انقرہ نے شام کے ساتھ سرحد کے دونوں جانب اپنی دھمکی پر عمل درآمد شروع کر دیا ہے۔ منگل کے روز ترکی کے توپ خانوں نے پہلی مرتبہ شام کے علاقے عفرین میں کرد جنگجوؤں کے ٹھکانوں کو گولہ باری کا نشانہ بنایا۔
اس گولہ باری کے ساتھ ترکی نے اپنے فوجیوں کو شام کے ساتھ سرحد پر جمع کر دیا ہے جس سے واشنگٹن کے حمایت یافتہ کرد جنگجوؤں کے خلاف وسیع پیمانے پر آپریشن کا عندیہ مل رہا ہے۔
ترکی کے صدر رجب طیب ایردوآن سابقہ بیانات میں یہ اعلان کر چکے ہیں کہ آپریشن کے حوالے سے الٹی گنتی کسی بھی لمحے شروع ہو سکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ “ترکی کی مسلح افواج عنقریب عفرین اور منبج کا مسئلہ ختم کر دیں گی۔ ہماری عسکری تیاریاں مکمل ہیں اور ہم جلد از جلد اپنی نقل و حرکت کا آغاز کر دیں گے”۔
گزشتہ ہفتے عفرین کا معاملہ مزید بحران اختیار کر گیا بالخصوص امریکا کی جانب سے اس اعلان کے بعد کہ وہ شام ترکی سرحد پر کرد سرحدی محافظین کی فورس کو مسلح کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اس اعلان نے انقرہ کا غصّہ بھڑکا دیا تھا۔
ترکی نے داعش تنظیم کے خلاف برسرجنگ بین الاقوامی اتحاد کے اعلان پر شدید ردّ عمل کا اظہار کیا تھا جس میں بتایا گیا کہ عالمی اتحاد شام کے مشرق میں سیریئن ڈیموکریٹک فورسز کے تعاون سے سرحدی سکیورٹی فورس تشکیل دینے پر کام کر رہا ہے ، یہ فورس 30 ہزار ارکان پر مشتمل ہو گی۔ اتحاد کا کہنا تھا کہ اس فورس کا مقصد داعش تنظیم کو واپس لوٹنے سے روکنا ہے۔ تاہم ایردوآن کو اندیشہ ہے کہ یہ مسلح گروپ مستقل طور پر ترکی کے دروازوں پر بسیرا کر لیں گے۔ اسی واسطے ترک صدر نے پیر کے روز دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ “اس دہشت گرد فورس کو اُس کے پالنے میں پہنچا دیا جائے گا”۔