انسانی ذہن انسان کو دیگر جانداروں سے ممتاز کرتی ہے کیونکہ یہ وہ کرشماتی مرکز ہے جس نے انسان کو شدید ترین حالات میں اپنی بقا کو قائم رکھنے کے قابل بنایا۔ انسان نے ذہن کی مدد سے وہ کارنامے کردکھائے جو دیگر جاندار کرسکنے سے محروم ہیں۔ بقا کے لیے خوراک اور عمل تولید تو دیگر جاندار بھی کرتے ہیں لیکن انسانی ذہین کا شعور اسے ممتاز کرتا ہے۔ انسان اظہار کرسکتا ہے اور اس کا اظہار دیگر جانداروں کی طرح چند مخصوص و محدود اشاروں کی نسبت وسیع تر ہے۔ انسان نہ صرف ماضی کے بارے میں علم حاصل کرسکتا ہے بلکہ وہ مستقبل پر بھی اثر انداز ہوسکتا ہے۔ انسان کی نفسیاتی کیفیت کا اندازہ بھی از خود انسانی زہن لگا سکتا ہے۔
نا امیدی انسانی ذہن کی تخلیق ہے۔ ہر کیفیت انسانی ذہن سے وابستہ ہے انسان حالات کو کس طرح بدلتا ہے یہ اس کے بس میں ہے۔ اگر انسان مایوس ہوتا ہے تب یہ بھی اس کے اختیار میں ہوتا ہے یونہی جب وہ پر امید ہوتا ہے تب یہ بھی اس کے اختیار میں ہوتا ہے۔ بقول ایک دانا انسان کے “ذہن اپنی جگہ قائم ہے جبکہ جہنم اور جنت کا انتخاب انسان کے ہاتھ میں ہے۔” یعنی انسان کے خیالات اسے جنت اور دوزخ میں لے جاتے ہیں یہاں مقصد مذہبی جنت و دوزخ کا تصور نہیں بلکہ دو انتہائی کیفیتوں کا اظہار ہے۔ انسانی نفسیات پیچیدہ ہے لیکن اسے سمجھنا ایک سیاسی کارکن کے لیے اشد ضروری ہے کیونکہ جس طرح مچھلی کے لیے پانی لازم ہے اسی طرح سیاسی کارکن کے لیے عوامی حمایت اور یہ تبہی ممکن ہے جب وہ عوام کی نفسیات کو سمجھتے ہوئے تحریک کے لیے راہ ہموار کرتا ہے۔ یہ ایک صبر آزما عمل ہے لیکن جب انسانی نفسیات کو سمجھ کر تاریخ عمل کے اونچ نیچ کا علم ہو تب سیاسی کارکن نہ صرف خود مایوسیوں سے دور رہتا ہے بلکہ عوام کو بھی راہ فراہم کرتا ہے لیکن یہ بھی واضح رہے کہ بالیدگی کی اس سطح تک لانے کے لیے تنظیم کاری کرنی پڑتی ہے اور سیاسی کارکن کی تربیت کرنی پڑتی ہے۔ مطالعہ کا دائرہ کار وسیع ہونا چاہیے لیکن مطالعہ کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ زمینی حقائق سے روگردانی اختیار کرتے ہوئے چند تصورات میں خود کو غلطاں کرتے ہوئے ذہنی مشت زنی کا مرتکب ہونا چاہیے بلکہ مطالعہ کا مقصد زمینی حقائق کو باریک بینی سے سمجھنے اور تاریخی عمل میں اپنا اہم کردار کو سنجیدگی سے ادا کرنے کی ضرورت کو محسوس کرنا چاہیے۔یہ بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ کچھ دوست جن نظریات کا مطالعہ کرتے ہیں وہ ان کی نقالی اپنانے کی ناکام کوشش کرتے ہیں یوں وہ اپنی ذات کو پیچیدگیوں کے حوالے کردیتے ہیں اور نتیجتا مایوسیوں کا شکار ہوتے ہیں۔ مطالعہ کا مقصد خود کو کنفیوز کرنا ہرگز نہیں بلکہ اپنے علم میں اضافہ کرنا ہے تاکہ علم و عمل میں ربط قائم ہو اور غلطیوں و کوتاہیوں کی نسبت بہتر عمل کی گنجائش میں اضافہ ہو۔
تبدیلی ایک طویل مدتی عمل ہے اس کے لیے جلد نتائج کی توقع ہرگز نہیں رکھنی چاہیے بلکہ ہمیشہ محنت سے اپنے جدوجہد کو منظم انداز میں مستقل مزاجی سے جاری رکھنا چاہیے۔ سخت اور کھٹن حالات میں سیاسی کارکن کا کھڑا امتحان ہوتا ہے لیکن اسے ابتدائی مرحلے سے ہی کھٹن حالات کے لیے خود کو تیار رکھنا چاہیے۔ یہ نہ ہو کہ حالات کے بدلتے ہی جدوجہد کے تقاضوں کو سمجھنے کی بجائے سیاسی کارکن مایوس ہوجائے بلکہ اسے مزید پرامید رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ جدوجہد جس قدر آگے بڑھتی ہے وہ اتنی ہی کھٹن ہوتی ہے۔ ایک رہبر کا حوالہ ہے جس نے اپنے ساتھیوں کو مجتمع کرکے پوچھا کہ کیا ہم کمزور پڑ چکے ہیں؟ تب ایک ساتھی یہ جواب دیتا ہے کہ اب ہم اصل طاقت کے سرچشمے تک پہنچے ہیں کیونکہ ہماری کمزوریاں و کوتاہیوں کا مکمل خلاصہ ہمارے سامنے پڑا ہے۔
موجودہ حالات میں بلوچ سیاسی کارکن کہاں کھڑا ہے؟
ایک طرف جبر کے حالات ہیں اور دوسری جانب نظریہ۔۔۔اکثر دوست مایوس کن لہجہ اپنا لیتے ہیں شاید اس لیے کہ انہوں نے اس راہ کو کچھ زیادہ ہی آسان خیال کرلیا تھا لیکن سوال یہ ہے کہ مایوسی آخر کیوں؟ مایوس تو انہیں ہونا چاہیے جو جدوجہد سے محروم ہیں یا جن کے پاس کوئی اجتماعی مقصد نہیں۔ ہمیں تو پرامید رہنا چاہیے کیونکہ ہم۔ایک اجتماعی مقصد کے فکر سے لیس ہیں۔ تاریخی عمل اس قدر آسانی سے منزل مقصود تک نہیں پہنچاتی، ہمیں تاریخی عمل میں اپنے نجات کی راہ تلاش کرنی ہوگی۔ آج اگر تحریک کمزور ہوگئی ہے تو ہمیں بذات خود کمزور پڑھنے کی بجائے کمزوری کے وجوہات کو سمجھتے ہوئے از سر نو منظم کرنے کے حوالے سے عملی جدوجہد کرنی ہوگی اور یہی طریقہ ہے اس جدوجہد کو آگے بڑھانے کا وگرنہ مایوس ہونے والوں کے ہاتھ کچھ نہیں آتا۔ یہ امید ہی ہے جس نے عظیم تر تخلیق اور تخلیق کاروں کو جنم دیا وگرنہ مایوسی میں سوائے اندھیروں کے اور کچھ نہیں۔
آئیے ہم اپنے سوچنے کا انداز بدلتے ہیں اپنے رویے بدلتے ہیں اور اس تحریک کو از سر نو منظم کرتے ہیں کیونکہ ہمارا وجود ہماری بقا اسی تحریک سے وابستہ ہے۔