مقبوضہ بلوچستان کے نو منتخب وزیر اعلی قدوس بزنجو نے اپنے انتخاب کے بعد حسب روایت تقریب میں بلوچ جہدکاروں کو بالعموم اور ڈاکٹر اللہ نذر کو بالخصوص یہ پیغام دیا کہ وہ آزاد بلوچ ریاست کی جدوجہد کو ترک کرتے ہوئے طوق غلامی کو قبول کرلیں۔
اس طوق غلامی کو نام نہاد قومی دہارے کا نام دیا جارہا ہے اور مزید یہ بھی کہ خدشات دور کیے جائینگے اور ضرورت پڑنے پر آئینی ترمیم بھی کی جائیگی۔
یہ ریاستی بیانیہ واضح اشارہ کرتا ہے کہ قدوس بزنجو اپنے منتخب کرنے والی قوت کو متاثر کرنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن وہ پہلے شخص نہیں اس سے پہلے بھی مختلف شخصیات اس عہدے پر براجمان رہ چکے ہیں جنہوں نے ابتداء میں دلاسہ پھر بعد میں دھمکی سے بلوچ تحریک سے دستبردار کرانے کی کوشش کی حالانکہ بلوچ قومی جدوجہد کسی فرد یا گروہ کا ایڈونچرازم نہیں بلکہ ایک تاریخی حقیقت ہے جو تسلسل کے ساتھ رواں دواں ہے۔
جہدکاروں کے ہتھیار ڈالنے کا ڈرامہ تو جام یوسف صاحب کے دور سے جاری ہے اور اگر اس دور سے لے کر آج تک قدوس بزنجو کے حالیہ 200 سرمچاروں کے ہتھیار ڈالنے تک کے اعداد و شمار کو اکھٹا کیا جائے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ جھوٹ بولنے میں کم از کم مہارت حاصل ہوئی ہے، اب انکا جھوٹ چوکھٹ تک پہنچ جاتا ہے پہلے یہ چھوکٹ تک پہنچنے سے پہلے ہی پکڑا جاتا تھا۔
نیشنل پارٹی کے دور حکومت اور پھر ن لیگ اور اب قدوس بزنجو کے دور میں ان ڈراموں کا مقصد ذاتی قبولیت حاصل کرنے کا رجحان زیادہ ہے، منظور نظر بننے کے لیے اس طرح کے ڈراموں کا رجحان زیادہ ہی منظر عام پر ہے۔
جس قومی دھارے کی بات کی جارہی ہے دراصل وہ قومی دھارا طوق غلامی کو چوم کر پہن لینے کے علاوہ اور کچھ نہیں یعنی جدوجہد سے دستبردار ہونے کے معنی قومی دھارا میں شامل ہونا قرار پایا۔
جو لوگ اس نام نہاد قومی دھارے میں شامل ہیں ان کا کیا کردار ہے؟
انہوں نے بلوچ قوم کو دھوکے کے سوا اور کیا دیا ہے؟ کیا اسی قومی دھارے کے دعویداروں نے جو جھوٹے وعدے کیے ان میں سے ایک بھی مکمل ہوا؟ کل تک جب یہ اقتدار میں نہیں تھے تب کہتے تھے ہم جمہوری طور پر جدوجہد کو سپورٹ کرینگے، مسنگ پرسنز کا معاملہ حل کرینگے لیکن جب یہی ایوانوں تک پہنچے تب ان کے دور میں اجتماعی قبریں دریافت ہونا شروع ہوگئی اور یہ بالکل واضح طور پر بلوچ تحریک کے مدمقابل کھڑے ہوگئے، یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ بلوچ تحریک کیخلاف پالیسی بنانے میں نیشنل پارٹی نے کلیدی کردار ادا کیا اور اپنے ماضی کے جھوٹے وعدوں کے برعکس مکمل طور پر ریاستی آلہ کار بن گئے۔ اس قومی دھارے کا مطلب ہی نوآبادکار کا نمائندہ بننا ہے۔
بلوچ ایک قوم ہے اور بلوچ جہدکار بلوچ قومی آزادی کے لیے جدوجہد کررہے ہیں، اصل۔قومی دھارا تو بلوچ نیشنلزم کی جدوجہد ہے جو بلوچ قوم بلوچ گلزمین سے وابستہ ہے اور اس کا مستقبل غلامی کی بجائے ایک آزاد ریاست کا قیام ہے جہاں بلوچ قوم آزادی انسانی اقدار و آسودگی سے رہ سکے اور اپنی صلاحتیں دور جدید کے مطابق استعمال کرسکے۔
بلوچ جہدکار چند جذباتی نوجوان نہیں بلکہ مادر وطن کے وہ باشعور فرزند ہیں جنہوں نے چند ذاتی آسائشوں و گروہی مفادات کی بجائے بلوچ قوم کے نجات کا کھٹن راستہ چنا ہے اور ان کے اس قومی دھارے میں شامل ہونے والے ان کے نظریے سے ،کردار سے شعوری طور پر متاثر ہوکر اس جدوجہد کا حصہ بنے ہیں۔ آج ڈاکٹر اللہ نذر اور استاد اسلم بلوچ جیسے کردار بلوچ جہدکاروں کے رہنمائی کررہے ہیں تو اس کے لیے انہیں کسی طاقت کی سرپرستی حاصل نہیں اور نہ ہی چند سو ووٹ لے کر وہ اس مقام تک پہنچے ہیں بلکہ جہد مسلسل نے انہیں یہ مقام دیا ہے اور بلوچ قوم خاص کر باشعور بلوچ نوجوان ان سے شعوری تعلق رکھتے ہیں اور خود کو ان کے قومی دھارے کا حصہ سمجھتے ہیں۔
جہاں تک بات رہی تحفظات و خدشات کی تو قدوس بزنجو صاحب غلامی ہمارا سب سے بڑا تحفظ و خدشہ ہے اور اس کے بغیر تمام تحفظات ثانوی حیثیت اختیار کر جاتے ہیں کیونکہ پچھلے ستاسٹھ سالوں سے بلوچ قوم نے اس ریاست سے ماسوائے دکھ اور اذیتوں کے کچھ بھی حاصل نہیں کیا اور آج جب ایک جانب آپ قابض ریاست کو ماں کا درجہ دے کر تحفظات دور کرنے کا کہہ رہے تھے تب ہی دوسری جانب پنجاب کے یونیورسٹی میں دو سو کے قریب بلوچ پشتون طالب علموں کو انسداد دہشتگردی کے عدالت میں پیش کیے جانے کا فیصلہ کیا جارہا تھا۔
زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں پچھلے پانچ سال کے تجربات واضح کرتے ہیں کہ سی پیک کے اعلان کے بعد بلوچ کے لیے ساحل پر پینے کا پانی تک نہیں کیونکہ جب بلوچ پیاسا ہوکر اپنے علاقوں سے نقل مکانی شروع کریگا تب توسیع پسندانہ عزائم کے تحت نوآبادکاری ہوگی اور بلوچ قوم کو اقلیت میں تبدیل کردیا جائیگا۔ لیکن بلوچ جدوجہد آزادی ان تمام منصوبوں کی راہ میں حائل رکاوٹ ہے اور کامیابی کے ساتھ اپنے منزل مقصود کی جانب رواں دواں ہے۔