لاول زرداری ہے بھٹو نہی
تحریر: نادر بلوچ
بلوچ قوم کی ماضی میں قبائلی جائزہ لیا جائے تو بلوچ قوم سینکڑوں قبائل پر مشتمل ہے قبائلی نظام میں رہ کر قدیم زمانہ میں بلوچ قوم نے اپنے اجتعماعی مفادات حاصل کیے۔
قبضہ گیر ریاست نے حکمت عملی کے زریعے بلوچ اکثریتی علاقوں کو سندھ اور پنجاب میں تقسیم کیاتاکہ قبائلی نظام میں اجتماعی مفادات کی موجودسوچ کو کمزور یا ختم کیا جاسکے اور بلوچ قومی آزادی کی تحریک کو روکا جاسکے
ایوب خان کے دور میں ون یونٹ کو بنگلیوں کےخلاف پاکستانی و پنجابی اسٹبلیشمنٹ نےاستعمال کرنے کی ناکام کوشیش کی اور آخر کار انجام پاکستانی دو قومی نظریہ کی تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا۔اس صدمہ سے نکلنے اورآنے والے انجام سے بچنے کے لیے بلوچ قوم کو تقسیم کرنے کی حکمت عملی کے زریعہ بلوچ علاقوں کو سندھ اور پنجاب میں شامل کیا گیا تاکہ قومی تحریکوں کو کمزور کرنے کی کے لیے کارآمد ہو۔ دراصل اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔
اس عمل سے سرکار کو کافی عرصہ تک جان چھڑانے میں مدد ملی خوش قسمتی سے ابھی تک بلوچ قوم کبھی ان سرحدوں کو تسلیم نہیں کرتی۔
بنگال کی آزادی کے بعد پہلے سے جاری بلوچستان کی تحریک آزادی کوزور پکڑنے سے روکنے اور بلوچ اور سندھی تحریک آزادی اور بلوچ اور سندھی اتحاد کو روکنے کے لیے بھٹو کو اس شرط پہ پنجاب نے حکومت دی تاکہ سندھی کارڈ کو بلوچ قومی آزادی اور سندھ کی آزادی کے خلاف استعمال کیا جائے۔
اس اقدام سے پنجاب کو کافی فائدہ ہوا ایک تو مشرقی پاکستان جو کہ پنجاب کی جبر کی وجہ سے بنگلہ دیش بنا،لیکن اسکا ملبہ سندھ سے تعلق رکھنے والے بھٹو پر ڈالی گئی جسکی جھلک آج بھی پنجابی دانشوروں کی تحریروں میں بھٹو کو لعنت ملامت کرنے پر ملتی ہے۔
بحثیت سیاسی کارکن یہی سمجا ہوں کہ بالادست طبقہ ہمیشہ اپنی پالیسیوں میں ردوبدل کرتی رہتی ہے کیوںکہ ناکامی انکی مقدر ہوتی ہے۔پنجاب نے پیپلزپارٹی کو خوب استعمال کیابلوچستان میں آپریشن کیاسندھ سرحد کی قوم پرستوں کو گرفتار کیا۔
زرداری قبیلہ سندھ میں نوابشاہ اور گرد و نواح میں آباد ہیں۔
اسی قبیلہ سے تعلق رکھنے والے حاکم علی زرداری ہیں جنکا گھرانہ سیاسی حوالے سے سندھ کی پارلیمانی سیاست میں کردار رہا ہے۔حاکم علی زرداری پیپلزپارٹی میں شامل ہوئے اور ذولفقار بھٹو سے قریب رہے ہیں۔
حاکم علی زرداری نے پیپلزپارٹی سے بلوچستان آپریشن اور سندھ میں علی بخش تالپور کی تھردیش کی سازش کیس میں گرفتاری کے خلاف پیپلرپارٹی سے مستعفی ہوئے۔حاکم علی زرداری پنجابی بالادستی کے خلاف کھلم کھلا بولتے رہے ہیں اور پاکستانی سیاست سے نالاں رہے،وہ اس بات کے قائل رہے کہ پاکستان میں آئی ایس آئی کے کردار سے پاکستان میں الیکشن نہین بلکہ سلکیشن سے کام لی جاتی ہے۔
انہوں نے اپنے ایک انٹرویو میں کہاکہ پنجاب اور پاکستانی جنرل اور فوج پاکستان کو پہلے بھی تھوڑ چکے ہیں اور اب کی باربھی یہ پاکستانی فوج اور اہجنسیاں وجہ بنیں گی۔مرتضیٰ بھٹو کے قتل کے حوالے سے حاکم علی زرداری کھلم کھلا کہتے ہیں کہ آئی ایس آئی نے ہی مرتضیٰ بھٹو کو واپس بلایا اور پھر قتل کروایااور بینظر کو یہ سب پتہ تھاکہ مرتضیٰ کو ایجنسیوں نے قتل کیا۔
حاکم علی زرداری کے فرزندآصف علی زرداری بلوچ (قارئین سے معذرت آصف کو بلوچ لکھنے کے لیے لیکن یہ ایک ناقص کوشش ہے کہ ماضی اور حال کی ربط کو جوڑ سکیں) اس وقت سندھی بھٹو کی پاکستان پیپلزپارٹی کے کو چیرمین ہیں۔
بلوچ قومی تحریک کی حالیہ دور سن دو ہزار میں شروع ہوتی ہے سائنسی طور پر تحریک سابقہ تجربات کو مد نظر رکھ کر مختلف شکل میں نمودار ہوتی ہے جو انتہائی مضبوط شکل اختیار کرتی جاتی ہے طلباءسیاست میں بی ایس او ڈاکٹرﷲ نظر کی قیادت میں میدان عمل میں آکر طلباوطلبات کوجہد آذادی میں اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کا موقع فراہم کرتی ہے۔
بی این ایم شہید غلام محمد کی قیادت میں پارلیمانی سیاست کو خِیر باد کہہ کر تحریک آذادی میں متحرک کردار ادا کرکے سیاسی آواز کو مضبوط بنانے کے لیے آواز بلند کرتی ہے۔
شہید بالاچ مری کے خلوص اور قائدانہ کردار کی وجہ سے دوہزار پانچ میں نواب اکبر بگٹی شہید کا تحریک میں باقائدہ حصہ بننے سے تحریک آزادی کو نئی روح ملی اور شورش میں اضافہ ہوا۔
اس میں شدت مشرف دور میں نواب اکبر بگٹی کی شہادت کے بعد تحریک کو بین الااقوامی سطح پر پزیرائی ملی۔
ریاست پاکستان کی بھر پور طاقت کے استعمال کے باوجود بلوچستان کی تحریک آزادی زور پکڑتی ہے ریاست پھر سے نئی پالیسی بناکر بیںظر کو آصف زرداری کی گارنٹی کے ساتھ واپس لای جاتی ہے اور بینظیر کراچی میں سردار خِیر بخش مری سے ملاقات کرتی ہے جس میں بلوچ تحریک کے سرخیل سردار خیر بخش مری محترمہ کو واپس آنے پہ تشویش کا اظہار کرتے ہیں اور اپنے وسعی تجربہ کی بنیاد پر محترمہ کو محتاط کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تم کو بھی تمھاری والد اور بھائیوں کی طرح مار دیں گے یہ لوگ ،بینظیر اپنے والد کے دور میں بلوچستان میں آپریشن کرنے کی غلطی پر معافی مانگ کر بلوچستان میں جاری تحریک کی حقیقت کا اقرار کرتی ہیں اور سیاسی حل پر زور دیتی ہیں اور پنجاب کی طرف نکل جاتی ہیں اور بھٹو کی بیٹی الیکشن مہم کے دوران راولپنڈی میں قتل کردی جاتی ہے۔
یاد رہے ریاست اپنی پالسیی پر عمل پیرا ہے اور آصف زرداری نمودار ہوتے ہیں جو پاکستانی جیلوں میں ایک طویل عرصہ تک گزار چکے ہیں اس دوران ان پر تشدد کی خبریں بھی تھی مقدمات ختم ہوتے ہیں بےنظیر کی قتل کے بعد اچانک پاکستان کپے کپےکا نعرہ لگاتے ہیں حالانکہ بلوچستان کے علاوہ کوئی آزادی کی تحریک باقائدہ قوت وجود نہیں رکھتی تھِی، آصف ذرداری پیپلزپارٹی کے صدر بنتے ہیں جو پارٹی کی پہلی حکومت ہوتی ہے جو پہلی بار اپنی مدت پوری کرتی ہے حالانکہ پارٹی کے بانی کی حکومت کو مارشلاءکے ذریعے ختم کی جاتی ہے اور زولفقار بھٹو کو پھانسی دی گئی۔ بلوچ روایت کو جانتے ہوئے بھی بلاول بختاور آصفہ کو زرداری اور بلوچ کی بجائے بھٹوکا نام دیتے ہیں اور قوم پرستوں میں ایک نیا لفظ معتارف کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔اس دوران بلوچستان میں ریاستی جبر جاری رہتی ہے۔دوسری جانب بلوچ آزادی پسند اپنی کوشیش جاری رکھ کر براہمداغ بگٹی کے قیادت میں بلوچ ریپلیکن پارٹی کا قیام عمل میں لاکر تحریک کو مزید منظم کر کے توانائی فراہم کرتے ہیں، سنگت حیر بیار اپنے ساتھیوں کے ہمراہ اہف بی ایم کی قیادت کر رہے ہیں تحریک اپنے منزل کی جانب رواں دواں ہے میر جاوید مینگل کی کوششوں سے ورلڈ بلوچ آرگناہزہشن کا قیام عمل میں آچکی ہے جسکی جانب سے عالمی سطح پر فری بلوچستان مہم کافی پزیرائی کا سبب بن رہی ہے اور عہد کر چکی ہے کہ دوسری آزادی پسند پارٹیوں تنظیموں سیاسی کارکنوں اور بلوچ عوام کی مدد و کمک کے ساتھ بلوچ شہداء کی آرمانوں کو پورا کیا جائے گا۔
بلوچ وطن کی ایک انچ اور ایک ایک فرد کے ننگ و ناموس کیدفاع کرنے کا عزم کر چکی ہے۔
آصف زرداری اس حقیقت کو سمجھیں کہ قومیں لیڈر پیدا بھی کرتی ہیں اور انکی دفاع کرنا بھی جانتی ہیں پانچ سو ووٹ لینے والوں کے زریعے نہ یہ تحریک چل رہی ہے اور نہ روک سکتی ہے، یہ دو ریاستی مسئلہ ہے اس میں نہ خود کو گسیٹو نہ اپنے دوستوں کو باقی اپنا کاروبار جاری رکھو جس میں تم ماہر ہو۔فیصلہ قارئین پہ چھوڑتے ہیں جو انکا بنیادی حق بھی ہے کہ اس دو ریاستوں کی جنگ میں کس کا پلڑا بھاری ہوتا جارہا ہے ریاست کیسے مہرہ استعمال کر کےاپنی مکرو عزائم کو پورا کرنے کی کوشش کرتی ہے