ڈاکٹر منان بلوچ نے ((3/9/1969کو مشکے کے علاقے نوکجو میں مولوی اللہ بخش کے ہاں آنکھ کھولی۔بچپن میں ہی والد کی موت کے بعد اپنے چچا کے ہاں رہنے لگے۔ پرائمری تعلیم نوکجو سے حاصل کرنے کے بعد میٹرک تک ہائی اسکول مشکے گجر میں پڑھنے گئے۔ جبکہ ایف ایس سی عطا شاد ڈگری کالج تربت سے کیا۔اسی دوران آپ ایک اسکول ٹیچر منتخب ہوئے، جھاؤ میں اپنے فرائض انجام دینے کے ساتھ ساتھ آپ نے بولان میڈیکل کالج میں انٹری ٹیسٹ دیا اور ایک میڈیکل کے اسٹوڈنٹ کی حیثیت سے آپ نے اپنی ’’ٹیچر کی‘‘ نوکری چھوڑ دی اور MBBSمکمل کرنے بعد آپ میڈیکل آفیسر کی حیثیت سے مشکے،آواران،جھاؤ اور گریشہ(نال) میں اپنی ڈیوٹی سرانجام دیتے رہے۔
ڈاکٹر منان بلوچ کی زندگی ایک ایسی کتاب کی مانند ہے جسے پڑھنے و سمجھنے کے لئے دل و دماغ کا ہونا ضروری ہے اُسے سمجھنے کیلئے فیصلہ دل کا ہو نا چاہیے کیو نکہ ڈاکٹر منان بلوچ ہر وقت اپنی دل کے فیصلے کیا کر تے تھے آپ وہ انسان تھے جو ہمہ جہت صلاحیتوں کے مالک تھے آپ ایک سیاسی استا د ایک دوست اور ایک شفیق بھا ئی کی طرح تھے۔آپ خو د میں ایک مضبوط ادار ہ تھے جو ہر ایک کو علم کی دریا سے روشناس کیا کر تے تھے۔ڈاکٹر منان بلوچ ایک ایسے انسان تھے کہ جس کی فعل و قول میں کسی قسم کا کوئی تضاد موجود نہیں تھا۔ وہ جو کہتے وہ کر کے دکھا بھی دیتے تھے۔آپ ہروقت کہتے تھے کہ اگر انسان کے ارادے پختہ ہوں تو انہیں مشکل سے مشکل ترین کام کرنے میں کوئی بھی رکاوٹ حائل نہیں ہوسکتا۔ ڈاکٹر منان سیاست اور سماجی سرگرمیوں کو لازم و ملزوم سمجھتے تھے۔ عوام کے مسائل سن کر انہیں حل کرنے کے لئے ہمیشہ کوشاں رہتے تھے۔ زمانہ طالب علمی میں طلباء سیاست کا حصہ رہے اور اپنی طالب علمی سے فراغت کے بعد بلوچ نیشنل موؤمنٹ میں شمولیت اختیار کرتے ہوئے قومی آزادی کی تحریک میں پیش پیش رہے۔کافی عرصے سے اپنی نوکری سے وابستہ رہنے کے بعد اپنی پارٹی فیصلے کی بنیاد پر آپ نے استعفی دیا اور بلوچ نیشنل موؤمنٹ کے کاموں میں بلوچ قوم کی نمائندگی کرتا رہا اور اپنی زندگی بلوچ قومی آزادی میں بر سرپیکار بی این ایم کیلئے وقف کردی۔ بلوچ نیشنل موؤمنٹ کی تاریخ قربانیوں سے بھری پڑی ہے۔بی این ایم میں قائد غلام محمد بلوچ،لالا منیر،ڈاکٹر منان،حاجی رزاق،رزاق گل،صمد تگرانی،جاوید نصیر،آغا محمود،نوروز جان،اشرف جان،حنیف جان اور شہید ساجد جان جیسے سینکڑوں کارکنان و رہنماؤں نے قربانی دی،تب جاکر بلوچ نیشنل موؤمنٹ بلوچ آزادی کی سیاست میں ایک اہم مقام حاصل کرچکی ہے۔بلوچ قومی سیاست میں بر سر پیکار کارکناں و رہنماء اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ جب آپ ایک سماج کو نئے سرے سے تشکیل دینے کی ٹھان لیتے ہیں تو تکلیف دہ راستوں سے گزرنا نا گزیر بن جاتا ہے۔سماجی تبدیلی یا قوموں کی خوشحالی قربانیوں کا تقاضہ کرتی ہے۔ڈاکٹر منان بلوچ انہی تقاضوں کے مطابق اور انہیں منطقی انجام تک لے جانے کیلئے ہر وقت تنظیمی کاموں میں مصروف عمل رہتے تھے،ڈاکٹرمنان بلوچ بین الاقوامی سیاست و قومی سیاست میں عظیم مہارت رکھتاتھا،بلوچستان کے کونے کونے میں عوامی موبلائزیشن کرنا ڈاکٹر کا شیوا تھا۔ ڈاکٹر منان کو جس کسی نے ایک بار دیکھاآپ کو قریب سے دیکھا تو ایک استاد کی درجہ دیتے ہیں۔
ڈاکٹر منان بلوچ سے میرا پہلا سیاسی دیوان غالباََ 2004کو مشکے کے ایک مقامی ہوٹل میں ہوا جہاں وہ اپنے دوستوں کے ہمراہ بیٹھے تھے۔ ہم نے بی ایس او آزاد کی سہ ماہی سگار ان کے حوالے کی تو انہوں نے اس کی فیس سے زیادہ پیسے ہمیں دئیے اور ہمیں چائے پینے کو کہا۔ چائے کے دوران سیاسی گفتگو بھی شرو ع ہوئی۔اس وقت ہمیں بی ایس او کے پلیٹ فارم کو جوائن کرتے کچھ وقت ہی ہوئے تھے۔باتوں باتوں میں ڈاکٹر منان بلوچ نے سگار ’’جو ان کے ہاتھ میں تھی‘‘ کے بارے میں گفتگو شروع کی۔ میرے خیال میں یہ بی ایس او متحدہ کا پہلا سگار تھا جو بلوچستان میں تقسیم ہو رہا تھا۔انہوں نے ہم سے سوال کیا اور اس سوال کا جواب بھی خود دیتے ہوئے کہا کہ سگار جدوجہد کی علامت ہے، اور اس کتاب کے پچھلے پیج میں موجود شہید فدا احمد کی تصویر ہمیں قربانی کی درس دیتی ہے۔
ڈاکٹر منان بلوچ سے مجھے یہ شکایت تھی کہ وہ اپنی زندگی کی پروا کیے بغیر ہر جگہ و علاقے میں لوگوں سے ملنے جاتی ہے۔ یہ بات میں نے انہیں بھی کہا کہ انکی زندگی کا نقصان قومی تحریک اور ہم جیسے کارکنوں کے لئے ناقابلِ تلافی نقصان ہو گی۔ ایک مرتبہ وسعت اللہ خان نے شہید صباء دشتیاری (معلمِ آزادی) کی شہادت کے موقع پر اپنے کالم میں لکھا تھا کہ عظیم لوگ دل سے فیصلے لیتے ہیں۔ ڈاکٹر منان بلوچ بھی پارٹی فیصلوں پر عملدرآمد کے لئے دل سے فیصلہ لیتے تھے۔ مگر ان کی شہادت سے جو خلا بلوچ سیاست میں پیدا ہوا اسے شاید ہی کبھی بھرا جا سکے۔
ڈاکٹر منان میں وہ تمام صلا حتیں موجود تھیں جو ایک انقلابی میں پا ئے جاتے ہیں۔ ان کی انقلابی تعلیم سے وہ تمام سیا سی کا رکن سیر آب ہو ئے ہیں جو انقلا بی سفر میں گامزن ہیں۔ آپ ہر وقت انقلا ب کی کامیا بی اور ہما ری ذمہ داریو ں پر بحث کر تے تھے کہ بلو چ قومی تحر یک آزادی جس مو ڈ میں داخل ہے اُس کیلئے کتنی قر بانی درکا ر ہو تی ہے اور اُس کے ساتھ آنے والے ریا ست جو قوم کی ہو گی۔ وہا ں قومی انصاف اور بر ابر ی ہو گی جو طا قت انقلا ب کو ہائی جیک کرنے کی سوچتے ہیں یا یہ کہنازیا دہ منا سب ہو گا کہ انقلاب کو نقصان دینے میں مہا ر ت رکھتے ہیں ان سے بچانے کی درس دیتے تھے اس لئے پاؤلو فریرے کی اس قول کو بار ہا دہراتے کہ آزادی نیم انسانی طریقوں سے حاصل نہیں کیا جاسکتا ہے۔ڈاکٹر منان بلوچ تنظیم کی مضبوطی کو ہی آزادی حاصل کرنے کے لئے اولین شرط سمجھتے تھے۔ڈاکٹر منان بلو چ میر ے جیسے کارکن کیلئے ایک یو نیو رسٹی کی مانند ہیں جہاں سے ہزاروں انسان سیاسی تعلیم سے آراستہ ہو ئے ہیں۔ میں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گاکہ ڈاکٹر منان کوبلوچ انقلابی درسگاہ کے لقب سے نوازنا بھی کم ہو گا۔ڈاکٹر منا ن بلوچ اپنی ذاتی زندگی کو قر بان کر چکے تھے یہ عمل مکمل ایک انقلا بی کی شان ہو تی ہے انقلا ب اور قر بانی لازم و ملزوم ہیں قر بانی سے بغیر انقلا ب ناممکن ہے اس بنیا د پر انقلاب قر بانی دینے اور قربان ہو نے کی درس دیتی ہے۔
ڈاکٹر منان نے ہرقسم کی تکالیف برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ مگر اس بات کو ہر وقت کہتے ”مجھے سب سے زیادہ تکلیف اس وقت ہوئی جب کچھ لوگ مجھے بی این ایم سے نکالنے کے لئے گروہ بندی کررہے تھے،در اصل یہ وہی لوگ تھے جو بی این ایم کو ہائی جیک کرنے کی کوشش میں تھے۔ لیکن شہید غلام محمد جیسے معاملہ فہم لیڈر نے ان لوگوں کی سازشوں کو ناکام بنایا اور ڈاکٹر منان بلوچ سنٹرل کمیٹی ممبر منتخب ہوئے۔جو لوگ ڈاکٹر منان کے مخالف تھے آج ان کا اپنا کوئی کردار نہیں۔ مگر ڈاکٹر منان بلوچ نے ہر وقت بلوچ عوام میں اپنی موجودگی کا احساس دلایا،ڈاکٹر منان بلو چ نے یہ ثابت کی کہ کسی تنظیم کی عظیم مقصد کیلئے خو د کو قر با ن کر نا گھاٹے کا سودا نہیں کیونکہ تنظیم ہی آزادی کے لئے راہ ہموار کر تی ہے۔بلو چ نیشنل مو ومنٹ کے بانی ممبروں میں ایک ڈاکٹر منان بلو چ بھی تھے بلو چستان میں بلو چ نیشنل مومنٹ کو فعال کر نے میں انہوں دن و رات ایک کی۔مر کز ی سیکڑیر ی جنرل ہو نے کے باوجو د تنظیم کو فعا ل کر نے میں عام کارکن کی طر ح ہر جگہ تنظیم کے لئے کام کر تے تھے۔بی این ایم کو ایک قومی پارٹی کی شکل میں لا نے میں ڈاکٹر منان بلوچ کا کر دار کا فی نمایا ں ہے،آپ عام زندگی میں دوسروں کی ایسے بہت سے کمزوری کو ضر ور برداشت کر تے تھے مگر آپ تنظیمی غلطیوں کو کبھی بر داشت نہیں کیا کر تے تھے جو ان سے دیکھا نہیں جا تا وہ ہر عمل کے با رے میں باریک بینی سے بحث کر تے تھے تاکہ سامنے سننے والے کو احساس ہو کہ تنظیم ہر اس عمل کی وکا لت کر تی ہے جس کا تعلق معاشرے سے ہو۔ جہاں ڈاکٹر منان بلوچ کا ذکر ہو اور چیئرمین زاہد بلوچ کا تذکرہ نہ ہو تویہ ناکافی بحث ہو گی۔ مجھے ان دونو ں رہنما وءں کو کا فی نز دیک سے ملنے کا موقع نصیب ہو ا ہے۔وہ خو د ہر وقت ایک دوسر ے کو اپنا استا د کہتے تھے، کوئی تنظیمی اجلاس ہوتا یا عام مباحثہ ہو تا تو یہ دونوں رہنماء ہمیشہ بلوچ قومی آزادی کی جدوجہد میں برسرپیکار پارٹیوں کو یکجا ہو کر جدوجہد کرنے پر زور دیتے۔ ان کے بقول ایک مضبو ط پا رٹی یا ایک مضبو ط اتحاد کا میا بی کی ضامن ہے،ڈاکٹر منان بلوچ وہ سرخیل رہنما تھے جو عوامی انقلاب کی خاطر بلو چستان کے تما م جگہوں میں گئے تھے۔ڈاکٹر منان انقلا ب و آزادی کی تنظیم کو وہاں تک پہنچایا جہا ں پر پا کستان کے پا لے ہو ئے پا رلیمنٹ پر ست اور سردار وں کی طا قت جھوٹ کے سائے میں لو گو ں کو بے وقوف بنائے ہوئے تھے۔ سرداروں نے بلو چ معصوم عوام پر اتنی ظلم بر سائی ہے کہ وہ زندگی سے بیزار تھے مگر وہا ں ڈاکٹر منان حو صلہ بن کر لو گوں میں صلا حیت پیدا کرتا تھا۔ بلو چستان کے تما م علا قوں میں آزادی کا پیغام لے کرپہنچ جا تا۔ ڈاکٹر کی شہا دت نے بلو چ تحریک پر گہر ا اور ناقابل تلافی خلا چھوڑا ہے۔ ہر بلو چ کہتا ہے کہ ہم ایک عظیم عالم سے محر وم ہو ئے ہیں ہر دل عزیر رہنما کی شہا دت اس وقت ہو ئی جس وقت کچھ لوگ بلو چ تحر یک درمیان بدگمانیاں پید اکر نے کو شش کر رہے تھے۔ چیئرمین زاہد بلوچ و ڈاکٹر منان بلوچ قومی یکجہتی و ان گروپوں کی منفی اثرات سے قومی تحریک کو بچانے کے لئے انتہائی سرگرم تھے۔تاکہ بلوچ عوام کے حوصلے مضبوط رہیں اور انہیں کسی مایوسی سے بچایا جا سکے۔ ڈاکٹر منان بلوچ مکر ان سے لیکر سروان تک تنظیم کو فعال کرنے میں کافی حد تک کامیاب ہوئے۔ ڈاکٹر منان بلو چ تحر یک آزاد ی کے کاروان کی ہمسفر وں سے ملنے کیلئے سراوان میں مو جو د تھے کہ پا کستانی فو جی کاروائی میں اپنے پا نچ کا مر یڈوں کے ساتھ شہید ہوئے۔ ایک دانشور کا قول ہے کہ” سورج ان لو گو ں کیلئے پہلے چمکتا ہے جو مستقل مزاجی دکھاتے ہیں اور ان کیلئے بعد میں جو سجدے میں گر ے ہو ئے ہوتے ہیں ”۔بلو چ فر زند وں نے یہ ثابت کیا کہ وہ سجدہ ریز نہیں تھے بلکہ آزادی کے لئے جدوجہد کررہے تھے۔بلوچ شہدا یہ ثابت کررہے ہیں کہ بلوچ تحریک کو طاقت کو زور پر ختم نہیں کیا جا سکتا۔