ریاست بلوچ نوجوانوں کی سیاسی شعور سے خوفزدہ ہوگیا ہے:بی ایس او آزاد

242

بلوچ سرزمین پر قبضہ کرنے کے بعد پاکستان نے بلوچ سماج کو پسماندہ رکھنے کیلئے تعلیم پر قدغن لگایا

ریاست بلوچ نوجوانوں کی سیاسی شعور سے انتہائی حد تک خوفزدہ ہوگیا

آج وقت کی عین ضرورت ہے کہ بلوچ نوجوان حالات کے صیح ادراک رکھے

تفصیلات کے مطابق بی ایس او آزاد کی جانب سے جاری ہونے  والے پمفلٹ میں کہا گیا کہ کراہ ارض کے وہ تمام قومیں جو اپنے آپ کو قابض طاقتوں کے استحصال سے آزاد کرنے اور اپنی قومی وجود کو برقرار رکھنے میں کامیاب ہوئے ان کی کامیابی کا تعلق براہ راست ان کے سماجی شعور سے تھا۔ سماجی شعور کا تعلق حصولِ علم سے ہے۔ کامیاب اقوام کے برعکس وہ قومیں جن کے قومی وجود اس کراہ ارض سے فناء ہوچکے ہیں وہ اس لیئے اپنی قومی وجود کو نو آبادیاتی طاقتوں کے سامنے برقرار رکھنے میں ناکام ہوئے کہ اُن کی سماجی شعور انتہائی کمزور ہونے کی وجہ سے وہ جدجہد کے تسلسل کے برقرار رکھنے کے بجائے پسپائی اختیار کرنے میں ہی عافیت سمجھتے تھے آج وہ تاریخ کے اوراق میں ناکام اقوام کے نام سے یاد کیئے جاتے ہیں ۔

محکوم اقوام نوآبادیاتی طاقتوں کو اس وقت شکست دے سکتے ہیں کہ جب ان قوموں کے نوجوان آزاد خیالی و ذہنی انتشار کے شکار ہونے کے بجائے تمام تر نوآبادیاتی رکاوٹوں کے باوجود حصولِ علم کیلئے انتہائی محنت و مخلصی سے جدوجہد کریں کیونکہ حصولِ علم سماجی و سیاسی شعور کیلئے راہ متعین کریگااور سماجی شعور قوموں کے سیاسی شعورکو جنہم دیتا ہے ۔ سیاسی شعور خام خیالی کے برعکس معروضی حقائق کے بنیاد پر جدوجہد کے اصول تشکیل دیتا ہے سیاسی شعور ہی روایاتی، غیر نظر یاتی سوچ وفکر کو مسترد کرکے سائنسی طریقہ کار کے بنیاد پر جدوجہد کے تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے سماج کی تشکیل نو عمل میں لاتاہے۔

پمفلٹ میں نوجوانوں کو مخاطب کیا کہ بلوچ سرزمین پر قبضہ کرنے کے بعد پاکستان نے بلوچ سماج کو پسماندہ رکھنے کیلئے تعلیم پر قدغن لگایا ۔ بلو چستان میں تعلیمی اداروں کے بجا ئے فو جی چھا نیو ں میں اضاٖفہ کی ہے مگر دنیا کو دھوکے میں رکھنے کیلئے ساتھ یہ پروپیگنڈہ بھی کرتا رہا کہ بلوچستان میں سردار عام لوگوں کو تعلیم حاصل کرنے نہیں دیتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بلوچستان پر اپنی حکمرانی کو برقر ار رکھنے اور بلوچ سماج کو مزید پسماندہ رکھنے کیلئے انہی سرداروں، مّلاؤں اور منشیات فرشوں کی پرورش کرتا رہا اور آج تک یہ سلسلہ جاری ہے ۔یہاں تک کہ ریاست نے تعلیم حاصل کرنے کے تمام ذرائع بھی بلوچستان میں ناپید کردیئے لیکن بلوچ نوجوانوں نے ریاست کی ہر سازش کا مقابلہ کرتے ہوئے مختلف ذرائع استعمال کرکے تعلیم حاصل کرنے کے تسلسل کو برقرار رکھا ۔

ریاست بلوچ نوجوانوں کی سیاسی شعور سے انتہائی حد تک خوفزدہ ہوگیا۔ ریاست نے حصولِ علم کے پاداش میں نوجوانوں کو گرفتار کرکے لاپتہ اورشہید کرنے کا سلسلہ شروع کیا ،بلوچستان کے تمام تعلیمی ادارے فوجی چھاؤنیوں میں تبدیل کردیئے ، کتابوں پر غیر اعلانیہ پابندیاں عائد کردی گئی ،انتہاء پسند مذہبی قوتیں باشعور طبقے کے سامنے کھڑے کردیئے گئے ، ترقی پسندانہ ادب کو منظر عام سے غائب کردیا گیا، بلوچستان کے طول و عرض میں بے انتہاء خوف کا ماحول قائم کیا اسی پس منظر میں بلوچ نوجوان بلوچستان کے فوجی چھاؤنیاں نما تعلیمی اداروں کو خیر آباد کرکے تعلیم حاصل کرنے کیلئے کراچی، سندھ اور پنجاب کے تعلیمی اداروں میں داخل ہوگئے۔ لیکن ریاست کو بلوچ نوجوانوں کی یہ عمل بھی گوارہ نہیں گزرابلوچستان سے باہر کے تعلیمی اداروں میں بھی بلوچ طلباء کیلئے زمین تنگ کردی گئی جس کی حالیہ مثال پنجاب یونیورسٹی لاہور میں انتہاء پسند مذہبی تنظیم اسلامی جمعیت طلباء کے ہاتھوں بلوچ و پختون طلباء کو تشدد کا نشانہ بنایاگیا، پھر پولیس کے ذریعے ان معصوم طلباء کوگرفتار کرکے ان کو زد و خوف کیا گیا اور انتظامیہ کے ذریعے ان نوجوانوں کو ذہنی دباؤ میں رکھاجارہا ہے جبکہ اس سے قبل کراچی سے بلوچ طلباء کی گرفتاریاں اور کراچی یونیورسٹی میں بلوچ طلباء کیلئے ماحول کوبے انتہاء خوف زدہ بنانایہ تمام عوامل ہمارے ان خدشات کو یقین میں تبدیل کررہے ہیں کہ ریاست بلوچستان سے باہر کے تعلیمی اداروں کو بھی بلوچ نوجوانوں کیلئے بند کررہا ہے۔

بی ایس او آزاد کے پمفلٹ میں مزید کہا گیا کہ آج وقت کی عین ضرورت ہے کہ بلوچ نوجوان حالات کے صیح ادراک رکھے۔ پاکستانی ریاست نے بلوچ قومی وجود کو ختم کرنے کیلئے نوجوان طبقے کو براہ راست نشانے پر رکھا ہے بلوچستان سے باہر کے تعلیمی اداروں میں بلوچ طلباء کیلئے تعلیمی دروازوں کو بند کرنا ریاست کے سنگین عزائم کی نشاندی کرتے ہیں ۔اس صورتحال میں بلوچ نوجوانوں کی ذمہ داریاں دوگناہ ہوجاتے ہیں بلوچ نوجوان اپنے سوچ و فکر کو وسیع کریں اور حالات کی انتہائی باریک بینی سے تجزیہ کرکے اپنے آپ کو ریاست کی تمام شاطرانہ پالیسیوں سے محفوظ رکھے ۔ریاست دانستہ خوف کا ماحول قائم کرکے بلوچ نوجوانوں کو ذہنی انتشار کا شکار بنانا چاہتی ہے تاکہ بلوچ نوجوان کسی بھی صورت علم حاصل نہ کرسکیں اور اپنی قومی ذمہ داریوں سے غافل رہے۔ اس صورتحال میں بلوچ نوجوان کسی ذہنی دباؤ و خوف کے بغیر اپنی علمی سرگرمیوں کو جاری رکھے اور اپنی علمی صلاحیتوں سے ریاست کے تمام سازشوں کو ناکام بنائے کیونکہ ریاست بلوچ نوجوانوں کی علمی صلاحیتوں سے بے انتہاء خوف زدہ ہے۔ اسی خوف کے عالم میں ریاست بلوچ نوجوانوں کے خلاف طاقت کی تمام ٖذرائع کو استعمال کررہا ہے لیکن یہ ہمارا ایمان ہے کہ بلوچ نوجوانوں کی مضبوط حوصلے اور علمی صلاحیت ریاست کے تمام مزموم عزائم کو ناکام بنائے گے اور کامیابی بلوچ نوجوانوں کی مقدر ہے۔