ڈاکٹر اللہ نذر کی بی ایل ایف بلوچستان میں خاطر خواہ کامیابیاں حاصل کر رہی ہے: بی بی سی

1669

بلوچستان میں وزیر اعلیٰ ثنااللہ زہری کے خلاف جب تحریک عدم اعتماد پیش کیے جانے کی بات ہوئی تھی تو اس وقت ایسی کچھ چہ مگوئیاں بھی ہوئیں جن سے یہ اشارے دینے کی کوشش کی گئی کہ یہ چال سینیٹ کے آئندہ انتخابات کو متاثر کرنے کے سلسلے میں کھیلی جا رہی ہے۔

اور اس چال کا مقصد مسلم لیگ نون کو بلوچستان کی حد تک زیادہ نشستیں جیتنے سے محروم کرنا ہے۔

اس وقت سینیٹ میں مسلم لیگ نون کی 26 نشستیں ہیں۔ جبکہ پیپلز پارٹی کے پاس 27 ہیں۔ اگر توقع کے مطابق مارچ میں سینیٹ کے انتخابات ہوتے ہیں تو امکان ہے کہ مسلم لیگ نون کی نشستیں 26 سے بڑھ کر زیادہ سے زیادہ 32 ہو جائیں گی۔

زیادہ تعداد میں اضافہ نہ ہونے کی وجہ بہت واضح ہے کہ پنجاب میں مسلم لیگ کی نشستوں میں صرف ایک یا دو کا اضافہ ممکن ہے۔ جبکہ خیبر پختونخواہ سے اس کی نشستیں تحریک انصاف کے پاس چلی جائیں گی۔ اور شاید سندھ سے مسلم لیگ کی کوئی نشست نہ ہو۔ وہاں کی نشستیں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم ہی جیتے گی۔

لیکن اگر بلوچستان میں سینیٹ کے انتخابات رک جاتے ہیں تو اس سے مسلم لیگ کو براہ راست کوئی نقصان تو نہیں ہو گا کیونکہ اس کے تین ارکان بلوچستان سے منتخب شدہ ہیں اور ان تینوں کی معیاد 2021 میں مکمل ہو گی۔

البتہ موجودہ اسمبلی سے نئے 11 ارکان کے انتخابات میں سے مسلم لیگ نون کو ایک بڑا حصہ ملنے کے امکان ہیں۔ اس وقت مسلم لیگ نون کے پاس 21 ارکان ہیں جن کی بدولت مسلم لیگ کوشش کر کے زیادہ سے زیادہ 4 ورنہ 3 نئے سینیٹرز منتخب کروا سکتی ہے۔

لیکن موجودہ بحران کے بعد شاید یہ سارے کے سارے 21 ارکان اب مسلم لیگ کے نظم و ضبط میں نہ رہیں اور غالب امکان ہے کہ ان میں سے زیادہ تر اپنی مرضی سے اپنی پسند کے امیدواروں کو اپنا ووٹ دیں۔ اس مرتبہ بلوچستان کے تقریباً ساڑھے پانچ ارکان ایک سینیٹر منتخب کریں گے جو ایک ایک رُکن کی انفرادی حیثیت کو بہت اہم بنا دیتا ہے۔

اس کے علاوہ مسلم لیگ نون کی مخلوط حکومت میں شامل دوسری بڑی جماعتیں، پختونخواہ ملی عوامی پارٹی 14 نشستوں کے ساتھ، نیشنل پارٹی 11 اور جمیعت علمائے اسلام ف اپنی 8 نشستوں کی وجہ سے سینیٹ کے انتخابات میں اپنا اپنا حصہ مسلم لیگ نون کے حوالے نہیں کریں گے۔ اپنی نشستوں کے لحاظ سے پختونخواہ 2 یا 3، جبکہ نیشنل پارٹی 2 اور جمیعت کم از کم ایک نشست تو ضرور حاصل کرسکتی ہے۔ مسلم لیگ ق کے بھی ایک نشست حاصل کرنے کے امکانات ہیں۔

ثنا اللہ زہری کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی بدولت استعفیٰ لیے جانے کے بعد اگر صوبائی اسمبلی تحلیل نہیں ہوتی تو سینیٹ کے انتخابات میں مسلم لیگ نون کو زیادہ نقصان نہیں ہو گا۔ اور اگر اسمبلی تحلیل ہو جاتی ہے تو پھر نئی اسمبلی میں پارٹی پوزیشن طے کرے گی کہ کس جماعت کے کتنے سینیٹرز منتخب ہو سکیں گے۔

اس پس منظر میں بلوچستان کے وزیر اعلیٰ کا ہٹایا جانا پھر کیا معنی رکھتا ہے؟ کیا یہ مسلم لیگ نون کو کمزور کرنے کا طریقہ ہے، یا بلوچستان کے اپنے مقامی گروہی حرکیات (DYNAMICS) ہیں جن کی وجہ سے بلوچستان میں حکومت تبدیل ہوئی ہے۔

تاہم ایک بات جس پر کئی تجزیہ نگار متفق نظر آ رہے ہیں وہ یہ کہ اس تبدیلی کی تحریک کے پس پشت مقتدر اداروں کا کوئی نہ کوئی کردار ضرور ہے۔ تاہم سینیٹ میں ممکنہ کامیابی مسلم لیگ نون کے اقتدار میں رہنے کو یقینی نہیں بناتی البتہ اسے ایک نفسیاتی فائدہ ضرور مل سکتا ہے۔

اب ذرا ایک دوسرے زاویے سے حالات کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ اطلاعات کے مطابق، اس وقت بلوچستان میں مقامی سطح پر علحیدگی پسند رہنما ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کی بلوچستان لبریشن فرنٹ ان کے اپنے علاقے آواران کے علاوہ خضدار میں خاطر خواہ کامیابیاں حاصل کر رہی ہے اور ان کے بیانات میں سی پیک کے خلاف تنقید میں شدت بڑھتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔

خضدار سابق وزیراعلیٰ ثنا اللہ زہری کا علاقہ ہے۔ یعنی وہ اپنے علاقے میں بھی اپنا کنٹرول کھو رہے ہیں۔

دوسری طرف بلوچستان کی علحیدگی کی تحریک کو بین الاقوامی سطح پر ایک نئی تقویت مل رہی ہے۔ جینیوا، لندن کے بعد اب نیویارک جیسے بڑے بڑے شہروں میں ’فری بلوچستان‘ کے پوسٹرز اور اشتہاری مہم نظر آئی ہے۔ اس مہم کے چلانے والوں میں کئی فعال بلوچوں کے علاوہ جاوید مینگل کا نام بھی سامنے آیا ہے جو کہ بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ سردار اختر مینگل کے بھائی ہیں۔

اسی پس منظر میں نواب خیر بخش مری کے ایک صاحبزادے، نوابزادہ گزین مری بھی پاکستان لوٹ آئے ہیں۔ گزین مری بیرون ممالک میں بھی علحیدگی کی تحریک میں فعال کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ چین بھی بلوچستان کے سیاسی حل کے لیے پاکستان پر زور ڈال رہا ہے اور بلوچستان اپنی روایتی بدعنوانی والی حکمرانی کے انداز میں کسی بھی قسم کی بہتری لانے میں ناکام رہا ہے۔

ان تمام حالات کو سامنے رکھ کر اگر بلوچستان کے موجودہ سیاسی بحران کو دیکھا جائے تو شاید یہ ایک بڑے مسئلے کو حل کرنے کی طرف ایک قدم کہا جا سکتا ہے۔ یعنی قوم پرست بلوچ رہنماؤں کو حکومت میں شامل کیا جائے تاکہ وہ علحیدگی پسند رہنماؤں کے ساتھ بات چیت کے لیے ایک قابل بھروسہ عمل کا آغاز کر سکیں جو کہ زہری حکومت میں ممکن نہیں تھا۔

بلوچستان ایک ایسا حساس صوبہ ہے جہاں انتظامی معاملات سے لے کر سیاسی، اقتصادی اور تجارتی اقدامات میں مقتدر اداروں کو عملاً ایک ویٹو پاور حاصل ہے اور خطے کی جغرافیائی اور علاقائی اہمیت کی وجہ سے پاکستان کی تقریباً تمام بڑی سیاسی جماعتوں نے اس ویٹو پاور کو تسلیم کیا ہوا ہے۔ لہٰذا اگر مقتدر قوتیں بلوچستان میں بڑی تبدیلی لانے کی کوشش کریں گی تو پاکستان کے کسی کونے سے کوئی آواز نہیں اٹھے گی۔