عظیم مقاصد عظیم کرداروں کا مطالبہ کرتے ہیں جو ظاہری نمود و نمائش سے عملآ دور ہوتے ہوئے سنجیدہ فیصلے کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔ دنیا میں جتنے بھی کامیاب تحاریک ہیں ان کے پیچھے کارفرما لیڈرشپ نے کبھی اپنے ذات کو ترجیح نہیں دی بلکہ وہ اپنے ذات سے بالاتر ہوئے اور یہی اجتماع فکر انہیں منزل مقصود تک پہنچانے میں مددگار ثابت ہوئی۔ ان کے علم و عمل میں ربط تھا، ایسا ہرگز نہ تھا کہ ان کے بیانیے و عمل میں تکرار تھا بلکہ وہ اپنے علم کو اپنا عمل بہتر کے لیے استعمال کرتے تھے۔ رول ماڈل انسان تبھی بنتا ہے جب وہ اپنے علم و عمل میں یکساں ہو یعنی وہ خود علم سے رہنمائی حاصل کرکے اپنے قوم کی نمائندگی اپنے عمل سے کرے تب نجات ملتی ہے۔ جب انسان علم سے رہنمائی حاصل کرتا ہے تب وہ بھٹکتا نہیں اور نہ ہی بھٹکنے دیتا ہے کیونکہ اسے اندازہ ہوجاتا ہے کہ کس طرح محدود قوت کو مجتمع کرکے اسے موثر کردار کے طور پر ابھارنا ہے۔ وہ الجھنے یا الجھائے رکھنے والے رجحانات سے پرہیز کرتا ہے اور کوشش یہی کرتا ہے کہ جتنی زیادہ الجھنیں کم ہونگی اتنا ہی تحریک توانا رہیگا کیونکہ تحریک بذات خود ایک انسانی المیے کے حل کی جانب ایک سفر ہے جس کا مقصد نوآبادیاتی نظام کی بساط کو لپیٹ کر دیسی باشندے کو ایک آزاد زندگی فراہم کرنا ہے اور اگر یہی تحریک بذات خود الجھنوں کا شکار بن جائے تو ایسے میں نوآبادیاتی فریم ورک اور تحریک کے میکانزم میں کیا فرق باقی رہ جاتا ہے؟
تحریک کو نوآبادکار کے پالیسیوں سے بچانے کے لیے مقامی باشندوں کی تحریک کو نفسیاتی دائو پیچ کھیلنے ہونگے جس سے وہ اپنے عوام کے درمیان نہ صرف حمایت کو برقرار رکھ سکتا ہے بلکہ انہیں مایوس ہونے سے بھی بچائے رکھ سکتا ہے۔ یاد رہے کہ تحریک کی جڑیں عوام میں پیوست ہوتی ہیں اور نوآبادکار کے لیے یہ بات واضح ہوتی ہے اس لیے وہ عوام سے تحریک کی جڑیں کاٹنے کے لیے جبر کا استعمال کرتا ہے اور ساتھ ساتھ عوام کو جہد سے مایوس کرنے کے لیے dirty politics کا استعمال کرتا ہے یعنی جہدکاروں کو ایک دوسرے کے خلاف لاکھڑا کرتا ہے، یہ ہرگز تیز و تند عمل نہیں ہوتا لیکن slow poisonکی طرح تحریک کو چاٹتا رہتا ہے لیکن اگر لیڈرشپ کو ریاست کی چالبازیوں کا ادراک ہو تو وہ کسی صورت بھی ایسی صورتحال میں آپسی رنجشوں کو بڑھنے نہیں دیتا کیونکہ جب رنجشیں حد سے بڑھ جاتی ہے تب وہ ذاتیات کی سطح پر پہنچ جاتی ہیں اور تحریک کا میکانزم بری طرح سے رک جاتا ہے اور یہاں قابض کے لیے پلس پوائنٹ بن جاتا ہے اور وہ مزید جبر سے مایوس کن صورتحال کی جانب تحریک کو دھکیل دیتا ہے۔ نوآبادکار تحریک کو ختم نہیں کرنا چاہتا بلکہ وہ اسے مفلوج کرنا چاہتا ہے کیونکہ وہ اس کشمکش سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتا ہے لیکن لیڈر شپ جب اپنی ذمہ داریوں کا تعین کر لے تب نوآبادکار کو لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں۔ اس بات کا ادراک ہونا لازمی ہوتا ہے کہ تحریک اجتماعی مقصد کے حوالے سے برسرپیکار ہے اس لیے کہیں بھی کسی بھی سطح پر اسے ذاتی رنجش یا انا کا لقمہ نہیں بننے دیا جائے اور نہایت سنجیدگی سے عملآ تحریک کو منظم کیا جائے تبھی تحریک ڈائون فال کا شکار نہیں ہوگی لیکن یہ تبھی ممکن ہے جب ادارے ہونگے کیونکہ ادارے ذات سے بالاتر ہوتے ہیں۔ جب ادارے ہونگے تب فیصلے ذاتی پسند یا چاہ کی بجائے اصولوں کی بنیاد پر ہونگے اور ایک اچھا رجحان پروان چڑھے گا۔
بلوچ تحریک کا میکانزم متاثر ہوچکا ہے اور بحرانی صورتحال ہے لیکن اس حوالے سے لیڈرشپ کوئی سنجیدہ اقدام اٹھانے سے قاصر ہے، الزامات و تضحیک کے ذریعے ایک دوسرے پر حاوی ہونے کی کوشش کی جارہی ہے اور میڈیا ٹرائل کا راستہ اختیار کیا جارہا ہے حالانکہ درپیش مسائل اتنے پیچیدہ نہیں لیکن پیچیدہ رویے اپنا کر مسائل کو بند گلی میں دھکیلا جارہا ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ رویے آج بلوچ لیڈرشپ کو کس مقام تک لے آئے ہیں؟ اس سوال کا جواب انہیں خود تلاش کرنا ہوگا کیونکہ جس عظیم مقصد کے لیے انہیں قوم نے رہنما کے طور پر تسلیم کیا اب وہ اس عظیم مقصد سے زیادہ ترجیح اپنے ذات اور اپنے محدود سرکلز کو دے رہے ہیں اور نقصان بلوچ قومی تحریک کا ہورہا ہے۔
آخر یہ کونسی نفسیات ہے جو آج اتنے مراحل سے گذرنے کے باوجود کوئی سنجیدہ فیصلے لینے کی بجائے اشتراک عمل کو روکنے کے لیے سرگرداں ہے۔ 18 نومبر کو ملاقات کے حوالے سے بلوچ قوم میں تمام خدشات کے باوجود ایک امید کی کرن جاگ اٹھی کہ اب شاید لیڈر شپ کو احساس ہو چلا ہے کہ اتحاد کے بغیر آگے بڑھنا ممکن نہیں لیکن اب تو کچھ اور ہی صورتحال سامنے آرہی ہے جو کسی صورت بھی تحریک کے لیے نیک شگون نہیں کیونکہ الزامات کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوچکا ہے جو زیادہ ہی خطرناک انداز میں اشتراک عمل کو ختم کرنے کی طرف لے جارہا ہے۔
اگر واقعی ملاقاتیں اتحاد کے لیے تھیں تو پھر رویوں میں رد اتحاد کا رجحان کیونکر پروان چڑھ رہا ہے؟ ہونا تو یہ چاہیے کہ مزید سنجیدگی اور بالیدگی سے مسائل کو مشترکہ طور پر حل کیا جائے نا کہ اس طرح بلوچ تحریک کی میڈیا پر جگ ہنسائی کرتے ہوئے بلوچ قوم کا نفسیاتی مورال مزید گرایا جائے۔۔
کم از کم اب تو ہم سب کو احساس ہوجانا چاہیے کہ الزامات کے سلسلوں نے تحریک کو مفلوج کردیا اور اب ریاستی جبر جب اپنی انتہا پر ہے تو کیا تحریک ایسی دلخراش حرکات کو برداشت کرنے کی سکت رکھتا ہے۔ تحریک تو عظیم کردار کا مطالبہ کرتا ہے اس لیے اپنے کردار کو عظیم تر بنا کر ہی تحریک کو بحرانی صورتحال سے نکالا جاسکتا ہے اور اتحاد کی راہ ہموار کی جاسکتی ہے۔