میں نہیں مانتا – قاضی داد محمد ریحان

430

عنوان سے اس غلط فہمی میں نہ رہئیں کہ میں محترم حبیب جالب کی مشہور نظم کی مدد سے کسی غاصب، قابض یا منجمد سیاسی منظرنامے کی پس پردہ جامدسوچ پر قلم گھسائی کا ارادہ رکھتا ہوں ۔آخرالذکرعناصر ریاستیں اور حکومتیں نہ رکھنے کے باوجود بھی ہزاروں زندگیوں کی سدھار اور بگاڑ میں براہ راست ملوث ہیں ۔ اپوزیشن ہوتے ہوئے بھی حکومت سے تگڑی ہیں ۔ ان کے نظریات کا گھیراؤ ریاست کے بیانیہ سے زیادہ اورگہرا ہے ہم جیسے لوگ کلیات سے متفق نہ ہونے کے باوجود بھی بنیاد ی نکتے پر اتفاق رکھتے ہیں ۔ حکومت اور ریاستی بند و بست سے ناامیدی نہیں بلکہ یقین واثق ہے کہ بندوبست بنام’ اسلامیجمہوریہ پاکستان ‘اس بندوبست میں رہنے والے چند خاندانوں کو چھوڑ کر باقی کروڑوں لوگوں کے لیے ایک قیدخانہ ہے ۔ عام آدمی کی تمام آزادیاں سلب کردی گئی ہیں ۔ تہہ دار پیازی سیاست میں فوج کو مرکزیت حاصل ہے مگر اس کارپوریٹ بندوبست پر مختلف کل پرزوں ، مفادی اور منافع خوروں کا حصہ ہے ۔ مگر نہ سمجھ میں آنے والی بات یہ ہے کہ اس بندوبست پر کڑی تنقید کرنے والوں کی سیاست جس کو متوقع طور پر اس کے بالعکس شفاف ہونا چاہئے تھا بھی پیازی سیاست کاعکس ہے، فرق نظریات کا ہے طریقہ کار میں بڑی حدتک ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ بقول ہمارے ایک سینئر دوست:’’ کرپشن توکرپشن ہے چاہئے کوئی پہاڑ پر چڑھ کر کرئے یا پارلیمنٹ میں بیٹھ کر کرئے ۔‘‘ تو اس وسیع تر نظریاتی مملکت میں بھی اپوزیشن کی ضرورت ہے جو غیرروایتی بھی ہوسکتی ہے ۔ روایتی اپوزیشن انقلابی جماعتوں کے اداروں تک شاذ و نادر پہنچ جاتی ہیں جس کا انجام اداروں میں رسہ کشی اور پارٹی میں تقسیم کی صورت نکلتا رہا ہے۔ بہتر ہے کہ وہ پارٹی میں رہتے ہوئے پارٹی اداروں کو درست سمت میں رکھنے کے لیے کردار ادا کریں جب تک انہیں اداروں میں کام کرنے کے لیے مطلوبہ مینڈیٹ حاصل نہ ہو۔ ایک ایسے اپوزیشن گروپ کی پارٹیوں میں حوصلہ افزائی ہونے چاہئے جو عہدیداروں کے طریقہ کار سے اختلاف ر کھتے ہیں تاکہ تقسیم در تقسیم سے بچا جاسکے____ہے ناں یہ باتیں تہہ دار پیازی سیاست کی ، اس لیے بہت سے قارئین کو انہیں سمجھنے میں دقت ہورہی ہوگی لیکن جو اس صورتحال کو بھگت رہے ہیں وہ میری بات کو بخوبی سمجھ بھی رہے ہوں گے۔

اور اردو میں مَیں ان موضوعات پر لکھنے کی کوشش کرتا ہوں جن کا داہرہ بندوبست پاکستان میں دوسری قومیتوں تک پھیلا ہوا ہے فی الحال یکساں اندوہ ہم میں قدر مشترک ہے ۔ سیاسی بلوغت ایک خواہش ہے جو شاید کبھی سندھی ، پختون ، بلوچ ،مہاجر، کشمیری ، سرائیکی اور گلگت بلتستان کی عوام کو نصیب ہو اور وہ تخت لہور کی پیازی سیاست کا درک کرسکیں اور اپنی پیازی سیاست سے بھی جان چھڑالیں ۔امنگوں اور جذبوں کو بازارسیاست میں کرپٹوکرنسی کی طرح استعمال کرنے کی بجائے امکانات کی سیاست کرنے والے شفاف انقلابی جو اونس بھر عمل کا بھی حوصلہ رکھتے ہوں گے ہی اس بندوبست میں حقیقی آزادی کا نفاذ کریں گے ۔ تب تک پیازی سیاست کی بدبوکتابی گھامڑوں کے اسٹڈی سرکلز سے لے کر سربکف سرمچاروں کے محافل تک ، عدلیہ سے لے کر پارلیمنٹ تک ، اخباروں سے لے کر چائے خانوں تک ، سیاسی بیٹھکوں سے لے کر سیاستداوں کی محلات تک باس مارتی رہے گی ۔

مگر میں اپنی خودساختہ پیازی سیاست کی اصطلاح کو پھلانگ کر اس پر مغز کھپائی اور اس کی شرح بیان کرنے کی بجائے بہت ہی معمولی واقعے پر انکار کی ڈنڈی مارنا چاہتا ہوں ۔ میں نے مہینہ ہوا چاہتا ہے کہ اپنا فیس بک اکاؤنٹ غیرفعال کر رکھا ہے اس میں میرے دوستوں کی طرف سے واضح میڈیا گائڈلائن کا نہ ہونا اور ایک سیاسی سردار کے مریدوں کا مجھے کھینچ کر اپنی مخالف سمت بٹھانے کی کوشش شامل تھے وگرنہ میں بھی اس پیالے میں آنے والے انقلاب کی سونامی کی لہریں دیکھتا  ۔ فیس بک خراب نہیں عوامی میڈیا ہے جہاں ہماری پیازی سیاست کی گندگیاں ہماری اونچی معطر ناکوں کو بھی سکیڑرہی ہیں اس لیے کچھ اعلی و ارفع سیاستدان اپنے ہی سرانڈ سے بھاگ کر ٹیوٹر میں چہک رہے ہیں ، ایسی بولی میں جس کی خاک نشینوں کو سمجھ ہی نہیں۔ یہاں اُجلے انقلابیوں نے بھی گھونسلے بنا رکھے ہیں اور چونچیا رہے ہیں ۔ ان ہی کی چہک چہک سے پتا چلا کہ کراچی میں حسن گوٹھ کے علاقے سے ایک بوڑھے شخص کی لاش ملی ہے ۔ جو تصویر سے نوے سال کے معلوم ہوتے ہیں لیکن لکھنے والے انہیں سترسال اور کچھ محتاط ہوکر سترپلس کا بتا رہے ہیں ۔ اس بوڑھے شخص کے بارے میں مجھے تب بھی انہی ذرائع سے آگاہی ہوئی جب انہیں کراچی سے پاکستان رینجرز کے جوانوں نے گریبان سے گھسیٹ کر جیل میں ڈالا ۔ میں تب بھی مشکوک نظروں سے اس گنجے بوڑھے کی تصویر کو ٹکٹکی باندھے دیکھتا رہتا تھا۔ سوچتا تھا کہ یہ ہندوستانی فلموں کے ولن جیسے نظر آنے والے شخص ہوسکتا ہے ہمارے سیاسی اداکار بھائی کے تُرپ کا پتا ہوں جنہیں وہ سب کی نظروں سے چھپا کر رکھے ہوئے تھے ۔ میری سوچ کی لہریں جب اس نکتے سے ٹھکراتیں تو میرے ذہن میں میرے اسکول کے تین دوستوں کی پھولی ہوئی لاشوں کی تصویریں ابھرتیں جنہیں صدر کراچی میں مبینہ طور پرالطاف صاحب کے کہنے پر مہاجر وں نے بلوچ شناخت کی بنیاد پر قتل کیا۔ جب لاشیں گوادر پہنچیں تو پورا شہر سوگ میں ڈوب گیا ، یہ سوچ کر میرے ان کے بارے میں ہمدردی کے جذبات ماند پڑ جاتے۔اس لیے میں ان کے حق میں بولنے والوں کو بھی نظر انداز کرتا رہا ۔

جب پروفیسرڈاکٹرحسن عارف کی لاش ملی تب بھی میں ان کے چہرے میں پنہاں پراسراریت سے اُلجھا رہا ۔ اس دن سے لے کر آج تک میں اپنے اس گھتی کو سلجھا نے کی کوشش کررہا ہوں کہ اتنے بڑے نام رکھنے والے شخصیت کو آخر کیا پریشانی تھی کہ اس عمر میں جب لوگ گھر سے یا ہسپتال کے لیے نکلتے ہیں یا پھر محلے میں بوڑھوں کے لیے مخصوص تڑے پر جاکر اجتماعی اونگ سے لطف اندوز ہوتے ہیں ۔ ذرا گھاک قسم کے ہوں تو گھر میں ہی چوپال سجا کرملاقاتیوں میں دانش بکھیرتے ہیں اور عمر آخر میں مریدوں کی تعداد سے جی بہلاتے ہیں کہ :خالی ہاتھ جارہے ہیں مگرعزت کمائی ہے ۔مگر ان کا سنا تو یہ لمبے ڈرائیو کا شوقین ایسے تھے کہ جب گھر سے گاڑی لے کر نکلے تو جب تک جسم میں جان تھی چلاتے رہے اور جب دم نکلا تو پچھلی سیٹ پر بیٹھ کر پراسرارموت مرگئے ۔

اس معمولی خبر پر بھی حسب معمول ٹیوٹر کے انقلابی گھونسلوں سے بھانت بھانت کے انقلابیوں نے مرثیہ خوانی کی زنجیربنائی ، سینہ کوبی ، اشک ریزی اور تال سے تال ملانے والے کام پر لگ گئے ۔ میں نے بھی حصہ داری کی لیکن سوچ کی چڑیا اس چہکار کی دنیا میں مطمن نہ ہوئی ۔ ادھر اُدھر کھوجنے لگا تاکہ اس پراسرار بوڑھے کے بارے میں مزید معلوم ہو کہ آخر یہ کس مرض کے ڈاکٹر تھے ۔ کہنے والے کہہ رہے ہیں کہ وہ کوئی معمولی سیاستدان نہیں بلکہ پاکستان کے سب سے بڑے دانشگاہ کراچی یونیورسٹی کے پروفیسر تھے ۔ فلاسفی پڑھاتے ہی نہیں بلکہ مارکس وادی فلسفے کو طلباء میں پھیلاتے بھی تھے ۔ فلسفے کے طلبا ء کو پڑھانے سے جی نہیں بھرتا تو یونیورسٹی میں جس کونے کدرے میں چارطلباء اکھٹے ہوتے وہاں یہ صاحب پہنچ کر سقراطی گفتگو فرماتے ۔

ان کو اس بات کا بھی یقین تھا کہ ’عمل ہی فصیح ترین علم ہے‘ اس بات کو ہمارے گاؤں کے اسکول کے منتظمین کی طرح خوش خطی سے دیوار پر لکھوانے کی بجائے ، ڈاکٹرصاحب اپنے کردار سے ثابت کرنے کی کوشش کرتے تھے ۔ ان کے سیاسی سفر پر سرسری نظر دوڑائیں تو وہ جس نظریاتی حالت میں مرے ہمیشہ اسی نظریات حالت میں زندہ رہے ۔ چوں کہ وہ ایک سیاستدان کی بجائے استاد تھے اس لیے مختلف جماعتوں کے ان  سیاستدانوں کے ساتھ کھڑے رہے جنہوں نے ان کے نظریات کے مطابق درست ہدف کا تعین کیا ۔ ایک ایسے وقت میں جب الطاف حسین صاحب کواس کے گود میں پل کر بڑے ہونے والے لونڈے لپاڑے للکار رہے تھے ڈاکٹرصاحب سینہ تھان کر سامنے آئے اور ببانگ دہل کہا کہ: ‘ میں الطاف حسین کے ساتھ ہوں ۔’
ٓ مگر میں سوچ سوچ کراس نکتے پر پہنچ چکا ہوں کہ یہ سب بکواس ہے اگروہ کچھ تھے بھی تو بس ایک پراسرار گنجے بوڑھے تھے ۔اگر وہ اپنے نام جتنے بڑے شخصیت بھی ہوتے تو کیا پاکستان کے سب سے بڑے شہر کے رہنے والے بوڑھے کی موت پر یوں خاموشی ہوتی؟ جو بقول قلم چیوں اورٹیوٹریوں ایک بڑے استاد بھی تھے ، پاکستان میں جب جب بھی کسی لیڈر نے بندوبست کے سب سے بڑے عوام دشمن ادارے کو للکارا تو وہ اس کے سب سے بڑے حمایتی بنے ۔ بندوبست پاکستان پر اقتدار کے مزے لوٹنے والی جماعتوں سے بھی ان کا تعلق رہا اور وہ بھی مشکل کی گھڑی میں ۔ مان لیتے ہیں سیاستدان تو ہوتے ہی طوطاچشم ہیں مگران کے قابل شاگردان گرامی بھی تو ان کی نماز جنازہ میں نظر نہ آئے اور اتنے بڑے شخصیت کی نماز جنازہ ایک چھوٹے سے تاریک کمرے میں اداکردی گئی ۔ کراچی کی بے تاج بادشاہ رہنے والی جماعت کے کارکنان بھی گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب رہے۔

اسی طرح پیرانسالی میں پاکستانی فوج نے اکبرخان بگٹی کو بھی قتل کرنے کے بعد ان کے مبینہ لاش کی تابوت پر تالے لگا کردفن کیا لیکن بلوچستان سے آواز آئی کہ :’’فوج نے اکبرخان بگٹی کو نہیں پاکستان کو دفن کیا ہے ۔‘‘ جب دلیل کی زبان کاٹ دی گئی تو بلوچ نوجوانوں نے گولیوں کی زبان سے جواب دیا ۔ درست ہے کہ انہیں ڈیرہ بگٹی میں نماز جنازہ پڑھنے سے روک دیا گیا لیکن بلوچوں نے پوری دنیا میں غائبانہ نماز جنازہ پڑھ کر اپنے بوڑھے باغی سردار کوخراج عقیدت پیش کیا۔

بلوچ تاریخ کے قدآورشخصیات میں سے ایک’ صبادشتیاری ‘بھی پروفیسر تھے ، جوبلوچستان یونیورسٹی میں کلاسز میں اسلامیات مگر طلباء کے مجالس میں فلسفہ اورسیاست پر گفتگو فرماتے تھے ۔ بلوچی زبان و ادب کے لیے تو ساری زندگی وقف رہے لیکن اکبرخان بگٹی کی شہادت کے بعد قابض ریاست کا اعلانیہ باغی ہوکرڈنکے کی چوٹ پر کہنے لگے کہ اپنے بزرگوں کے قاتلوں کے ساتھ نبھا کر نہیں رکھیں گے بلکہ معاملہ نمٹا نا اب ضرور ی ہے ۔ان کی شہادت کے بعدان کی نماز جنازہ میں ہزاروں بلوچوں نے شرکت کی اور جو شرکت نہ کرسکے انہوں نے غائبانہ نماز جنازہ پڑھ کر ان کو خراج تحسین پیش کیا ۔

لیکن پروفیسرڈاکٹرحسن ظفرعارف صاحب کی موت پر ردعمل سائبر دنیا تک ہی محدود رہا ۔ اس لیے میں نہیں مانتا کہ وہ اتنے بڑے تھے جتنا بڑا نہیں لکھنے والے لکھ رہے ہیں یا پھر کراچی وال اور مہاجر ہی اتنے چھوٹے ہوگئے ہیں کہ ان کو پیازی سیاست کی ایک کمزور تہہ نے دبا دیا _ ___میں اس سکوت کے سوگ میں ڈوبا ہوں ۔