بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کی مرکزی ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں بلوچ و پختون طلباء پر مذہبی انتاء پسند تنظیم کی حملے کے مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ہم باراء اپنے خدشات کے اظہار کرچکے ہیں کہ بلوچ طلباء کیلئے تعلیمی دروازے دانستہ منصوبے کے تحت بند کیے جارہے ہیں۔ انتاء پسند طلباء تنظیم کی جانب سے اس قبل متعدد دفعہ بلوچ و پختون طلباء کو نشانہ بنایا گیا محکوم قوم کے طلباء پر متواتر پر تشدد حملے اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ ریاست بلوچستان سے باہر کے تعلیمی اداروں سے بلوچ و پختون طلباء کو باہر نکالنے کیلئے اس انتاء پسند تنظیم کے ذریعے طلباء کے گھیرا تنگ کیا جارہا ہے۔
ترجمان نے کہا کہ ہم اقوام متحدہ اور دنیا میں تعلیمی حقوق کیلئے سرگرم بین القوامی تنظیموں کو متعدد دفعہ اس سنگین مسئلے کی جانب متوجہ کرچکے ہیں کہ ریاست ایک طویل منصوبے کے تحت بلوچستان میں تعلیمی بحران پیدا کرنے کی کوشش کررہا ہے ریاست نے اس منصوبے کے ذریعے سب سے پہلے بلوچستان میں محکمہ تعلیم کو کرپٹ ترین ادارہ بنایا اقوام عالم کو دھوکہ دینے اور تعلیم کے نام پر دنیا سے فنڈ وصول کرنے کیلئے محکمہ کے نام کو استعمال کیا جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ بلوچستان میں 70فیصد سے زائد پرائمری اور سکینڈری اسکول گوسٹ ہے اور باقی تیس فیصد بھی نیم خستہ حالت میں موجود ہے تعلیم پر یلغارکرنے کیلئے دوسرے فیز میں بلوچستان کے جنگ زدہ علاقوں میں تعلیمی عمارتوں پر آرمی و ایف سی نے قبضے کرکے اپنے مورچے بنائے تیسرے فیز میں تمام کالجز اور یونیورسٹیوں میں سیکورٹی کے نام پر تعلیمی اداروں کے اندر اپنے کیمپ قائم کیے جن کا براہ راست مقصد بلوچستان کے تعلیمی اداروں میں خوف کا ماحول پیدا کرکے بلوچ طلباء کو آزادانہ تعلیم حاصل کرنے سے روکنا اور اپنے قومی حقوق کیلئے سرگرم طلباء کو براہ ر است نشانہ بنانا ہے جس پر باقاعدہ عمل درآمد2009ء سے شروع کیا گیا جو اب تک جاری ہے جس میں بلوچستان کے تعلیمی اداروں سے ہزاروں طلباء کو گرفتار کرکے لاپتہ کردیا اور بعد میں لاپتہ سینکڑوں طلباء کی مسخ شدہ لاشیں برآمد ہوئی اس خوف و جبر کے ماحول میں ہزاروں طلباء کے تعلیمی کیریئر برباد ہوئے
جبکہ تمام تر ریاستی ظلم و جبر کے باوجود بلوچ طلباء نے تعلیم حاصل کرنے کیلئے بلوچستان سے باہر کے تعلیمی اداروں کا رُخ کیا لیکن ریاست کو بلوچ طلباء کی تعلیم حاصل کرنا ہضم نہیں ہوا اس لیئے بلوچستان سے باہر کے تعلیمی اداروں میں بلوچ طلباء کو مسلسل نشانہ بنایا جارہا ہے اس واقعہ سے قبل متعدد فعہ پنجاب یونیورسٹی میں اس انتاء پسند طلباء تنظیم نے بلوچ و پختون طلباء کو نشانہ بنایا۔
گذشتہ سال دسمبر کے مہینے میں قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں بلوچ طلباء کو یونیورسٹی سے نکالاگیا، کراچی یونیورسٹی کے طالب علم اور انسانی حقوق کے سرگرم کارکن نواز عطاء کو دیگر آٹھ نوجوان اور کمسن طلباء کے ہمراہ گرفتار کرکے لاپتہ کردیا جو تاحال لاپتہ ہیں، کراچی یونیورسٹی کے طالب علم اور بی ایس او آزاد کے سی سی ممبر حسام بلوچ کو بی ایس او آزاد کے مرکزی سیکریٹری جنرل ثنااللہ بلوچ ، نصیر احمد، رفیق بلوچ کے ہمراہ گرفتار کرکے لاپتہ کردیے جو تمام کراچی میں زیر تعلیم تھے اور اب تک لاپتہ ہیں، ایک اور واقعہ میں کراچی یونیورسٹی کے کینٹین سے بلوچ طلباء صغیر احمد کو گرفتار کرکے لاپتہ کردیا جو تاحال لاپتہ ہے جبکہ ایک اور کاروائی میں کراچی یونیورسٹی کے تین بلوچ طلباء کوگرفتار کرکے لاپتہ کردیے زہنی و جسمانی تشدد کے بعد ان کو رہا کردیا۔
واضح رہے کہ یہ تمام واقعات گزشتہ دوماہ کے عرصے میں رونما ہوئے لیکن اقوام متحدہ کے ذیلی اداروں سمیت تعلیمی حقوق کیلئے سرگرم کسی بھی بین القوامی تنظیم نے اس سنگین مسئلے پر نوٹس نہیں لیا اور پاکستان کو مسلسل یونیسکو، یو ایس ایڈ اور دیگر بین القوامی تنظیموں اور ممالک کی جانب سے تعلیم کے نام پر فنڈ دیئے جارہے ہیں جو پاکستان جمعیت جیسے انتاء پسند تنظیم کی پرورش اور بلوچ طالب علموں کے خلاف استعمال کررہا ہے جس کی واضح مثال بلوچ طلباء کے خلا ف حالیہ ریاستی کاروائیاں ہیں ۔ترجمان نے آخر میں کہا کہ دنیا کے وہ تمام تنظیمیں و ممالک جو پاکستان کو تعلیم کے نام فنڈ جاری کررہے ہیں وہ اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کریں اور بلوچ طلباء کے تعلیمی کیریئر کو محفوظ بنانے کیلئے اپنے ذمہ داریوں کو ادا کریں ترجمان نے بلوچ طلباء سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ بلوچ و پختون طلباء ریاست کی شاطرانہ پالیسیوں سے اپنے آپ کو محفوظ رکھیں کسی بھی قسم کے ردعمل اور جذبایت سے مکمل گریز کریں اور اپنی تمام تر توجہ حصول تعلیم پر مرکوز رکھیں ۔