یورپی یونین کی بیرونی پالیسی کی سربراہ، فریڈریکا مغیرنی نے کہا ہے کہ ایران کے جوہری پروگرام پر ہونے والا بین الاقوامی سمجھوتا کارگر ہے، جب کہ ایران کی جانب سے بیلسٹک میزائل تشکیل دینے اور دیگر سرگرمیوں پر مشرق وسطیٰ میں تشویش پائی جاتی ہے، جس معاملے کو علیحدہ طور پر دیکھا جانا چاہیئے۔
اُنھوں نے یہ بات جمعرات کو برسلز میں برطانیہ، فرانس، جرمنی اور ایران کے وزرائے خارجہ کے اجلاس کے بعد کہی، جس میں 2015ء کے سمجھوتے کو زیر بحث لایا گیا، جس کے تحت ایران کے جوہری پروگرام کو محدود کیا گیا تھا؛ اس تشویش کے ساتھ کہ ایران جوہری ہتھیاروں کی تیاری پر کام کر رہا ہے۔ سمجھوتے کے نتیجے میں ایران پر لاگو مالیاتی تعزیرات میں نرمی برتی گئی۔
ایران کہتا آیا ہے کہ اُس کا جوہری پروگرام محض پُرامن نوعیت کا ہے۔ اخباری نمائندوں کے سوالوں کے جواب دینے کے لیے دیگر سفارت کاروں کے ہمراہ، ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف موجود نہیں تھے، جب کہ بدھ کے روز اُنھوں نے سمجھوتے کی حمایت جاری رکھنے میں دل چسپی کا اظہار کیا، ساتھ ہی امریکہ پر الزام لگایا کہ وہ ’’تباہ کُن پالیسیوں پر عمل پیرا ہے‘‘۔
مغیرنی نے کہا کہ معاہدے کے نتیجے میں ایران کے ساتھ تمام معاملات پر قریبی تعاون اور مکالمہ جاری رکھنے کی صورت نکلی؛ اور اُنھوں نے اس کامیابی کو برقرار رکھنے کی ضرورت پر زور دیا۔
بقول اُن کے، ’’بین الاقوامی برادری میں اتحاد لازم ہے، تاکہ سمجھوتے کا تحفظ ہو سکے، جو کام کر رہا ہے، جس کے باعث دنیا محفوظ ہے، اور جس سے خطے میں ممکنہ جوہری ہتھیاروں کی دوڑ رُکی ہوئی ہے؛ اور ہمیں توقع ہے کہ تمام فریق اس سمجھوتے پر مکمل عمل درآمد جاری رکھیں گے‘‘۔
فرانسیسی وزیر خارجہ ژان وزلے ریان نے کہا ہےکہ جوہری معاہدے کے تمام فریق کو ایک دوسرے کی عزت کرنی چاہیئے، جس میں امریکہ شامل ہے، جو اُس گروپ کا حصہ رہا ہے جس میں برطانیہ، چین، فرانس، روس اور جرمنی شامل تھے، جنھوں نے سمجھوتے پر مذاکرات میں حصہ لیا تھا۔
برطانوی وزیر خارجہ بورس جانسن نے کہا کہ یہ بات اہم ہے کہ سمجھوتے، ’جوائنٹ کمپریہنسو پلان آف ایکشن‘ کے لیے ’’دنیا بھر میں حمایت‘‘ میں اضافہ کیا جائے؛ اور ایران کو موقع دیا جائے کہ وہ ’’خطے کا ایک اچھا ملک ہے‘‘۔