تحریک کو کچلنے کے لئے پاکستان بلوچ نسل کشی کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے: خلیل بلوچ

399

بلوچ نیشنل موومنٹ کے چیئرمین خلیل بلوچ نے 2017 کے اختتام پر بلوچستان کی مجموعی صورتحال بیان کرتے ہوئے کہا کہ بی این ایم کا مرکزی سیکریٹری انفارمیشن ہر مہینے بلوچستان کی صورت حال پر ایک تفصیلی رپورٹ جاری کرتا ہے ۔یہ رپورٹ ایک ایسا آئینہ ہے جس میں پاکستان کے تمام مظالم صاف نظرآتے ہیں۔ پاکستا ن نے بلوچستان میں ایسی غلیظ جنگ شروع کررکھی ہے جوعالمی پیمانوں کے مطابق نسل کشی کے زمرے میں آتا ہے۔ پاکستان 1948کو بلوچستان پر قبضہ کے بعد اس قبضے اوراستحصال کوقائم ودائم رکھنے کے لئے تمام عالمی قوانین اورانسانی اقدارکوپاؤں تلے روندرہاہے ۔
اس وقت عالمی قوانین بالخصوص جنیوا کنونشزکی مکمل طورپر خلاف ورزی جاری ہے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچ قومی تحریک کو کچلنے کے لئے پاکستان بلوچ نسل کشی کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے ۔طویل آپریشنوں کے ذریعے فوج بلوچوں کا براہ راست قتل عام کررہاہے ۔ اس وقت پاکستان کئی طریقوں سے بلوچ نسل کشی میں مصروف ہے۔

نمبر1۔ ملٹری و پیراملٹری فورسز: اس وقت پاکستان کی کئی ڈویژن ریگولر آرمی اور فرنٹیر کور (ایف سی) بلوچستا ن میں براہ راست بلوچ قوم کی قتل عام کررہے ہیں ۔ یہ وہی فوج ہے جس نے بنگلہ دیش میں تیس لاکھ بنگالیوں کوقتل کیا۔آج بلوچستان میں وہی کچھ ہورہاہے مگر فرق یہ ہے کہ بنگلہ دیش پرآپریشن کا دورانیہ بہت مختصرتھااور بھارت نے بنگالیوں پر مظالم کو دیکھ کر ایک ذمہ دار ہمسایہ کی حیثیت سے مداخلت کرکے اس نسل کشی کو سدباب کیا۔ شومئی قسمت بلوچستان کے ہمسایہ ممالک خود اپنی اندرونی مسائل میں اتنے گھیرے ہوئے ہیں کہ بلوچ قوم توقع رکھ ہی نہیں سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ بلوچ قوم ستر سالوں سے پاکستان کے مظالم سہہ رہاہے۔ بنگلہ دیش میں نو مہینوں میں پاکستان نے تیس لاکھ قتل کردئے تو آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ یہ درندہ آرمی یہاں کیسی قیامت برپا کر چکی ہے۔ ایسے میں اقوام متحدہ اور عالمی طاقتوں کا فرض بنتا ہے کہ وہ براہ راست مداخلت کریں۔ ہم نااُمید نہیں ہیں۔

نمبر2۔ڈیتھ سکواڈز۔بلوچستان میں یہ ڈیتھ اسکواڈ بالکل الشمس اورالبدرکی طرزپر بنائے گئے ہیں،جن کا پاکستان کو پہلے سے تجربہ ہے۔ ان کا اعتراف وہ کئی مواقع پر خود کر چکے ہیں۔ گزشتہ سال کے دسمبر کی چوبیس تاریخ کو بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر مالک نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ ہم نے ڈیتھ اسکواڈز کے رہنماؤں و ارکان سے کئی کارڈ واپس لئے ہیں۔ گوکہ آج نیشنل پارٹی خود ریاستی سرپرستی میں یہی کام کر رہاہے مگر ان کا بیان اعتراف و اقبال جرم ہے کہ بلوچستان میں ریاستی ڈیتھ اسکواڈز وجود رکھتے ہیں۔ نیشنل پارٹی کے قیادت کی سربراہی میں راشد پٹھان، ملا برکت، علی حیدر محمد حسنی اور منشیات کے سرغنہ اور عالمی مطلوب امام بھیل و دیگر جرائم پیشہ لوگ ڈیتھ اسکواڈ قائم کئے ہوئے ہیں۔ ان کے علاوہ سابق وزیر اعلی اسلم رئیسانی کا چھوٹا بھائی سراج رئیسانی اور موجودہ وزیر اعلی ثنا اللہ زہری کے کئی کارندے شامل ہیں۔ ثنااللہ کا ایک بھائی زیب اور بیٹا بھی یہی کرتے تھے مگر بعد میں دونوں مارے گئے اور علاقہ مکینوں نے ایک حد تک سکھ کا سانس لیا۔ ان کاکام فوج کو بلوچ نسل کشی میں معاونت ، سیاسی ورکروں کی نشاندہی ،ان کی گرفتاری اورشہید کرناہے ۔اس کے علاوہ انہیں پاکستانی ریاست کی جانب سے چوری ،ڈاکہ زنی اوراغواء برائے تعاو ن کی مکمل اجازت و چھوٹ حاصل ہے۔

نمبر3۔مذہبی انتہاپسند : دنیا اس خبر سے واقف ہے کہ پاکستان ریاستی سطح پر مذہب کو ایک ہتھیار کے طورپر استعمال کرتاچلاآرہاہے۔ خاص کر پاکستانی فوج نہ صرف ایک سُنی بنیادپرست ہے بلکہ اس کی سرشت میں مذہبی انتہاپسندی اورجنونیت شامل ہے۔پاکستانی ریاست اورفوج دنیا بھر میں مذہبی انتہاپسندی اوردہشت گردی کی ایکسپورٹ کابہت بڑا ذریعہ بھی ہے ۔ریاست کے لئے مذہب ایک وسیع کاروبار کے ساتھ ساتھ ریاستی بیانیہ بن چکاہے۔ مذہبی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر دنیا سے پیسے بٹورتا ہے ۔ اسی بیانیہ کے ذریعے پاکستان اپنی تاریخ اورتہذیب کے خلاء کو پرکرنے کی کوشش کرتاہے اورراسے ہتھیارکے طور پر محکوم قوموں کے تاریخ ،تہذیب اورتحریک کے خلاف استعمال کررہاہے۔اس وقت بلوچ قومی تحریک کے خلاف کئی پراکسی مذہبی دہشت گردتنظیمیں سرگرم عمل ہیں۔ اب پاکستان اس میں وسعت لاچکاہے۔ عالمی بدنامِ زمانہ دہشت گرد تنظیم داعش کوریاستی سرپرستی میں بلوچستان کے طول وعرض میں محفوظ ٹھکانے اورلانچنگ پیڈفراہم کی جاچکی ہے۔

نمبر 4 ۔ رہنماؤں کا قتل: بلوچ قومی تحریک کو کچلنے کیلئے پاکستان بلوچ رہنماؤں کو چن چن کر قتل کرتی ہے۔ بی این ایم، بی ایس او اور بی آر پی سمیت کئی جماعتوں کے رہنما اس پالیسی کا شکار بن چکے ہیں ۔ ان میں نواب اکبر خان بگٹی، نوابزادہ بالاچ مری، غلام محمد بلوچ، ڈاکٹر منان بلوچ قابل ذکر ہیں۔

نمبر5 ۔ سرفیس سیاست پر پابندی۔ بی این ایم، بی ایس او اور بی آر پی سمیت کئی جماعتوں کے کارکنوں پر سرفیس سیاست پر پابندی عائد ہے اور ان کے کارکنان کو دیکھتے ہی قتل یا اغوا کرکے لاپتہ کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر دین محمد بلوچ، غفور بلوچ، رمضان بلوچ، زاہد بلوچ خان، ذاکر مجید، الطاف بگٹی سمیت ہزاروں لاپتہ اوررسول بخش مینگل، رضا جہانگیر، شفیع بلوچ سمیت سینکڑوں براہ راست یا دوران حراست قتل کئے جا چکے ہیں۔

نمبر 6 ۔ اجتماعی سزا: بلوچ سیاسی کارکنوں، سرمچاروں اور غرض ہمدردوں کو ماورائے عدالت قتل و اغوا کے بعداب ان کے رشتہ داروں اور ہمسایوں کو پاکستان نے اغوا اور قتل کرنے کا سلسلہ شروع کی ہے۔ کراچی سے کمسن بچوں، طلباکا اغوا اور خواتین پر تشدد اسی سلسلے کی کڑی ہیں۔ یہی نہیں کوئٹہ سے بلوچ رہنما ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کی اہلیہ کو چار سالہ بچی سمیت دیگر تین خواتین کے ساتھ اغوا کیا گیا اور شدید ذہنی اور جسمانی تشدد کے چار دن بعد رہا کر دیا گیا۔ اس کے بعد مشکے، راگئے اور گچک آپریشن میں درجنوں خواتین کو اغوا کیا گیا جن میں ایک دفعہ پھر ڈاکٹر اللہ نذر کی دو بہنیں بچوں سمیت شامل تھیں۔

ان کے علاوہ کٹھ پتلی حکومتیں اور میڈیا بھی ریاست کا بلوچ نسل کشی میں اہم آلہ ہیں۔ یہ سلسلہ ہنوذ جاری ہے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچ سرزمین نہ صرف آج بلکہ صدیوں سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ سولویں صدی میں جب ایک انگریز آفیسر بحربلوچ کا دورہ کرتاہے تو اس وقت برطانیہ کو اس کی اسٹریٹیجک اہمیت کے بارے میں کہتاہے کہ ’’بلوچ سرزمین اتنااہم ہے کہ آئندہ وقتوں میں دنیاکا کوئی طاقت اس خطے میں اس وقت اپنی اثرو نفوز برقراررکھ سکتاہے۔ جب وہ بلوچ سرزمین پر قابض ہوا ،اس کے بعد جب زارروس کی طاقت میں اضافہ ہوگیا توبرطانیہ کوفکرلاحق ہوگیاکہ زارروس خطے میں پہنچ گیاتوساؤتھ ایشیا میں برطانیہ کے مفادات خاک میں مل جائیں گے۔ اس لئے زارروس سے پیشتر وہ 1840ء کو افغانستان میں چڑھائی کرکے قبضہ کرتاہے اور اس کے بعد وہ بلوچ سرزمین پر قبضہ کرتاہے۔ انگریز ہندوستا ن میں بیٹھ کربلوچ اور افغان سرزمین کو ایک بفرزون کے طور پر استعمال کرتاہے ۔

دوسری جنگ عظم کے بعد عالمی سیاست کے ترجیحات اور رخ بدل جاتے ہیں اور برطانیہ کمزورہوجاتاہے ۔ اس خطے سے انخلاء کے دورا ن انہیں یہ خطرہ لاحق ہوتاہے کہ ان کے جانے کے بعد سوویت یونین یہاں قدم جما لے گا۔ اسے روکنے کے لئے پیش بندی کے طورپر ایک ایسے ملک کا قیام عمل میں لایا جاتا ہے جو برطانیہ سمیت مغرب کے مفادات کے تابع ہو۔کوئی تاریخی اورتہذیبی وجود کے بغیر مستعار نظریے اورجعلی شناخت کے ساتھ پاکستان نامی ریاست بنائی جاتی ہے ۔ اس مقصد کے لئے بلوچ ،سندھی اورپختونوں کے تاریخی سرزمینوں پر قبضہ کیاجاتاہے جو ہزارہاسالوں سے ان قوموں کا مسکن اوروطن ہیں۔ مغرب کو اپنے مفادات کی نگہبانی کے لئے اچھا چوکیدار مل ہی جاتاہے ۔آغاز سینٹواور سیٹومعاہدات سے ہوتاہے اورمختلف مراحل سے گزر کراکیسویں صدی میں اپنی اصل جوہردکھاناشروع کرتاہے جواس کی فطرت میں شامل ہیں۔

جس دن بلوچ سرزمین پر قبضہ ہوا، اسی دن سے پاکستان بلوچ کا نسل کشی میں مصروف ہے۔ بلوچ قوم کاسماجی ،سیاسی اورمعاشی طورپر نسل کشی ہورہاہے۔پاکستان نے کبھی بھی بلوچ قوم کو سیاسی مواقع فراہم نہیں کیاجس سے بلوچ اپنی شناخت کو برقرار رکھ سکے۔ پاکستان بلوچ قومی معدنیات کااستحصال کررہاہے۔ اس نے بلوچ قوم کو اقتصادی طورپر خودکفیل ہونے کی طرف کبھی گامزن ہونے نہیں دیاہے ۔ 1953کو سوئی گیس کے دریافت اور استحصال سے لے کر آج کے چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) تک تمام اقتصادی منصوبے بلوچ قو م کے لئے تباہی کا وسیلہ بن رہے ہیں۔ایک امیر خطے کا مالک بلوچ قوم اس جدید دورمیں بھی پتھر کے زمانے کی زندگی جی رہاہے۔ اس کے ساتھ پاکستان مستقل بنیادوں پر یہاں آبادکاری کررہاہے تاکہ بلوچ اپنے ہی سرزمین پر اقلیت میں تبدیل ہوجائے اورپاکستانی ریاست اورآبادکاراس سرزمین اور اسکے وسائل سے فوائد سمیٹ لیں۔
پاکستان کی قبضہ گیریت کے خلاف روز اول سے آغاعبدالکریم کی صورت میں شروع ہونے والی جنگ، مزاحمت اور جدو جہد آج بھی برقرارہے۔ بلوچ قوم کے سرشت میں نیشنلزم کانظریہ شامل ہے۔ پاکستان بلوچ قوم کے مضبوط سماجی نظام ،نیشنلزم کے قوی نظریے اورقومی آوازکو سنڈیمن سرداری سسٹم سے لے کر جدیددورکے تباہ کُن مذہبی انتہاپسندی سے یکسرتبدیل اورتباہ کررہاہے ۔ اس کی تباہی کے آثارسے دنیابے خبر ہے۔ پوری دنیاکے جنگ زدہ علاقوں میں میڈیا کو مکمل رسائی حاصل ہے۔ بعض جنگوں کی براہ راست کوریج بھی ہوتی ہے مگربلوچستان میں میڈیاپر مکمل پابندی ہے ۔

934 آپریشنز و چھاپوں میں 2000 سے زائد افراد لاپتہ،204 شہید، 500 سے زائد گھر اور کھڑی فصلیں نذر آتش اور 1500 سے زائدمال مویشیاں قابض فوج لوٹ کر اپنے ساتھ لے گیا ہے۔

اس سال پاکستان کی بربریت گرافک چارٹ ذیل ہے۔