بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کی مرکزی ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں بلوچستان بھر میں فوجی کاروائیوں کے شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ریاست بلوچستان میں عام بلوچوں کے خلاف اپنی مکمل طاقت کا استعمال کررہا ہے عسکری کاروائیاں بلوچستان بھر میں جاری ہیں ان کاروائیوں کی نشانہ براہ راست عام بلوچ عوام ہیں ۔
بلوچستان کے علاقے مشکے، آواران، زامران اور گورکوپ میں فوجی کاروائیوں میں تیزی لائی گئی ہے۔ 11جنوری کو ضلع کیچ کے علاقے بلیدہ زامران میں شدید فوجی کاروائیوں کاآغاز کیا جس میں علاقے کو مکمل سیل کرکے گھر گھر تلاشی لیکر انسانی عزت و نفس کو مجروح کرکے گھروں میں موجود لوگوں کو زہنی و جسمانی تشدد کا بھی نشانہ بنایا گیا علاقے سے موصول ہو نے والے اطلاعات کے مطابق فضائی فوج نے عام آبادیوں پر شیلنگ کرکے لوگوں کو گھروں میں محصور کردیا ، فضائی کاروائیوں سے جانی و مالی نقصانات کے بھی اطلاعات ہیں زمینی فوج نے زامران کے علاقے دشتُک میں ہسپتال و اسکول پر قبضہ کرکے وہاں فوجی چوکیاں قائم کیے ۔جبکہ گذشتہ ایک ہفتے سے مشکے میں فوجی کاروائیوں میں ایک مرتبہ پر شدت لائی گئی ہے بڑے پیمانے پر زمینی و فضائی فورسز نے کاروائیوں کا آغاز کیا ہے دوران آپریشن عام لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے لوگوں کی مال مویشیوں کو لوٹ کر آرمی کیمپوں میں منتقل کیا جارہا ہے.
واضح رہے کہ دسمبر کے مہینے میں مشکے سے راغے تک بڑے پیمانے پر فوجی کاروائیاں کیے گئے جس میں دس سے زائد خواتین و بچے ماروائے عدالت قتل کیے گئے اور پچاس سے زائد لوگوں کو گرفتارکرکے آرمی کیمپ بھی منتقل کیے گئے جن میں اکثریت خواتین و بچوں کی تھی ۔گذشتہ روز فورسز نے آواران میں آپریشن کا آغاز کیا جس میں آواران کے علاقے جھکرو، دراسکی، قندھارکے مختلف قصبوں کو نظرآتش کرنے کے اطلاعات ہیں جبکہ آواران دراسکی کی رہاشی آسمی بلوچ ولد تاج محمد کو گرفتار کیا زد وخوف کرنے کے بعد رہا کردیا ۔ آج کیچ کے علاقے گورکوپ میں فورسز نے آپریشن کا آغاز کیا جس میں گورکوپ کے علاقے جمک ، لنجی،سولانی، سری کلگ و دیگر علاقوں میں عام لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنا یا اور متعدد گھروں کو بھی نذرآتش کیا گیا .
واضح رہے 4اکتوبر 2016ء کو بی ایس او آزاد کے مرکزی انفارمیشن سیکریٹری لکمیر بلوچ کو ایک فوجی کے دوران گورکوپ سے فورسز نے گرفتار کرکے لاپتہ کردیا جو تاحال لاپتہ ہے ۔
ترجمان نے کہا کہ ریاست بلوچستان میں عام لوگوں سے زندہ رہنے کی بنیادی حقوق بھی چھین رہا ہے بلوچستان میں لوگوں کا معاشی ذرائع مقامی کاروبار اور زراعت سے وابستہ ہیں ریاست نے بلوچستان کو ایک وارزون میں تبدیل کیا جس کے سبب جنگ زدہ علاقوں سے بڑے پیمانے پر لوگ اپنے آبائی علاقوں سے نقل مکانی کرکے مہاجرین کی زندگیاں گزار رہے ہیں وہاں ان کے تمام معاشی ذرائع بند ہوچکے ہیں ان حالات میں بلوچ مہاجرین انتائی معاشی تنگدستی کے شکار ہے تو دوسری طرف ریاستی جبر سے وہاں بھی محفوظ نہیں ہے ان حالات میں زندہ رہنا موت سے بھی زیادہ بدتر ہے اقوام متحدہ کی تنظیم برائے مہاجرین بلوچ مہاجرین کو اپنے ایجنڈے میں شامل کرکے اپنے بنیادی ذمہ داریوں سے انصاف کریں۔
علاوازیں ترجمان نے ڈاکٹر رسول بخش رئیسانی کی بلوچستان کیلئے علمی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ مرحوم نے اپنی تمام تر زندگی علمی خدمات کیلئے وقف کر رکھی تھی ایسے شخصیات کی خلاء کو پُر کرنا انتائی مشکل امر ہے ترجمان نے کہا کہ مرحوم کی تعلیمی خدمات ہمیشہ یاد رکھے جائے گے۔