بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے مرکزی ترجمان نے کراچی سے بلوچ طلبا ء کے گرفتاریوں کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ریاست منصوبے کے تحت بلوچ طلباء کو نشانہ بنارہا ہے ۔بلوچستان میں تعلیمی اداروں پر قدغن لگانا اور طلباء کیلئے تعلیمی اداروں کو غیر محفوظ بنانے کے بعد اب بلوچستان سے باہر بلوچ طلباء کیلئے تعلیمی اداروں کو بند کرنے کیلئے طلباء کو گرفتار کرکے لاپتہ کیئے جارہے ہیں ۔گذشتہ روز کراچی کے علاقے مدھو گوٹھ سے کراچی یونیورسٹی شعبہ بین القوامی تعلقات کے طالب علم ممتاز ساجدی اور اس کے بھائی کامران ساجدی اور شعبہ ایگریکلچر میں ایم فیل کے طالب علم سیف بلوچ کے ریاستی خفیہ اداروں کے ہاتھوں بغیر کسی جرم و ثبوت کے اغواہ نماگرفتاریاں ریاست کی بلوچ طلباء کے حوالے طویل مدتی پالیسیوں کا تسلسل ہے جس میں ہزاروں بلوچ طلباء ریاستی فوج و خفیہ اداروں کے ہاتھوں لاپتہ ہوچکے ہیں جن میں سینکڑوں کی مسخ شدہ لاشیں برآمد ہوچکے ہیں ۔
ترجمان نے کہا کہ گذشتہ دو ماہ کے دوران کراچی سے 17بلوچ طلباء سندھ رینجرز اور خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے گرفتار کرکے لاپتہ کردیئے ہیں جن میں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے مرکزی سیکریٹری جنرل ثنااللہ بلوچ ، مرکزی کمیٹی کے ممبر ان نصیر احمد، (اوتھل یونیورسٹی سے شعبہ انگریزی ادب کے طالب علم ) حسام بلوچ ،(کر اچی یونیورسٹی میں شعبہ بین القوامی تعلقات کے طالب علم ) اور رفیق بلوچ کو 15نومبر 2017ء کو ان کے گھر سے گرفتار کرکے لاپتہ کردیئے گئے ، 28اکتوبر 2017ء کو انسانی حقوق کے کارکن اور کراچی یونیورسٹی میں شعبہ بین القوامی تعلقات کے طالب علم نواز عطاء، اور ان کے ہمراہ 8سالہ کمسن طالب علم آفتاب بلوچ سمیت 7دیگر نوجوان طلباء گرفتار کرکے لاپتہ کردیئے گئے ، 20نومبر 2017ء کراچی یونیورسٹی کے کینٹین سے کراچی یونیورسٹی میں شعبہ سیاسیات کے طالب علم صغیر احمد کو خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے گرفتار کرکے لاپتہ کردیا جبکہ کل 4جنوری 2017ء کو بلوچ طلباء ممتاز ساجدی ، کامران ساجدی اور سیف بلوچ کو ریاستی خفیہ اداروں نے گرفتار کرکے لاپتہ کردیئے واضح رہے کہ یہ تمام طلباء ریاستی خفیہ اداروں کے حراست میں ہیں اور ان کو تاحال منظرعام پر نہیں لایا گیا ۔
ترجمان نے مزیدکہاکہ بلوچستان مکمل حالت جنگ میں ہے یہاں کے تعلیمی ادارے پہلے سے انتائی محدود تھیں لیکن اب ریاستی فورسز فرنٹیئر کور( ایف سی) اور آرمی نے پرائمری اسکول ، ہائی اسکول اور کالجوں کے متعدد عمارتوں کو قبضہ کرکے وہاں اپنے کیمپ قائم کیئے ہوئے ہیں جبکہ بلوچستان یونیورسٹی اور کوئٹہ سٹی کے کالجوں میں سیکورٹی کے نام پر تمام انتظامات عسکری اداروں نے اپنے ہاتھوں میں لیے ہوئے ہیں اور ان تعلیمی اداروں میں دانستہ خوف کے ماحول قائم کیے ہوئے ہیں جہاں خوف کے فضاء میں تعلیم حاصل کرنا طلباء کیلئے مشکل سے مشکل ہوتا جارہا ہے ان حالات میں بلوچ طلباء بہتر ماحول میں تعلیم کے حصول کیلئے کراچی اور پاکستان کے دیگر شہروں کے تعلیمی اداروں میں داخلہ لیتے ہیں لیکن ریاست نے کراچی اور پاکستان کے دیگر شہروں کے تعلیمی اداروں میں بھی بلوچ طلباء کے گہرا تنگ کیے ہوئے ہیں وہاں بھی بلوچ طلباء کے زندگیوں کو غیر محفوظ بنایا جارہا ہے ۔
علاوہ ازیں ترجمان نے بی ایس او آزاد کے رہنماء کمبر چاکر اور الیاس نظرکے ساتویں برسی کے موقع پرانہیں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ کمبر چاکر اور الیاس نظر روشن فکر اور نظریاتی سیاسی کارکنان تھیں ان کی جدوجہد اور قربانیاں بلوچ طلباء کیلئے مشعل رہا ہے ، کمبر چاکر اور الیاس نظر نے اپنی انتھک محنت سے بلوچ طلباء کو سیاسی و نظریاتی علم سے لیس کرنے کیلئے اہم کردار ادا کیئے تھے ان کی جدوجہد کے بدولت بلوچ طلباء کا یہ کارواں ریاست کی انتائی جبر و بربریت کے باجود منظم انداز میں رواں دواں ہے اور ہمیشہ رواں دواں رہے گا۔