اپنی لہوسے کرکے شہادت قبول کی اوربلوچ قومی تاریخ میں امرہوئے ۔

بلو چ نیشنل موومنٹ کے چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا میں سمجھتا ہوں کہ ڈاکٹر منان بلوچ کی شہادت کے مثبت اثرات صرف بلوچ قومی تحریک اوربلوچ سرزمین تک محدودنہیں رہیں گے بلکہ بلوچ ہمسایوں کے ساتھ ساتھ دنیابھر کے مظلوم اورمحکوم ان کی سیاسی بصیرت اورانمول قربانیوں سے فیض یاب ہوں گے کیونکہ ڈاکٹر صاحب کامانناتھا کہ دنیا میں محکوم کہیں بھی ہومگر ان میں مظلومیت اورمحکومیت کا قدرمشترک ہوتاہے اور اس رشتے کو نیشنلزم کا نظریہ مزید مستحکم بناتاہے ۔ ڈاکٹر منان بلوچ کا مطالعہ نہایت وسیع تھا وہ عالمی تاریخ پر عبوررکھتے تھے ۔ یہی وجہ تھاکہ وہ دنیابھر کے مظلوم اورمحکوموں کے مسئلے کو اپنے قومی مسئلے کی طرح دیکھتے تھے۔ بلاشبہ ان کی سوچ اورفکرعالم گیر تھا۔ دو سال پہلے تیس جنوری کو علی الصبح جس ظالمانہ انداز میں پاکستانی فوج نے بی این ایم کے سینئر کارکن اشرف بلوچ کے گھر میں گھس کر ڈاکٹر منان بلوچ، محراب بلوچ، اشرف بلوچ، حنیف بلوچ اور ساجد بلوچ کو شہید کرکے ایک عالمی درجے کے رہنماء کوہمیشہ کے لئے ہم سے جدا کیا۔ لیکن تاریخ بارہا ثابت کرچکاہے کہ جس قوم کے پاس ایسی مدبر رہنماء ہو،جس قوم کے پاس آفاقی سوچ کے حامل لیڈر ہو تو وہ قوم اور سماج ایسے رہنماؤں کے تعلیم وتربیت کی بدولت ایسے رہنماء جنم دیتے رہیں گے اورآج یہ بلوچ قوم نے ثابت کردیاہے کہ بلوچ قوم سیاسی بانجھ پن کا شکار نہیں بلکہ ڈاکٹر منان جان کے کاروان کو منزل مقصود تک لے جانے کے لئے بلوچ فرزند سربکف میدان عمل میں سرگرم عمل ہیں۔ بلوچ قوم اپنے عظیم رہنماء کو کبھی فراموش نہیں کرے گا۔ شہدا کو خراج عقیدت کے ساتھ ان کا بدلہ آزاد بلوچستان کی صور ت میں پاکستان کو شکست دیکر اپنے دھرتی کا آزادی ہے۔ اب اس غلامی کا احساس بلوچ قوم کے ہر فرزند کے دل میں پیدا ہوچکاہے اور اس کے خلاف جد و جہد میں اپنا کردار ادا کرنے کیلئے تیا ر ہے۔ اس جدوجہد کی بدولت غلام اور قابض کا رشتہ مزید واضح ہوگیاہے۔ بلوچ قوم مشاہدہ کر رہا ہے کہ ہمارے شہدا کے مقبروں کو مسمار کیا جا تا ہے ، حق کی بات کہنے، جمہوری جلسے جلوسوں اور اظہار رائے پر پابندی عائد ہے، غلامی کا احساس اس سے بہتر کسی اور دور میں نہیں ہوا ہے۔ ڈاکٹر منان بلوچ وہ ہستی تھے جنہوں نے اس احساس غلامی اور آزادی کی جدو جہد کے پیغام کو بلوچستان کے کونے کونے تک پہنچانے میں ناقابل فراموش کردار کیا۔ اور اسی تگ و دو میں اپنے آبائی علاقے مشکے سے بہت دور مستونگ میں شہید اور وہیں دفن ہوئے۔ یقیناًایسی شخصیات کو بلوچ قوم اور انسانی تاریخ ہمیشہ یاد رکھے گی۔

چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا اس موجود تحریک کو احیاء میں بی ایس او آزاد کا قیام اور بعد میں بلوچ نیشنل موومنٹ کی موجودہ شکل اور جد و جہد نے ایک عظیم مقام اور دنیا کے ایوانوں میں پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان تنظیموں کے بانی اوررہنماء شخصیات یقیناًعظیم ہیں کہ جنہوں نے بلوچ قومی تحریک میں اداروں کے خلاء کو پرکیا۔ شہیدڈاکٹرمنان بلوچ جس طرح بی ایس او آزاد کے قیام کی کوششوں اور پذیرائی میں ساتھ تھا اور اسی طرح بی این ایم کو منظم اورفعال بنانے میں اپنی زندگی وقف کردی تھی۔ وہ ایک حقیقی سیاست دان اور اس سوشل سائنس کے بہترین ماہر تھے۔ علاقائی اور عالمی تبدیلیوں پر گہری نظر رکھتے تھے اور جس تبدیلی کی پیشن گوئی کرتے تھے وہ درست ثابت ہوتا تھا۔ انہوں نے شعبہ طب میں مہارت حاصل کی مگر قومی ضرورت، بلوچ قوم کی غلامی اور پاکستانی مظالم کے احساس نے انہیں طب کے بجائے سیاست اورقومی جدوجہد میں لانے کا موجب بنا۔ شہادت سے کئی سال پہلے سرکاری نوکری سے بھی استعفیٰ دیدیا۔ انہوں نے اپنی شخصیت کونمایاں کرنے کے بجائے پارٹی اورپارٹی اداروں کی تشکیل وتعمیرکے لئے کام کیا ۔

شہید ڈاکٹر منان بلوچ بلوچ قومی تحریک کو ادارتی بنیادوں پر آگے بڑھانے کے فلسفے پر کام کرنے والے اولین رہنماؤں میں سے تھے۔ اسی طرح وہ اشتراک و اتحاد کے میدان میں بھی اُس انقلابی معیار کا قائل تھا جس میں اولیت پارٹی اورادارے کو حاصل ہے۔ آج ڈاکٹر منان بلوچ ہمارے درمیان موجود نہیں ہے لیکن اُن کا فکر و فلسفہ اپنی صداقت کا اظہار اپنے آپ کررہاہے اوراُن کے ناقدین بھی بتدریج قائل ہورہے ہیں کہ جدوجہد کے تسلسل کو برقراررکھنے اوراسے منطقی انجام تک پہنچانے کا واحد ذریعہ تنظیمی شکل میں کام کرنے میں پنہاں ہے ۔

چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا کہ شہید ایک حیرت انگیزعوامی اور طلسماتی شخصیت تھے، ہمیشہ عوام کے درمیان میں موجود تھے اوربلوچ عوام کا جتنا محبت ڈاکٹر صاحب نے سمیٹا شاید کسی اورکو نصیب ہوا ہو۔ لوگ اُن کے مداح تھے اور بلوچ قومی تحریک میں کردار ادا کرنے کیلئے تیار ہوتے۔ ان کی انہی محنت اور صلاحیتوں سے خائف ہو کر قابض ریاست ہر وقت اسے نشانہ بنانے کی کوشش میں تھے اور آخر کار وہ اپنے ساتھیوں سمیت شہادت کے رتبے پر فائز ہوکر جسمانی طور پر ہم سے جُدا ہوئے مگر ان کا فکر، فلسفہ، اور قربانی ہماری لئے مشعل راہ ہیں اور ان کا مشن آزاد بلوچستان ہماری منزل ہے، اسے حاصل کر کے ہم شہداء کے ارمانوں کی تکمیل کریں گے۔