چین گوادر کو عسکری مقاصد کے لیے استعمال کر سکتا ہے

404

چین پاکستان کے ساحلی شہر گوادر میں ترقیاتی کاموں‌ کے لیے بے دریغ رقوم فراہم کر رہا ہے۔ تاہم سی پیک کے تحت یہاں بندرگاہ کی تعمیر سے بھارت اور امریکا کو خدشات ہیں کہ اسے ایک دن چینی بحریہ کے استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔

 

 

یجنگ حکومت نے نہ صرف گوادر میں ایک اسکول تعمیر کیا ہے بلکہ وہاں مقامی لوگوں کے علاج کے لیے ڈاکٹروں کو بھی بھیج رکھا ہے۔ اس کے علاوہ چین نے یہ وعدہ بھی کیا ہے کہ گوادر میں ہسپتال، کالج، ایر پورٹ اور پانی کی فراہمی کے بنیادی ڈھانچے کے قیام کے لیے 500 ملین ڈالر کی گرانٹ دی جائے گی۔

مذکورہ گرانٹ میں گوادر میں 230 ملین ڈالر ایک بین الاقوامی طرز کے ایر پورٹ کی تعمیر کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔ محققین اور پاکستانی حکام کے مطابق یہ رقم چین کی جانب سے بیرونی منصوبوں کی مد میں خرچ کی گئی بڑی رقوم میں سے ایک ہے۔

واشنگٹن میں مقیم ریسرچر اور ’ چائنا پاکستان ریلیشنز ‘ نامی کتاب کے مصنف اینڈریو سمال کا کہنا ہے،’’ چین عمومی طور پر بڑے پیمانے پر امدادی رقوم اور گرانٹ نہیں دیتا۔ اور اگر ایسا کیا بھی ہے تو بہت اعتدال پسندی کے ساتھ۔‘‘ تاہم پاکستان نے چین کی طرف سے ملنے والے امدادی فنڈز کا کھلے دل سے خیر مقدم کیا ہے۔

دوسری جانب امریکا اور انڈیا کو گوادر کی بندرگاہ کی تعمیر میں چین کی غیر معمولی دلچسی سے ایسے خدشات ہیں کہ گوادر کی بندرگاہ چین کے مستقبل کی جغرافیائی حکمت عملی کا حصہ ہے تاکہ امریکی بحریہ کے غلبے کو چیلنج کیا جا سکے۔

اینڈریو سمال اسی تناظر میں کہتے ہیں،’’ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ چین میں بہت سے افراد طویل المیعاد بنیادوں پر گوادر کو محض ایک تجارتی منصوبے کے طور پر نہیں دیکھتے۔‘‘

 

سمال کے اس تبصرے پر خبر رساں ادارے روئٹرز نے چینی وزارت خارجہ سے رابطہ کیا لیکن وہاں سے کوئی جواب نہیں مل سکا۔

 

 

پاکستان اور چین دونوں ہی ممالک گوادر پورٹ کو سی پیک منصوبے کے تاج میں جڑے ایک نگینے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ امید ہے کہ اس بندرگاہ سے ہونے والی تجارت کا حجم سن 2018 میں 1.2ملین ٹن سے بڑھ کر سن 2022 میں تیرہ ملین ٹن تک پہنچ سکتا ہے۔

تاہم اس مقصد کے حصول کی راہ میں کئی رکاوٹیں حائل ہیں۔ مقامی افراد کو نہ تو پینے کا صاف پانی مہیا ہے اور نہ بجلی کی مستقل فراہمی۔ علاوہ ازیں بلوچ علیحدگی پسندوں کی جانب سے گوادر اور بلوچستان کے دیگر علاقوں میں چینی منصوبوں پر حملوں کا خطرہ بھی رہتا ہے۔ گوادر سے رکن پارلیمنٹ ایثار نوری کا کہنا ہے کہ مقامی لوگ اس منصوبے سے مطمئن نہیں ہیں۔

دوسری جانب ایسا تاثر بھی مل رہا ہے کہ مقامی افراد کے دل جیتنے کی چینی حکومت کی کوششیں رفتہ رفتہ کامیاب ہو رہی ہیں۔ پینتالیس سالہ دکاندار سلام دشتی جن کے دو بچے چینی حکومت کے تعمیر کردہ اسکول میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں کا کہنا تھا،’’ بلوچستان ایک پسماندہ صوبہ ہے لیکن چین کے ترقیاتی کاموں کی بدولت یہاں بہتری کے آثار دکھائی دے رہے ہیں۔

 

 

 

رواں برس جون میں امریکی محکمہ دفاع پینٹا گون کی ایک رپورٹ میں یہ خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ گوادر مستقبل میں چین کا فوجی اڈہ بن سکتا ہے اور ایسے ہی تحفظات کا اظہار بھارت نے بھی کیا ہے۔ تاہم بیجنگ  ان تحفظات کو مسترد کرتا ہے۔

پاکستان میں سمندری معاملات کے وزیر حاصل بزنجو اور دیگر پاکستانی حکام کا بھی کہنا ہے کہ چین نے گوادر کو بحری فوجی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی بات نہیں کی۔ تاہم بزنجو نے نیوز ایجنسی روئٹرز کو مزید بتایا ،’’ گوادر کی بندرگاہ کو چین زیادہ تر تجارتی مقاصد کے لیے استعمال کرے گا لیکن یہ اس بات پر بھی منحصر ہے کہ اگلے بیس سالوں میں دنیا کے معاملات کیا رخ اختیار کرتے ہیں۔‘‘