پاکستان کیجانب سے اجتماعی سزا اور جنگی جرائم کسی صورت بلوچ قوم کو تحریک آزادی سے دستبردار نہیں کرسکتے – بی این ایم

160

سرفراز بگٹی کی جانب سے نسل کشی کے اعلان کے بعد آپریشن میں تیزی اور اجتماعی سزا کی حکمت عملی شروع کی گئی ہے۔ بی این ایم

بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی ترجمان نے کہاہے کہ بلوچستان میں پاکستانی فوج بنگلہ دیش کے واقعات کو دہرارہا ہے۔ یکم دسمبر سے جاری آپریشن میں انسانی حقوق اورانسانی اقدار کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں۔اس وقت مشکے اور اس سے متصل ضلع واشک کے علاقہ راگئے میں آپریشن شدت کے ساتھ جاری ہے ۔ کل پاکستانی فوج نے پیزگ راگئے سے بلوچ آزادی پسند رہنماء ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کے دوسری بہن بی بی شراتون کوبیٹی اوردوپوتوں دو سالہ بیبگر اور شش ماہی ماہین سمیت حراست بعد مشکے آرمی کیمپ منتقل کر دیا ہے۔ یکم دسمبر کوڈاکٹر اللہ نذر کے بہن بی بی نورخاتون کو دیگر رشتہ داروں سمیت اغوا کر کے ضلع واشک کے علاقے راگئے آرمی کیمپ منتقل کر دیا تھا۔

مشکے اور راگے میں بیس گن شپ ہیلی کاپٹروں سمیت ایک بریگیڈ آرمی آپریشن میں مصروف ہے۔ اب تک سو سے زائد افراد جس میں بڑی تعداد خواتین و بچوں کی ہے ،فوج نے لاپتہ کر دئیے ہیں۔ اسی طرح ضلع پنجگور کے علاقے گچک میں بھی آپریشن شدت کے ساتھ جاری ہے۔آپریشن کا یہ سلسلہ تمپ اور خاران میں بھی شروع کی جا چکی ہے۔ گزشتہ روز خاران میں گھر گھر تلاشی کے دوران تین افراد کو حراست بعد لاپتہ کر دیا گیا ہے۔تمپ و گرد و نواح سے کئی نہتے شہریوں کو پاکستانی فوج نے اُٹھا کر فوجی کیمپوں میں منتقل کر دیا ہے۔

بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی ترجمان نے کہا کہ پاکستان اب اجتماعی سزاء کا غیرانسانی حکمت عملی اپنا کر بلوچ قومی رہنماؤ ں اور افراد خانہ کو نشانہ بنارہاہے ۔ آزادی پسند رہنما ء ڈاکٹر اللہ بلوچ کے افراد خانہ کو نشانہ بناکرپاکستان بلند قامت ہستی اورآزادی پسند لیڈر کے حوصلے کو پست کرنے کی بھونڈی اور غیرانسانی حرکت کررہاہے ۔یہ نہ صرف بلوچ بلکہ پوری انسانیت کے توہین کے مترادف ہے ۔

پاکستان اجتماعی سزاء کے حکمت عملی کے تحت بلوچ رہنماؤں، جہدکاروں اورسیاسی ورکروں کے رشتہ داروں کو نشانہ بناکر اپنے جنگی جرائم میں غیر معمولی اضافہ کرچکا ہے، پاکستان بنگلہ دیش میں بنگالی قوم پر کئے گئے جنگی جرائم کے تجربے کو بلوچ قوم پر دہرارہاہے۔اس اجتماعی نسل کش حکمت عملی کااعلان چند روز قبل کٹھ پتلی وزیر داخلہ سرفرازبگٹی کے ذریعے کیا گیا اوراس پر پوری طاقت کے ذریعے عمل پیراہے۔ ساتھ ہی ڈاکٹر مالک جنہیں پتہ تھا کہ یہاں سوات طرز سے بدترین فوجی آپریشن ہورہی ہے مگر وہ شاید اس آپریشن کی شدت کو کم دکھانے کیلئے سوات طرز آپریشن کا مشورہ دے چکے۔ سوات سے نہ شش ماہی بچے بچیاں اغوا ہوئیں نہ کسی خاتون کو اُٹھا کر غائب کرنے کا واقعہ پیش آیا۔ البتہ بنگلہ دیش میں پاکستانی فوج اور اس کے ’الشمس‘ اور ’البدر‘ کی طرف سے خواتین اور کم عمر بچیوں کو زنا بالجبر کا نشانہ بنا کر حاملہ کیا گیا۔ آزادی کے چار دہائیوں بعد بنگلہ یش نے پچیس مارچ کو ’’نسل کشی کادن ‘‘ مقرر کرکے اس میں ملوث افراد کی سزا کیلئے ایک ٹریبون بھی قائم کی ہے۔ جس میں جماعت اسلامی کی کئی رہنماؤں کو سزا کا سامنا کرنا پڑاہے۔ ہم بنگلہ دیش سے اپیل اور امید کرتے ہیں کہ وہ نسل کشی میں ملوث پاکستانی ریاست کو بھی عالمی عدالت میں مجرم ٹھہرائیں گے تاکہ پاکستان بلوچستان میں اس تجربے سے باز آئے اور بنگلہ دیش انسانیت کی بقامیں کردار ادا کرکے تاریخ میں ایک اور اہم باب کا اضافہ کرے۔

ترجمان نے کہا کہ ہم واضح کرتے ہیں کہ پاکستان کے اجتماعی سزا کے غیرانسانی حرکات اورجنگی جرائم کسی طورسے بلوچ قوم کو اپنے آزادی کی تحریک سے دستبردار نہیں کرسکتے ہیں ،جس طرح وہ بنگالیوں کو دستبردار نہیں کر سکی۔ ہم میڈیا سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ فوجی ترجمان سے اس بارے سوال کرنے ساتھ مذکورہ آپریشن زدہ علاقوں کا دورہ کریں تاکہ حقائق تک رسائی حاصل کریں۔ میڈیا کی خاموشی نے صحافت کی اقدار پر سوالوں کا انبار کھڑا کر دیا ہے۔

آخر میں ترجمان نے کہا کہ کل دس دسمبر کو انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر پاکستانی مظالم کے خلاف جرمنی کے دارالحکومت برلن اور آسٹریلیا کے شہر میلبورن میں احتجاجی مظاہرہ کیا جائے گا۔ میلبورن میں مظاہرہ بی ایس او آزاد کے ساتھ مشترکہ ہوگا۔ تمام انسان دوست اور آزادی پسندوں سے شرکت کی اپیل کی جاتی ہے۔