بلوچ ریپبلکن آرمی کے سرمچاروں نے گزشتہ روز کیچ کے علاقے ناصر آباد میں سابق کمانڈر محمد بخش جگو کو نشانہ بنا کر ہلاک کیا مگر بی ایل ایف کی جانب سے جلد بازی میں اس کاروائی کو اپنے نام کیا گیا جو مزاحمتی اصولوں اور اخلاقی اقدار کے برخلاف ہے جگو ماضی میں بی ایل ایف کا حصہ رہا کچھ عرصہ بعد اپنی خواہش کے تحت بی ایل ایف چھوڑ کر 2008 میں بی آر اے میں شامل ہوا تاہم ہماری تنظیم کے طرف سے اسے اس شرط پر شامل کیا گیا کہ وہ منشیات کے استعمال کو ترک کردیگا دو سال کے عرصے کے بعد بھی منشیات کے لت سے خود کو الگ نہیں کر سکا جس کے بعد مسلسل تنظیم میں ساتھیوں کی جانب سے اس پر دباؤ تھا جس کی وجہ سے وہ دوبارہ بی ایل ایف میں شامل ہوگیا اس دوران بزرگ گوریلا کمانڈر ماسٹر سلیم نے بی ایل ایف کو چھوڑ کر اپنی ایک الگ تنظیم (بی این ایل ایف ) تشکیل دی اور جگو پھر اس میں شامل ہوگئے کچھ وقت بعد جگو و ستار ریاست کے سامنے سرینڈر ہوگئے جس کے بعد وہ ریاستی ایجنسیوں کے ایما پر ناصر آباد و قلاتک اور گرد و نواح میں سرگرم ہوگئے سرمچاروں اور ہمدردوں کی مخبری اور بندوق کی نوک پر عام عوام سے بھتہ وصول کرنا شروع کردیا۔ گزشتہ روز بی آر اے کے ساتھیوں نے جگو کا پیچھا کیا مگر چار عام بلوچ اس کی گاڑی میں سوار تھے کچھ دیر بعد چاروں لوگ گاڑی سے اتر گئے جس کے بعد جگو کی گاڑی ایک سپیڈ بریکر پر آکر آہستہ ہوا اس دوران ہمارے ساتھیوں نے اسے نشانہ بنا کر ہلاک کیا۔
مگر تھوڑی دیر کے بعد فوراً بی ایل ایف نے اس کاروائی کو اپنے نام کیا لیکن بی آر اے کی مرکزی قیادت نے صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے بی ایل ایف کے مرکزی قیادت سے رابطہ کیا تاہم بی ایل ایف نے ہمیں بتایا کہ ہم نے اس کاروائی کو اس لیئے اپنے نام کیا کہ ہمارے ساتھی بھی تین دن سے اس کی تعاقب میں تھے جبکہ رابطہ کرنے پر معلوم ہوا کہ بی ایل ایف کی ناصر آباد میں ساتھی خود بھی اس بات پر حیران ہیں بی ایل ایف کے قیادت سے بار بار رابطے کے باوجود بھی وہ حیلے بہانوں سے کام لیتے رہے کہ ہمارے ساتھی رابطے میں دستیاب نہیں تو کبھی کوئی اور دلیل جو وقت کے ضیاع کے سوا کچھ نہیں تھے
لہٰذا بی آر اے بلوچ قوم تک زمینی حقائق کے بارے میں آگاہی کو اپنا فرض سمجھتی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جگو کی آڑ میں بی این ایل ایف کو کاغذی تنظیم قرار دینا اور محترم ماسٹر سلیم کی کردار کشی خود پرستانہ فعل کے سوا کچھ نہیں۔ بلوچ وطن کی آزادی کیلئے جاری جنگ خود پرستانہ سوچ و عدم برداشت کا متحمل نہیں ہوسکتا تمام حلقوں کو زمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے بچگانہ سوچ کو ترک کرنا ہوگا۔