امریکی مشیر نے کہا کہ پاکستان سے کیے جانے والے مطالبات محض الزامات کا تبادلہ نہیں بلکہ اس کا مقصد پاکستان پر یہ واضح کرنا ہے کہ اب دونوں ملکوں کے تعلقات مزید تضادات کے متحمل نہیں ہوسکتے۔
وائس آف امریکہ کی نمائندۂ خصوصی گریٹا وین سسٹیرین کو ایک خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے مک ماسٹر نے کہا کہ پاکستان بدستور دہشت گرد گروہوں کی مدد کر رہا ہے اور اس نے اپنی حدود میں دہشت گردوں کے خلاف بلا امتیاز کارروائی نہیں کی۔
انہوں نے کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا پاکستان سے متعلق حالیہ ٹوئٹ پاکستان کے اس رویے کے بارے صدر کی مایوسی کا اظہار ہے۔
جنرل مک ماسٹر نے کہا کہ امریکہ کو امید تھی کہ پاکستان کے ساتھ تعاون کے بہتر نتائج برآمد ہوں گے لیکن ان کے بقول چند مخصوص دہشت گرد گروہوں کے خلاف کارروائی اور دوسروں کو اپنی خارجہ پالیسی کے ایک حربے کے طور پر استعمال کرنے کے پاکستان کے رویے سے صدر ٹرمپ کو مایوسی ہوئی ہے۔
امریکی مشیر نے کہا کہ پاکستان سے کیے جانے والے مطالبات محض الزامات کا تبادلہ نہیں بلکہ اس کا مقصد پاکستان پر یہ واضح کرنا ہے کہ اب دونوں ملکوں کے تعلقات مزید تضادات کے متحمل نہیں ہوسکتے۔
انہوں نے کہاکہ امریکی حکومت پاکستان پر یہ واضح کرنا چاہتی ہے اسے افغانستان میں استحکام لانے کے لیے امریکہ کے ساتھ مل کر کام کرنا ہوگا جس کا ان کے بقول خود کو پاکستان کو بھی بہت فائدہ ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت امریکہ کو تشویش یہ ہے کہ پاکستان طالبان اور حقانی نیٹ ورک کی قیادت کو محفوظ ٹھکانے اور مدد فراہم کرکے اپنے ہی عوام کے مفادات کے خلاف جارہا ہے کیوں کہ ان کے بقول یہ گروہ صرف افغانستان ہی نہیں بلکہ پاکستان کے بعض علاقوں میں بھی تباہی مچاتےہیں۔
ایک سوال کے جواب میں مک ماسٹر کا کہنا تھا کہ پاکستان بے تحاشا انسانی اور معاشی وسائل سے بھرپور ملک ہے اور اسے عالمی برداری میں ایک دھتکاری ہوئی ریاست نہیں بننا چاہیے۔
لہذا، ان کے بقول، امریکہ چاہتا ہے کہ پاکستان خود اپنا مفاد دیکھے، دہشت گردوں کے خلاف بلا امتیاز کارروائی کرے اور ان کی قیادت کو محفوظ ٹھکانے اور دیگر طریقوں سے مدد کی فراہمی بند کرے۔
اپنے انٹرویو میں امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر نے صدر ٹرمپ کی خارجہ پالیسی کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ٹرمپ حکومت کی خارجہ پالیسی حقیقت پسندی پر مبنی ہے اورصدر مفروضات کے بجائے حقیقت کو پیشِ نظر رکھ کر فیصلے کرتے ہیں۔
انٹرویو کے دوران مک ماسٹر نے ایران میں جاری احتجاج کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ ایرانی عوام اپنی حکومت سے بیزاری کا اظہار کر رہے ہیں جو ان کے بقول اپنے عوام کی ضرورتیں پوری کرنے کے بجائے خطے میں دہشت گردی برآمد کرنے پر زیادہ توجہ دیتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ اور اس کے عوام کی ہمدردیاں اور حمایت ایرانی عوام کے ساتھ ہیں جو ان کے بقول وہاں کی آمرانہ حکومت کے خلاف اپنی ناراضی کا اظہار کر رہے ہیں۔
شمالی کوریا سے متعلق ایک سوال پر ایچ آر مک ماسٹر نے کہا کہ شمالی کوریا کے ساتھ جنگ سے بچنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ اس کے خلاف سخت معاشی پابندیاں عائد کرکے اسے اپنا جوہری اور میزائل پروگرام روکنے پر مجبور کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ اس ضمن میں چین کا تعاون انتہائی اہم ہے کیوں کہ شمالی کوریا کےساتھ اس کی تجارت سب سے زیادہ ہے۔
مک ماسٹر نے کہا کہ چین کو اندازہ ہورہا ہے کہ خطے کی صورتِ حال بدل رہی ہے اور اسے احساس ہے کہ شمالی کوریا کو جوہری صلاحیت سے محروم کرنا خود اس کے اپنے مفاد میں ہے۔