کارکنان اپنی تمام ترتوجہ انقلابی تعلیم کے حصول پر رکھیں۔بی ایس او آزاد
مرکزی کمیٹی کا چو تھا اجلاس زیرصدارت مرکزی چیئرپرسن کریمہ بلوچ منعقد ہوا
بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کی مرکزی ترجمان نے جاری کردہ بیان میں کہا کہ تنظیم کی مرکزی کمیٹی کا چو تھا اجلاس زیرصدارت مرکزی چیئرپرسن کریمہ بلوچ منعقد ہوا۔ اجلاس میں تنظیمی کارکردگی رپورٹ ، تنقیدبرائے تعمیر، تنظیمی امور، عالمی و علاقائی سیاسی صورتحال اور آئندہ لائحہ عمل کے ایجنڈوں پر سیرحاصل بحث کیا گیا ۔
تنظیم کی موجودہ صورتحال و تنظیمی کارکردگی پر بحث و مباحثہ کرتے ہوئے مرکزی رہنماؤں نے کہا کہ بی ایس او نے اپنے پچاس سالہ تاریخ میں مختلف نشیب و فراز دیکھے لیکن کبھی اپنے موقف سے دستبردار نہیں ہوا اور سخت تنظیمی ڈسپلن و انقلابی اصولوں پر کاربند رہتے ہوئے جدوجہد کے تسلسل کو برقرار رکھا۔ بی ایس او اپنے انقلابی جدوجہد کے باعث ابتداء سے سامراجی ظلم و جبر کا شکار ہے ریاست نے ہمیشہ بی ایس او کے صف اول کے قیادت کو نشانہ بنایا حالیہ دور میں مرکزی سیکریٹری جنرل ثنااللہ بلوچ، مرکزی انفارمیشن سیکریٹری شبیر بلوچ، مرکزی کمیٹی کے ممبران حسام بلوچ ،نصیراحمد کے جبری گمشدگیاں اور مشکے زون کے صدر حاصل قاضی، جھاؤ زون کے خمار بلوچ، کولواہ زون کے شاکر شاد، صادق بلوچ اور آواران زون کے سراج بلوچ کے ریاستی عسکری اداروں کے ہاتھوں ماروائے عدالت قتل انقلابی طلبہ تنظیم پر ریاستی بربریت کا تسلسل ہے۔ جبکہ تمام تر ریاستی کریک ڈاؤن کے باوجود بلوچ نوجوانوں کی سیاسی و انقلابی تربیت کسی جمود کے شکار نہیں ہوئے ریاست نے ہر ممکنہ کوشش کی ہے کہ بی ایس او آزاد کو تعلیمی اداروں سے دور رکھا جائے لیکن بی ایس او آزاد کے نظریاتی کارکنوں کی مستقل مزاجی نے ریاستی عزائم خاک میں ملادیئے ہیں۔ آج انتہائی ریاستی جبر کے باجود بی ایس او آزاد کے کارکنان بلوچ سماج میں نوجوانوں کی فکری و نظریاتی تربیت کرنے میں مصروف عمل ہے ان نوجوانوں کی فکری و نظریاتی جدوجہد کا ثمر بلوچ سماج میں سیاسی شعور پروان چڑنے کی صورت میں سامنے آرہے ہیں ۔
رہنماؤں نے کہا کہ سیاسی کارکنان کیلئے انقلابی تعلیم کی ضرورت جسم کیلئے خوراک کی ضرورت کے مانند ہے۔ بی ایس او آزاد کے کارکنان اپنی تمام ترتوجہ انقلابی تعلیم کے حصول پر رکھے کیونکہ جدوجہد کی فکری بالیدگی کی انحصار انقلابی تعلیم پر ہے کسی بھی تنظیم میں انقلابی تربیت کے ماحول میں جمود کی صورت میں سیاسی کارکنان کے ذہین ذنگ و آلود ہوجاتے ہیں جبکہ وہ تنظیمیں معیاری سوج و فکر پیدا کرنے میں ناکام ہوجاتے ہیں جہاں سیاسی کارکنان خوش فہمی جیسے خطرناک مرض میں مبتلا ہوجاتے ہیں ۔ انقلابی سوچ و فکر کے باعث سخت سے سخت تر حالات میں بھی جدوجہد کے تسلسل کے برقرار رکھنا یقیناًبی ایس او آزاد کیلئے کسی کامیابی سے کم نہیں اور یہ کامیابی کا سہرا براہراست بی ایس او آزاد کے کارکنان کی سر جاتا ہے لیکن بی ایس او آزاد کے کارکنان اپنے انقلابی اصولوں کے معیار کو برقرار رکھتے ہوئے سیاسی کینسر جیسے مرض خوش فہمی کو اپنے صفوں میں داخل ہونے سے روکھے رکھے اور انقلابی اصولوں کے مطابق تنظیم میں سیاسی رویے زیادہ سے زیادہ عام کیے جائے جبکہ بی ایس او آزاد کے کارکنان اپنے انقلابی کردار و عمل کے ذریعے عام بلوچ نوجوانوں میں قومی بقاء کے حوالے سے جستجو کے کلچر کو پروان چڑھانے میں زیادہ سے زیادہ کردار اداکریں اور اپنی انتھک محنت سے منظم سیاسی سماج کی تشکیل کیلئے ثابت قدمی کا مظاہرہ کریں۔
مرکزی رہنماوں نے عالمی و علاقائی سیاسی صورتحال پر بحث و مباحثہ کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کے حالات تیزی سے بدل رہے ہیں جس کی بنیادی وجہ عالمی معشیت پر ایک سے زیادہ قوتوں کا غالب آنا ہے ۔دنیا کے انتائی بااثر ممالک تلخ حقیقت تسلیم کرچکے ہیں کہ اب عالمی معشیت پر واحد راج کرنے کے تمام ممکنات بھی ختم ہوچکے ہیں اس لیئے اپنی معاشی پوزیشن کو مستحکم رکھنے اور ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی دوڑ میں تیسری دنیا کے ممالک کے کندھوں پر ہتھیار رکھ کر ایک دوسرے کے خلاف استعمال کیئے جارہے ہیں جس سے کمزور معشیت کے حامل ممالک کیلئے ریاستی بقاء کے مسئلے شدت کے ساتھ سامنے آرہے ہیں دوسری جانب چائنا کی عالمی معشیت میں اہم کھلاڑی کے طورپر سامنے آنے اور اپنی توسیع پسندانہ پالیسیوں کے تحت نئے نوآبادیاتی نظام کے اصولوں کو بروئے کار لاکر معاشی منصوبوں کی آڑ میں اپنے لیئے نئے کالونی بنانے جیسے منصوبوں پر باقاعدہ عمل درآمد شروع ہونے خاص کر بلوچستان میں سی پیک کی آڑ میں عسکری سرگرمیوں کیلئے راہموار کرنے سے اس خطے میں شدید بے چینی دیکھنے کو آرہی ہے جس کے اثرات امریکی خارجہ پالیسیوں میں پاکستان کے حوالے سے انتائی سخت موقف کے صورت میں سامنے آتے ہیں ۔امریکی خارجہ پالیسی میں بدلاؤ شائد عارضی طور پر سیاسی دباؤ کیلئے ہو لیکن یہ اس بات کی مکمل غمازی کرتے ہیں کہ چائنا اس خطے کو معاشی منصوبوں کی آڑ میں میں عسکری مفادات کیلئے براہراست استعمال میں لانے کی منصوبہ بندی کرچکا ہے جس کی واضح مثال حالیہ دنوں نیویارک ٹائمز میں جیونی نیول بیس کے حوالے سے شائع ہونے والا رپورٹ ہے (واضح رہے کہ بلوچ قومی آزادی کی جدوجہد کرنے والے تنظیم و پارٹیاں متعدد دفعہ اس خدشے کا اظہار کرچکے ہیں کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری مکمل عسکری منصوبہ ہے جس میں بلوچ سرزمین کی براہراست استحصال کیا جارہا ہے) چائنا کی سی پیک کے آڑ میں بلوچستان میں بطور عسکری طاقت موجود ہونا امریکہ کے افغان جنگ ، تیل کی دنیاکی اہم روٹ آبنائے ہرمز اوراس خطے میں اہم امریکی اتحادی بھارت کیلئے انتائی خطرناک ثابت ہوگا جو امریکہ کیلئے کسی بھی صورت قابل قبول نہیں ہے جبکہ امریکہ نے اس خطے میں اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے خطے کے حوالے پالیسیوں میں بنیادی تبدیلیاں لائی ہے جس کی واضح مثال افغانستان سے اپنے فوجیوں کے انخلاء کے برعکس ان کے تعداد میں مزید اضافہ کیا جارہا ہے جس کے سبب افغان جنگ میں تیزی لائی جارہی ہے ، دوسری جانب بھارت امریکہ سے قریب تر ہوتا جارہا ہے اور اس خطے اہم امریکی اتحادی کی صورت میں موجود ہے تیسری اہم نکات پاکستان کی عسکری امداد کی بندش اور پاکستان کو شدید دباؤ میں رکھناہے اس تمام تر صورتحال سے نتائج اخذ کیا جاتا ہے کہ چین اور امریکہ کے رسہ کشیوں کے درمیان بلوچستان کو اسٹریٹجک اہمیت حاصل ہے ۔دوسری جانب پاکستان چائنا کی امداد سے بلوچستان میں جاری بلوچ قومی آزادی کی تحریک کو کچلنے کیلئے اپنے بے رحمانہ کاروائیوں میں روز بہ روز تیزی لارہی ہے کیونکہ بلوچ قوم اپنے سرزمین پر اپنے منشاء کے بغیر جاری چائنا کی سامراجی منصوبوں کو اپنے قومی بقاء کا مسئلہ قرار دے رہے ہیں اور اس منصوبے کے سامنے مکمل رکاوٹ ہے جبکہ چائنا کی مدد سے پاکستان کی بلوچ قومی آزادی کے تحریک کی خلاف طاقت آزمائی کے باجود بلوچ قومی آزادی کی تحریک دنیا میں روز بہ روز پذیرائی حاصل کررہا ہے بلوچ قومی آزادی کے تحریک کی اس خطے میں اپنے آپ کو منوانے اور جدوجہد کے تسلسل کے برقرار رکھنے سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ دنیا کیلئے اسٹریٹجک اہمیت کا حامل خطہ بلوچستان میں بلوچ قوم کے منشاء و مرضی کے بغیر تمام تر بیرونی منصوبے ناکام ہونگے ۔
آخر میں گذشتہ پالیسیوں اور پروگرام کے نتائج کو مد نظر رکھ کر بلوچستان بھر میں تنظیم کو مزید فعال اور منظم رکھنے کیلئے
متعدد اہم فیصلے لیے گئے ۔