بلوچستان میں حکومتی اختلافات شدت اختیار کرگئے

357

بلوچستان میں حکومتی اختلافات شدت اختیار کر گئے،14منحرف اراکین اسمبلی کی جانب سے وزیر اعلیٰ  کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا درخواست اسمبلی سیکرٹریٹ میں جمع کرا دی گئی۔

ذرائع کے مطابق بلوچستان اسمبلی کے 14 اراکین کی جانب سے وزیراعلیٰ  کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک جمع کرائی ہے جن میں پاکستان مسلم لیگ(ق)کے میر عبدالقدوس بزنجو ،میر عبدالکریم نوشیروانی ،میر خالد لانگو ،میر امان اللہ نوتیزئی ،،نواب زادہ طارق مگسی سرداراخترجان مینگل ،میر حمل کلمتی ،خلیل الرحمن دمڑ ،عبدالمالک کاکڑ، زمرک خان اچکزئی ، خواتین اراکین اسمبلی رقیہ ہاشمی ،شاہدہ رؤف اور حسن بانو شامل ہیں .

 اراکین اسمبلی نے تحریک عدم اعتماد کے درخواست پر دستخط بھی کئے ہیں .

سابق ڈپٹی اسپیکر قدوس بزنجو نے درخواست جمع کرانے کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں فنڈرز کی تقسیم اور استعمال کا طریقہ کار غیر مناسب ہے، بجٹ اجلاس میں بھی شرکت نہیں کرنا چاہتے تھے مگر وزیر اعلی کی یقین دہانی پر شرکت کی تاہم وزیر اعلی نے تحفظات دور نہ کئے۔

انہوں نے کہا اسپیکر اسمبلی راحیلہ درانی سے درخواست کرتے ہیں کہ ووٹنگ کے لیے جلد از جلد اسمبلی اجلاس طلب کیا جائے۔وزیر اعلی بلوچستان نے تحریک عدم اعتماد کی درخواست کے بعد اتحادیوں کا اجلاس طلب کر لیا۔

اجلاس کا مقصد اتحادیوں کو اعتماد میں لینا ہے۔

نیشنل پارٹی کے ڈاکٹر مالک اور پشتونخوا میپ کے پارلیمانی لیڈر رحیم زیار توال بھی کوئٹہ پہنچ گئے۔

دوسرری جانب اسمبلی کے اپوزیشن جماعتوں نے بھی اجلاس طلب کر لیا۔ اجلاس میں 14 منحرف اراکین اسمبلی بھی شرکت کرئینگے۔ بلوچستان کے 65 رکنی ایوان میں مسلم لیگ ق کی 5، پشتونخوا میپ کی 14، نیشنل پارٹی کی 10 اور مسلم لیگ نون کی 23 نشستیں ہیں۔ مسلم لیگ نون، پشتونخوا، نیشنل پارٹی اور مسلم لیگ ق اتحادی ہیں۔

ایوان میں مجلس وحدت المسلمین کی ایک نشست ہے۔ جمعیت 8 نشستوں کے ساتھ اپوزیشن کی بڑی جماعت ہے، اپوزیشن میں بلوچستان نیشنل پارٹی کی 2اور اے این پی کی ایک نشست ہے۔

تحریک عدم اعتماد کی درخواست جمع کرانے والے اراکین کو اسمبلی سے دو تہائی اکثریت کا ووٹ حاصل کرنا ہو گا۔ اپوزیشن اور اتحادی دونوں کی جانب سے اکثریت کی حمایت حاصل ہونے کا دعوی کیا جا رہا ہے۔