بلوچ اور پشتون طلبا پر تشدد پاکستانی کی اخلاقی دیوالیہ پن کااظہار ہے ۔بی این ایم

228

 بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی ترجمان نے اپنے بیان میں پنجاب میں بلوچ اور پشتون طلبا پر تشدد کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ آج لاہور کے پنجاب یونیورسٹی میں جماعت اسلامی کے طلباء ونگ اسلامی جمعیت طلبا نے بلوچ اور پشتون طلبا پر تشدد کرکے غلامی کابھرپوراحساس دلایاہے۔یہ وہی جماعت اسلامی ہے جس نے بنگلہ دیش میں الشمس اورالبدرکے ذریعے بنگالی عوام کی نسل کشی میں جنگی جرائم کاارتکاب کیا اورآج تک ان کے لیڈران جرائم پرسولی پر لٹکتے جارہے ہیں۔ پاکستانی فوج کے ایک معاون اورپراکسی طاقت کے طورپربلوچ قوم کے ساتھ وہی عمل دُہرا رہاہے جس نے بنگلہ دیش سرانجام دئے تھے، یقیناًان اعمال کا نتیجہ بھی بنگلہ دیش سے مختلف نہیں ہوگا۔ قابض اسٹبلشمنٹ اور اس کے آلہ کار محکوم و مظلوم قوموں کا مختلف طریقوں سے استحصال کرتے ہیں، چاہے وہ معاشی ہو یا تعلیمی۔ پنجاب یونیورسٹی لاہور، اسلام آباد یونیورسٹی اور کراچی یونیورسٹی کے واقعات ہوں یا بلوچستان میں تعلیمی اداروں پر فوج کا قبضہ، سب ان کی دلیل اور ثبوت ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں تعلیم کی زبوں حالی کو دیکھ کر بلوچستان کے طلبا نے جب، سندھ، پنجاب اور اسلام آباد کا رخ کرنا شروع کیاتو وہاں انہیں مختلف حیلہ بہانوں سے بھگانے اور تعلیم ادھوری چھوڑنے پر مجبور کیا جانے لگا۔ دو مہینے پہلے اسلام آباد یونیورسٹی سے بلوچ طلبا کو بلاوجہ معطل کرکے پچیس دن کی تادم مرگ بھوک ہڑتال پر مجبور کیا گیا۔ کوئی کسی کی پچیس دن کی پرامن احتجاج پر آنکھیں بند کرے تو یقیناًاسے آقا اور غلام کا رشتہ کہا جاتا ہے۔ آج بلوچ طلباکے ساتھ ساتھ پشتون طلبابھی تشددکا نشانہ بن گئے مگرافسوس اس بات کی ہے کہ پختون لیڈرشپ اپنی قومی غلامی کا احساس اورادراک کرکے کب اپنی قوم کو پاکستان کی غلامی سے نجات کے راستے پر گامزن کریں گے ۔تاریخی حقائق کا تقاضایہی ہے کہ پشتون قوم کو بھی اس کا احساس ہونا چاہئے اور پاکستان سے نجات کا راستہ اختیار کرنا چاہئے۔
مرکزی ترجمان نے کہا کہ کراچی یونیورسٹی کے کینٹین سے صغیر بلوچ، کراچی یونیورسٹی کے طلباء حسام بلوچ اور نواز عطا کی سندھ رینجرز اور خفیہ اداروں کے ہاتھوں اغواء اور لاپتہ ہونا بھی اسی سلسلے کی کڑی ہیں۔ اسی طرح کراچی یونیورسٹی سے ممتاز ساجدی کو بھائی اور ساتھی سمیت اغوا کرکے تین دن بد ترین تشدد کے بعد چھوڑ دیا گیا۔ یہ تمام واقعات دو مہینے کے دوران رونما ہوئے ہیں۔ بلوچوں کو تعلیم سے دور رکھنے کی پالیسی کا مقصد بلوچ قوم کو تعلیم سے بھی محروم کرنا ہے۔ جوتعلیم دی جارہی ہے وہ بھی حقیقی معنوں میں نوآبادیاتی تعلیم ہے جو عالم نہیں محض ہنرمند افراد پیداکرتا ہے۔ بلوچ طلباء پورے خطے میں علمی لگاؤ،جستجو اورمطالعے میں سب سے آگے ہیں۔ انہیں اپنی قومی غلامی کا بھرپور احساس ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قابض پاکستان کے لئے یہ نو آبادیاتی تعلیم بھی ناقابل برداشت بن گئی ہے کیونکہ پاکستان کوخدشہ ہے کہ اس سے بلوچ قومی تحریک کو نئی توانائی اوراہل افراد میسرآتے ہیں ۔
مرکزی ترجمان نے کہا کہ آج لاہور میں اسلامی پسند تنظیم کی جانب سے بلوچ اور پشتون طلبا پر حملہ اور پنجاب اور زندہ دلاں لاہور کی خاموشی نے سب راز آشکار کئے ہیں۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے ویڈیوز میں واضح اندازمیں دیکھا جاسکتا ہے کہ ایک منظم طریقے سے ایک بلوچ طالب کو کیمپس کے سامنے پانچ چھ ڈنڈا بردار زمین پر لٹا کر تشدد کا نشانہ بنا رہے ہیں اور زندہ دلان لاہور تماشا دیکھ کراس امر پر پرمہرتصدیق ثبت کررہے ہیں کہ آقاکے سامنے غلام کی حیثیت کیاہوتی ہے ؟ بنگلہ دیش سے لیکر آج تک جماعت اسلامی اور اس کی طلبا ونگ ریاستی ایماء پرمحکوموں کے خلاف بر سر پیکار ہیں ۔دوسری طرف میڈیا کی خاموشی سے دنیااورپاکستان میں دیگرمحکوم اقوام بھی بلوچ قوم پر ہونے والے مظالم سے ناواقف ہیں۔ آج یہ ثابت ہواہے کہ پاکستانی میڈیا بھی ریاستی دہشت گردی کے خلاف آنکھیں بند کرکے ان جرائم میں شریک کاربن چکاہے۔