پاکستانی فورسز کے ہاتھوں لاپتہ کیے جانے والے ناصر احمد کی بہن نے کوئٹہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ‘معززصحافی حضرات!میرا نام مارنگ ہے میرے بھائی کو لاپتہ ہوئے آج 27دن ہوچکے ہیں ہرطرف مایوس ہونے کے بعد ہم اپنا مدعا آج آپ کے سامنے پیش کررہے ہیں ،میرے بھائی ناصراحمد ولد عبدالغفار جن کا عمر بیس سال ہے وہ گورنمنٹ سائنس کالج کوئٹہ میں ایف ایس سی کے سٹوڈنٹ ہے،انہیں 15دسمبر2017کے شام کو سرے بازارلوگوں کے سامنے قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں نے گرفتار کرکے لاپتہ کردیا ، ہمارے آنکھوں کے سامنے حراست میں لئے جانے کے دوران بھی انہیں شدید تشددکا نشانہ بنایاجارہا تھا ،ہم یہی سمجھے کہ شائد انہیں کسی قانونی تقاضے کے تحت حراست میں لیاجارہاہے،ہم نے بہت انتظارکیا کہ قانونی تقاضے پورا کرنے کے بعد ان کو رہاکیا جائے گا مگر ایسا نہیں ہوا اور اس دن کے بعد ان کے بارے میں ہمیں کسی بھی جانب سے کوئی اطلاع نہیں دی گئی ہم نہیں جانتے ہیں کہ وہ کہاں اورکس حال میں ہے۔
میں اورمیری ماں21اور22دسمبر کو ان کی گمشدگی کی ایف آئی آر کاٹنے پولیس اسٹیشن گئے مگر انہوں نے ایف آئی آر درج کرنے سے صاف انکار کردیا جس کے بعد ہم نے ہائی کورٹ میں پٹیشن داخل کی ہے۔
ہم انسانی حقوق سے متعلق تمام اداروں کے پاس گئے ہیں ہیومن راٹس کمیشن آف پاکستان کے پاس بھی کیس کو جمع کیا مگر انتہائی غم و تکلیف کے حالت میں کہنا پڑرہا ہے کہ 27 دن گزرنے کے باوجود ان کے متعلق ہمیں کوئی معلومات نہیں دی جارہی ہے جس کی وجہ سے ہمیں شدیدذہنی پریشانی کا سامنا ہے۔
قابل احترام صحافی حضرات!،آپ معاشرے کے ذمہ دار اور درد مند شعبے سے تعلق رکھتے ہیں، آپ ہماری درد کو بہترسمجھ سکتے ہیں،آپ ہی ہماری آواز کو توانا بنا کر اقوام عالم اور سول سوسائٹی تک پہنچاسکتے ہیں،اس لئے آپ کے توسط سے ہم اپنی آواز پاکستان کے اعلیٰ ٰ عدالتوں،سول سوسائٹیز اور انسانیت دوست لوگوں تک پہنچانا چاہتے ہیں۔ ہم سول سوسائٹی اور حکام بالا سے یہی توقع رکھتے ہیں کہ ہمارے اس دردکو محسوس کریں گے اور ہمارے خاندان کا اکلوتھاسہارہ میرے بھائی کی بازیابی میں اپنا بھر پور کردار اداکریں گے۔
میرے صحافی بھائیوں!!! ایک اکلوتھا بھائی ہیں جسے دیکھ کر ہم جیتے تھے،جسے دیکھ کرہماری ڈھارس بند جاتی ہے کہ اس بڑی دنیا ہمارا کوئی ہے آج وہ جب ہمارے درمیان موجود نہیں،ہماری پوری خاندان شدید ذہنی تناؤ میں ہے،ہمارا پورا خاندان ایک ایسی دورناک صورت حال کی تصویر بنی ہے جسے بیان کرنے سے الفاظ قاصر ہیں،مجھے وہ الفاظ ہی نہیں ملتے کہ میں اپنے خاندان کا درد آپ انسانیت دوست لوگوں کو سمجھا سکوں،مگر مجھے امیدہے کہ آپ معاشرے کے آئینہ بردار ہیں آپ سمجھ سکتے ہیں اور آپ ہمارے دکھ اور درد کو انسانیت کے حامل لوگوں اوراختیاردار اداروں کو سمجھاسکتے ہیں۔
آج پانچ بہن اپنے اکلوتے بھائی کی انتظار میں بے بسی کی علامت بن چکے ہیں جن کا درد وہی سمجھ سکتے ہیں جن کا انسان اور انسانیت پر ایمان ہو۔ہم اس ملک کے پْر امن شہری ہیں،ریاست اپنے شہریوں کو اْن تمام حقوق مہیا کرنے کا پابندہے جن کا ریاست کی آئین ضمانت دیتی ہے،ہم آج اپنا آئینی حق کا مطالبہ کرنے یہاں آئے ہیں۔ہم یہ بات بھی واضح کرتے ہیں کہ ہمارے بھائی کا کسی بھی سیاسی تنظیم سے تعلق نہیں ہے،اگر ان پر کوئی الزامات ہے وہ خواہ کسی بھی نوعیت کے ہوں انہیں عدالت میں پیش کیا جائے۔ عدالت کا فیصلہ ہمیں بسرو چشم قبول ہوگا۔آخر میں آپ ذمہ دار شعبہ صحافت سے تعلق رکھنے والے حضرات کے توسط سے ملک کے حکام بالا سے درد مندانہ اپیل کرتی ہوں کہ میرے بھائی کو کسی بھی صورت میں بازیاب کرکے اس کے منظر عام پر لائیں اور ہمیں اس شدید ذہنی کرب سے آزاد کرائیں۔