ایران کے سرکاری میڈیا کا کہنا ہے کہ ملک کے مختلف علاقوں میں گزشتہ ایک ہفتے سے جاری پُرتشدد مظاہرے دارالحکومت تہران تک پہنچ چکے ہیں جبکہ پولیس اور سیکیورٹی اہلکاروں کے ساتھ جھڑپوں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 12 ہوگئی۔
امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کی رپورٹ میں ایرانی سرکاری ٹی وی کے حوالے سے کہا گیا کہ ایران میں پُر تشدد مظاہروں میں مزید 8 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
ایک مقامی ایران کے رکن اسمبلی ہدایت اللہ خادمی کا کہنا تھا کہ مظاہرین اور سیکیورٹی فورسز کے درمیان تازہ جھڑپوں میں 2 مزید لوگ مارے گئے تھے۔
ایرانی سرکاری ٹی وی کے مطابق مسلح مظاہرین نے ایزا شہر میں فوجی بیس اور پولیس اسٹیشن پر قبضہ کرنے کی کوشش کی جہاں انہیں سیکیورٹی فورسز کی جانب سے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا جس کے بعد مظاہرین اور سیکیورٹی اہلکاروں کے درمیان جھڑپ بھی ہوئی۔
خیال رہے کہ شاہانہ طرز زندگی کے خلاف جمعرات (28 دسمبر کو) مشہد میں مظاہروں کا آغاز ہوا تھا جو جلد ہی حکومت مخالف مظاہروں میں تبدیل ہوگئے تھے۔
ایرانی حکومت کی جانب سے غیر قانونی اجتماعات پر تنبیہ کیے جانے کے باوجود ملک بھر میں جاری پُر تشدد مظاہروں کے دوران 30 دسمبر کو 2 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
ادھر ایک اسرائیلی وزیر نے اپنی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ امید کرتے ہیں کہ ایران میں بڑے پیمانے پر جاری مظاہروں میں لوگ حکومت کے خلاف کامیاب ہو جائیں گے۔
اے پی کے مطابق اسرائیل کے ایک وزیر یزرائیل کاٹز نے مقامی ریڈیو انٹرویو کو دیتے ہوئے کہا ’اسرائیل اس معاملے میں اپنے آپ کو ملوث نہیں کر رہا تاہم میری خواہش ہے ایران کے عوام اپنی آزادی اور جمہوریت کے لیے اس جدوجہد میں کامیاب ہوجائیں۔
خیال رہے کہ اسرائیل کافی عرصے سے ایران کو اس کے ایٹمی پروگرام، ایران کی مشرقِ وسطیٰ میں عسکریت پسندوں کی حمایت اور ایرانی رہنماؤں کی جانب سے اسرائیل کو ختم کر دینے کی دھمکی کی وجہ سے اپنی سلامتی کے لیے خطرہ تصور کرتا ہے۔
تاہم ایران کی جانب سے ہمیشہ اسرائیل، امریکی اور برطانیہ پر اس کے داخلی معاملات میں مداخلت کرنے اور حکومت گرانے کا الزام عائد کیا جاتا رہا ہے۔