جماعت اسلامی کی دہشت گردوں کا حملہ: بلوچستان کے طلبا تنظیموں کی مذمت

289

پنجاب میں جماعت اسلامی کے دہشت گردوں کی جانب سے بلوچ و پشتون طلبا پر حملے کے خلاف بلوچستان کے بیشتر طلبا تنظیموں  جن میں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن،بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی،پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن،بلوچ اسٹوڈنٹس فرنٹ شامل ہیں پریس کانفرنس کیا ۔

پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بی ایس او کے وائس چیئرمین خالد بلوچ نے کہا  پنجاب یونیورسٹی لاہور کے اس سانحے میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے بلوچ اور پشتون طلباء کے ساتھ جو رویہ یونیورسٹی انتظامیہ اور پنجاب حکومت نے روا رکھا وہ انتہائی قابل مذمت ہے یہ ایک دل خراش اور افسوس ناک واقعہ ہے.

پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن صوبائی صدر اشفاق بلوچ نے کہا کہ مذہبی شدت پسند تنظیم کی جانب سے ایک مخصوص اور پلاننگ کے تحت تسلسل کے ساتھ آئے روز ان معصوم طلباء پر حملہ کیاجاتا ہے کبھی یہ لوگ بلوچ طلباء پر اور کبھی یہ لوگ پشتون طلباء کو مار پیٹتے ہیں ان پر ایسے حملہ کرتے ہیں جیسے کسی ملک کے دشمنوں پر حملہ کر کے اس ملک کو فتح کرنا ہوتا ہے۔

بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی چیئرمین رشید کریم نے کہا کہ بلوچستان بھر سے طلباء ہزاروں مشکلات کو پس پشت ڈال کر تعلیم حاصل کرنے کے آس لئے بلوچستان سے باہر دیگر صوبوں کے خصوصاً پنجاب کے تعلیمی اداروں کا رخ کرتے ہیں لیکن وہاں ان کو تعلیم دینے کے بجائے انہیں تعلیمی اداروں سے بیدخل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس طرح کے واقعے سے یہ خدشہ ظاہر ہوتا ہے کہ ایک مخصوص گروہ کے جانب سے ایک سازش کے تحت ان کیلئے تعلیم کے دروازے بند کئے جارہے ہیں.

پنجاب حکومت اور یونیورسٹی انتظامیہ اس مخصوص مذہبی ٹولے کے بھر پور ساتھ دیکر انہیں اور بھی قوت فراہم کررہی ہے۔ کیونکہ یونیورسٹی انتظامیہ اور حکومت پنجاب کو یہ چاہئے تھا کہ متاثرہ طلباء کو سہولت فراہم کرے، یونیورسٹی کو ان مخصوص مذہبی ٹولے سے بچا کر وہاں ایک پر امن تعلیمی ماحول کو پروان چھڑائے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ حکومت پنجاب اور یونیورسٹی انتظامیہ ان متاثرہ بلوچ اور پشتون طلباء کو تحفظ دینے کے بجائے ان کے ہاتھوں میں ہھتکڑی ڈال کر بڑے بڑے اشتہاری دہشتگردوں کی طرح اینٹی ٹیررسٹ کورٹ میں پیش کرکے دس روزہ ریمانڈ پر بھیجا جا تا ہے۔جو کہ کسی بھی گورنمنٹ اور یونیورسٹی انتظامیہ کو یہ زیب نہیں دیتا۔

بلوچ اسٹوڈنٹس فرنٹ تنویر بلوچنے کہا کہ پنجاب  کے تعلیمی اداروں میں ایک جانب بلوچ اور پشتون طلباء پر بار بار حملہ کرنا اور ان کو گرفتار کرکے پابند سلاسل رکھنا اور پھر یونیورسٹی انتظامیہ کے جانب سے انہی ہی متاثرہ طلباء پر بے بنیاد اور من گھڑت الزام لگا کر ان ہی کے خلاف کاروائی کرنا ہم سجھتے ہیں کہ یہ ان دو اقوام کو دیوار سے لگانے کے مترادف ہے۔

  1. بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی سیکرٹری جنرل غنی بلوچ نے کہا کہ بلوچ اور پشتون طلباء بلوچستا ن سے باہر خصوصاً پنجاب کے تعلیمی اداروں کی جانب رخ کی ہے لیکن وہان بھی ان کے ساتھ ایک محکوم قوم کی حیثیت سے سلوک روا رکھا جا رہا ہے اس لیے بلوچستان سے باہر کے تعلیمی اداروں میں انہیں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے،اس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ ان کو ان محکوم قوم کی تعلیم حاصل کرنا ہضم نہیں ہو رہا ہے.
    چیئرمین رشید کریم بلوچ نے کہا اگر اس طرح کے رویے خصوصاً پنجاب حکومت کی جانب سے جاری رہا تو آنے والے دنوں میں اس کے بھیاناک نتائج سامنے آئیں گے۔ پھر ہمارے آنے والے نسلیں بھی اس تشدد پسندی اور نفرت پسندی کا شکار ہونگے۔