اگر نقیب بلوچ ہوتا؟
دی بلوچستان پوسٹ رپورٹ
بہزاد دیدگ بلوچ
گذشتہ ایک ہفتے سے سوشل میڈیا پر ایک خوبرو پشتون نوجوان نقیب محسود کی تصویریں گردش کرتی نظر آرہی ہیں، پہلی نظر میں یہ تاثر ابھرتا ہے کہ شاید باقی ماڈلز کی طرح لوگ اس ماڈل سے بھی متاثر ہوکر اسکا تصویر اپنے وال پر سجارہے ہیں، لیکن پھر ساتھ لکھے الفاظ ، اسی خوبرو نوجوان کی اوندھے منہ پڑی لاش اور ساتھ میں ریاستیوں بمقابلہ لبرلوں و قومپرستوں کا اس لاش پر شہید یا دہشتگرد ہونے پر تکرار ، جلد ہی بطور بلوچ آپ کو یہ سمھجنے میں دیر نہیں کراتی کہ اصل معاملہ کیا ہے، کیونکہ ہر بلوچ کے کندھے پر کسی نا کسی خوبرو نقیب محسود کے جنازے کو کندھا دینے کے بعد نیل نشانات ایسے پڑے ہیں کہ وہ تاابد مِٹنے سے رہے اور وہی نشانات اسکے شعور کو ایسے منور کیئے ہوئے ہیں کہ جب بھی جہاں بھی وہ کوئی لاوارث لاش دیکھ لیتا ہے، وہ فوراً سمجھ لیتا ہے کہ اسکا گناہ کیا تھا اور مارنے والے کے جوتوں کے نشان کس طرف جائینگے۔ بس فرق یہ ہے کہ بلوچ نے گلہ کرنا اور چیخنا چھوڑ دیا ہے۔
نسیم اللہ محسود عرف نقیب محسود 3جنوری کو شیر آغا ہوٹل سہراب گوٹھ کے مقام سے لاپتہ ہوجاتے ہیں ۔اس کے خاندان والے پولیس کے پاس جاتے ہیں اور گناہ دریافت کرتے ہیں ، لیکن کچھ جواب نہیں ملتا ہے، یہ چکر کاٹتے رہے اور پو لیس ٹا لتی رہی۔ 13 جنوری کو پو لیس مقابلہ کی خبریں آئیں ، جس کی تصویریں جاری ہو ئیں ، ایک تصویر میں نو جوان کے با ل نمایا ں تھے ،اس کے خاندان والوں کو شک ہوا کیونکہ جس علاقے میں یہ رہتے ہیں ،وہاں پرپہلے بھی ایسے واقعات ہو چکے تھے جہاں لوگوں کو اٹھا یا گیا اور پھر مقابلے میں مار دیا گیا 13 سے 16جنوری تک خاندان والے تھانے جاتے رہے لیکن ہر کوشش بے سود رہی۔ پھر بالآخر چھیپا کے سرد خانے سے اسکی لاش خاندان والوں کے حوالے کی گئی۔
رائو انوار نے جو پہلے دن دعویٰ کیا تھاکہ یہ 2009میں دہشتگردی میں ملوث اورطالبان کا کمانڈر تھا ،آرمی کے قافلے پر حملہ کر کے اس نے کئی جوانوں کو شہید کیا ، اس طرح کے کئی دعویں حقائق کی بنیاد پر غیر منطقی معلوم ہوتے ہیں ، نقیب محسود کو فیس بک پر 20ہزار لوگ فالو کرتے ہیں کیونکہ وہ پشتونوں میں ماڈلنگ کی وجہ سے مقبول تھا اور اسی سلسلے میں اس نے ایک دکان بھی خریدی تھی۔ آپریشن راہ نجات کے بعد2014 سے 2017تک وہ اسی علاقے میں رہ رہا تھا ،سوشل میڈیا پر بہت زیادہ متحرک تھا، وہ شادی شدہ بھی تھا اور اس کے تین بچے بھی ہیں۔
کراچی میں نوجوان نقیب اللہ محسود کی مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاکت کے بعد اس حوالے سے بنائی گئی تحقیقاتی کمیٹی کی سفارش پر آئی جی سندھ نے ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کو ان کے عہدے سے ہٹانے کا حکم دے دیا۔اس کے علاوہ تحقیقاتی کمیٹی نے راؤ انوار کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کی بھی تجویز دی۔ تحقیقاتی کمیٹی کی سفارش پر ہی ایس پی انویسٹیگیشن ایسٹ محمد الطاف سرور ملک کو بھی ان کے عہدے سے برطرف کر دیا گیا ہے۔
ان تمام کاروائیوں اور میڈیا ٹرائل، سوشل میڈیا تحاریک کے باوجود، اگر کوئی تھوڑا بہت بھی اس سسٹم کا اندازہ لگا سکتا ہے، تو وہ جانتا ہے کہ ان تمام خانہ پریوں کے بعد راو انوار، نا صرف بحال ہوجائینگے بلکہ وہ اپنا دھندہ اسی طرح چلاتے رہینگے، لوگ بخوبی جانتے ہیں کہ جس شخص کے سر پر فوج کی دست شفقت ہو اسکا کوئی بال بھی بیکا نہیں کرسکتا، یہی راو انوار ایک وزیر اعظم کے بھائی مرتضیٰ بھٹو کے قتل میں شریک ہونے کے بعد آرام سے گھوم سکتا ہے تو پھر، یہاں ایک پختون اور بلوچ کو قتل کرنا، یا نشانہ آزمائی کیلئے کسی پتلے پر گولی چلانا، برابر کے ہی کام ہیں۔
گوکہ نقیب کے ہمدرد بہت، اسے بے بس و لاچار کہنے والے بہت لیکن آپ بلوچستان میں کسی بچے سے بھی پوچھ لیں، تو وہ کہے گا کہ نقیب محسود بہت زیادہ خوش نصیب تھا۔ اول تو اسکی لاش مل گئی، وہ بھی چہرہ شناخت کے قابل۔ اگر وہ بلوچ ہوتا تو لاش ملتی ہی نہیں اگر کسی کے دل میں رحم آجاتا لاش لوٹانے کیلئے، تو لاش بھی پورا نہیں لوٹاتے، کبھی آنکھ رکھ لیتے ہیں، تو کبھی جبڑے تو کبھی ایک آدھ لیٹر تیزاب منہ پر انڈیل لیتے ہیں۔ دوئم یہ کہ نقیب کی خوش قسمتی ہے کہ اسکے اتنے ہمدرد ہیں، اگر وہ بلوچ ہوتا تو کہتے کہ، اس نے خود کو خود ہی لاپتہ کیا تھا، پھر اپنے سر پر خود گولی مار دیا۔
نقیب کی سب سے بڑی خوش قسمتی یہ ہے کہ لبرل، سول سوسائٹی ، انسانی حقوق والے سب اس کیلئے ٹسوے بہارہے ہیں، کیونکہ اس نے فیس بک پر ایک کمنٹ کیا تھا کہ ” میں اپنے بیٹے کو فوج میں بھیجوں گا” اب حب وطنی کے سند کے بعد ہی کوئی انسان تصور ہوتا ہے، اور اسکے بعد ہی انسانی حقوق والے ، سول سوسائٹی والے اور لبرل دانشور منہ کھولتے ہیں ورنہ بلوچ پیدائشی غدار ہے، جو غدار ہے وہ انسان نہیں اور بھلا جو انسان نہیں اسکے انسانی حقوق کیسے؟
اگر ایسا نا ہوتا تو ان سارے لبرل دانشوروں اور احتجاجیوں کی ایک نظر ان خبروں پر بھی پڑتی کہ اسی کراچی سے ایک سیکیولر روشن خیال طلباء تنظیم بی ایس او آزاد کے سیکریٹری جنرل سمیت مرکزی کمیٹی کے دو ارکان جبری طور پر لاپتہ ہوگئے، یہ وہی تنظیم ہے جو پہلے سے ہی دو چیئرمینوں کے گمشدگیوں کا درد اٹھائے گھومتی ہے، یہ بیچارے ماڈل نہیں تھے بس ہاتھوں میں کتاب اٹھائے، طلبہ کو علم ، روشن خیالی ، برابری، آزادی ، تمام مذاہب کا احترام جیسے بوسیدہ خیالات کی تبلیغ کرتے تھے۔ اور ہاں اسی کراچی سے ایک آدھ ماہ پہلے ایک آٹھ سالہ بلوچ آفتاب بھی ان غیبی قوتوں کے ہاتھوں غائب ہوگیا تھا، لیکن شاید رہنے دیں، بلوچوں نے گِلہ کرنا چھوڑ دیا ہے، شاید پختون بھی بہت جلد سیکھ جائینگے کے یہاں گلہِ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں اور وہ بھی آپ سے گِلہ چھوڑ دینگے۔