تاریخی تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے بلوچ قومی جدوجہد آزادی اپنی منزل مقصود کی جانب رواں دواں ہے۔ مشکلات و م صائب ان گنت اور ریاست کے نفسیاتی حربے اعصاب شل کردینے کی حد تک گرے ہوئے ہیں لیکن اس کے باوجود بلوچ قوم مقابلہ کررہی ہے۔ ایک نسل آنے والے نسلوں کے لیے قربانی دیتی ہے تب آنے والے نسلوں کے لیے وہ روشنی بن جاتی ہے اور ان کے مستقبل کی روشن ضمانت بن جاتی ہے۔ ایک اجتماعی فکر کیساتھ منسلک رہ کر ہی کامیابی حاصل کی جاتی ہے، نیشنلزم کی جدوجہد ہمیشہ نظم و نسق کا متقاضی ہوتا ہے یعنی ایک منتشر قوم کو ایک منظم قوم میں تشکیل دینے کے لیے ایک منظم لائحہ عمل۔ منظم لائحہ عمل کے لیے لیڈرشپ کو فیصلہ کن کردار ادا کرنا پڑتا ہے جب وہ طاقت کو پالیسی ساز اداروں کے حوالے کردیتے ہیں تب تحریک ہر مشکل حالات میں اپنا راستہ تلاش کرلیتی ہے اور یوں قابض کی نفسیاتی پالیسیوں کے زیر اثر آنے سے بچ جاتی ہے۔
بلوچ قومی تحریک کا المیہ کمزور اداریں اور شخصی اثر و رسوخ کا رجحان ہے۔ ہر سطح پر اختیارات کی تقسیم کی کوئی وضاحت نہیں، گو کہ ابتدائی مراحل میں یہ رضاکارانہ طریقہ کار چل پڑا لیکن بدلتے تقاضوں کے ساتھ دم توڑ گیا اور یوں آج تکرار فرد اور اداروں کے درمیان شدت اختیار کرچکا ہے۔ اب اگر پالیسی ساز اداروں کے حوالے تمام اختیارات کردیے جاتے ہیں اور ڈسپلن کی وضاحت ادارتی بنیادوں پر کی جاتی ہے تو پھر یہ ایک بہتر طریقہ ہوگا وگرنہ فرد کی سطح تک اختیارات میں ڈسپلن کی حقیقت ایک دھوکہ ہے کیونکہ اس سطح پر ڈسپلن ذاتی پسند و ناپسند کے علاوہ کچھ نہیں۔
آج ہم بلوچ قومی تحریک کا ایک جائزہ لیں تو ہم پر قابض نفسیاتی طور پر غالب ہوتا جارہا ہے جس کے مدمقابل ہمارے پاس پالیسی ساز اداروں کا فقدان ہے اور اسی لیے الزامات کا ایک سلسلہ چل نکلا ہے۔ آیا بدلتے حالات کے تحت کیا ہم موجودہ روش و طریقہ کار کیساتھ آگے بڑھ سکتے ہیں؟ جس کا جواب شاید نفی میں ہے کیونکہ اب ہمارے لیے ادارے ناگذیر ہوچکے ہیں۔
ادارے جب تک برائے نام ہونگے اب ایسے رجحانات سے چھٹکارا پانے کی ضرورت ہے جو ہمیں پالیسی ساز اداروں کی جانب قدم بڑھانے سے روک رہے ہیں اور اس کے لیے ذاتی انا کو بالائے طاق رکھ کر قومی مستقبل کو سامنے رکھنا ہوگا۔
از سر نو صف بندی کے حوالے سے از سر نو پالیسی ساز اداروں کی ضرورت ہے جن کی رہنمائی بلوچ دانشور کرے اور اس حوالے سے لیڈر، دانشور اور سیاسی کارکن کو سر جوڑ کر بیٹھنے کی ضرورت ہے کیونکہ کامیابی مسائل ڈھونڈنے میں یا الزامات لگانے میں نہیں بلکہ مسائل کا حل تلاش کرنے میں ہے۔
اگر مسائل کے حوالے سے ضد بازی یا “نہیں مانوں گا” والہ رویہ اپنایا گیا تو یہ کسی صورت حل نہیں ہونگے بلکہ لچک کا مظاہرہ لازم ہے۔ اپنے محدود سرکلز سے نکلنے کی ضرورت ہے اور ایک دوسرے کو سننے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔
اگر ہم مثالی ارتباط قائم کر لیتے ہیں تب پالیسی ساز اداروں کا قیام کسی صورت مشکل نہیں اور یوں پالیسی ساز ادارے نہ صرف مسائل کو حل کرنے بلکہ تحریک کو از سر نو منظم کرنے سمیت اتحاد کا راہ ہموار کرسکتے ہیں۔
یوں ہم اس سطح تک پہنچ سکیں گے جہاں ہماری مجتمع شدہ قوت ایک فیصلہ کن کردار کے صورت میں ظاہر ہوگی اور ہمارے موقف میں وزن بھی ہوگا۔
کم از کم اب ہمیں اپنے قوم کی خستہ حالت اور مد مقابل قابض کی وحشت ناک نفسیاتی حرکتوں کا ادراک ہونا چاہیے وگرنہ وہی ہم ہونگے اور وہی تاریخ کا کٹھرا اور ہماری پہچان ایک تاریخی مجرم کی حیثیت سے ہوگی کہ جس نے اپنی ذات کی خاطر اپنی تاریخی کردار سے اپنے قوم سے اپنے سرزمین سے اور سب سے بڑھ کر اپنے شہدا سے منہ موڑ کر راہ فرار اختیار کیا اور قومی مستقبل کو قبضہ گیریت کے حوالے کردیا۔