نیشنلزم کے حوالے سے اٹھنے والی تحریکوں میں آرگنائزیشن کی اہمیت اور تحریک کو سمت فراہم کرنے سمیت مایوس کن کیفیات میں فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہوئے بحرانی صورتحال سے نکالنا یہ ایک آرگنائزیشن کا خوبصورت فن ہوسکتا ہے لیکن اس آرگنائزیشن کو معروضی حالات کا گہرا علم ہونا چاہیے اور موضوعی حوالے سے تیار۔
آرگنائزیشن نظریہ کے حوالے سے نظم و ضبط قائم کرتا ہے اگر یہی آرگنائزیشن اپنے عملی کردار میں نظم و ضبط کھو دے تب وہ اپنی نظریے کے لیے ہی زہر قاتل بن جاتا ہے۔ ایک عظیم مقصد بغیر کسی ترتیب کے کیسے حاصل کیا جاسکتا ہے؟ اگر آرگنائزیشن اپنے ابتدائی ایام سے ہی نظم و ضبط کو قائم رکھے اور اپنی کارکردگی کو بہتر بنانے اور لیڈر سے لے کر عام کارکن کے درمیان سیاسی اداروں کی صورت میں جمہوری رویے قائم ہوں تو اس کے اثرات نہ صرف دور رس ہوتے ہیں بلکہ یہ دوسرے ہم فکر قوتوں کو بھی اپنی جانب مایل کرتے ہیں یوں ایک مثبت رجحان کی داغ بیل ڈالی جاسکتی ہے۔ روایتی انداز ہمیشہ سے نوآبادیاتی تنظیموں کے لیے زہر قاتل ثابت ہوئے ہیں جہاں وہ نوآبادکار کے مشینری کے مدمقابل کوئی موثر آرگنائزیشنل تحریک چلانے میں ناکام ہوتے رہے ہیں، ناکامی کی وجہ تنظیم نہیں بلکہ تنظیم کو آپریٹ کرنے کا طریقہ کار ہوتا ہے۔ تنظیم ذاتی پسند و چنائو کے رجحان سے جس قدر دور ہو اور تحریری اصولوں پر کاربند ہو اتنا ہی بہتر ہے۔ جہاں لیڈر محض اپنے ذاتی اختیارات میں مشغول ہو وہاں عام کارکن کا کردار دم توڑ دیتا ہے۔
آرگنائزیشن آرگنائز کرنے کا فن ہے گو کہ یہ ایک صبر آزما اور مشکل عمل ہے لیکن تاریخی عمل اور انسانی نفسیات کے حوالے سے مکمل آگاہی، زمینی حقائق اور بین الاقوامی حالات کا تال میل اور بہت سی اہم بنیادی چیزوں کو مدنظر رکھ کر پالیسی سازی کرتے ہوئے اس سفر کو بہتر بنایا جاسکتا ہے اور ایک سمت تلاش کی جاسکتی ہے۔
ورلڈ بلوچ آرگنائزیشن کا قیام ایک ایسے وقت میں عمل میں لایا گیا ہے جب بلوچ قومی تحریک کو بین الاقوامی سطح پر موثر کردار ادا کرنے کی اشد ضرورت ہے اور یہ لیڈر شپ کی دانشمندی پر منحصر ہے کہ وہ وقت اور حالات کے بہائو کو مدنظر رکھ کر کس طرح بیرون ملک بیٹھے بلوچوں کو منظم کرتے ہیں اور دیگر آزادی پسندوں سے ہم آہنگی قائم کرتے ہیں۔ تنظیم کاری کے حوالے سے قابل عمل دور اندیشانہ پالیسیاں اپنانے کی ضرورت ہیں جس حوالے سے بلوچ دانشوروں پر مشتمل ایک پینل جو لیڈر شپ کیساتھ مکمل رابطے میں رہے اور علمی طور پر رہنمائی کرے یوں جب علم و عمل میں ربط قائم ہوگا تب آرگنائزیشن نکھرنا شروع کردیگا۔
آرگنائزیشن کو ذرائع پیدا کرنے ہونگے تاکہ اسکا دائرہ کار وسیع ہوتا چلا جائے یہ ذرائع محض مالی نہیں بلکہ انسانی بھی ہونے چاہیے کیونکہ ہیومن ریسورسز ہی آرگنائزیشن میں ریڈھ کی ہڈی کا کردار ادا کرتی ہے۔ آرگنائزیشنل اداروں میں اختیارات کی تقسیم صلاحیتوں کے حوالے سے ہونی چاہیے اور آرگنائزیشنل لیڈرشپ اپنے کارکنوں کو motivate کرنے کے فن سے آشنا ہو، کارکن کو آرگنائزیشن کے حوالے سے کسی قسم کے تذبذب کا شکار نہیں ہونا چاہیے، وہ لیڈرشپ سے سوال کا حق رکھتا ہے اور سوالات کے جواب میں زبان بندی کی بجائے مطمئن کن جواب ہی بہترین طریقہ ہے۔ جب لیڈر، دانشور اور کارکن کا پھیہ چلیگا تب ہی آرگنائزیشن اپنا کرشماتی اثر ظاہر کریگا اس لیے ان تینوں کے درمیان رابطے کو قائم کرنے سے لے کر برقرار رکھنے تک کے عمل کو عملی جامہ پہنانا آرگنائزیشنل لیڈر شپ کی بنیادی ذمہ داری ہے۔
ورلڈ بلوچ آرگنائزیشن کے لیڈر شپ کو تاریخی عمل کے مد و جزر سے بخوبی آگاہ ہونا چاہیے تاکہ وہ کوئی روایتی تنظیم یا محض کوئی مقابلائی تنظیم بننے کی بجائے ایک محرک کا کردار ادا کرے اور کسی بھی منفی رجحان کا حصہ بننے کی بجائے مثبت راہ تلاش کرتے ہوئے توانائیوں کو ضائع ہونے سے بچائے یوں تخلیق کا راستہ ہموار ہوگا اور یہی تخلیق آرگنائزیشن کے نظریہ کا روح ہے۔ کیونکہ آرگنائزیشن ایک نئے انسان کی بنیاد رکھنے والا ادارہ ہے جب یہ نئے انسان کو پرانا کرنے کی روش پر چلتا ہے تب اپنا طلسم کھو بیٹتا ہے۔ ایک نئے انسان کی تخلیق صبر آزما عمل ہے اور یہ بغیر آرگنائزیشن کے کسی صورت ممکن نہیں لیکن اس کے لیےآرگنائزیشن کو اپنا تخلیقی کردار ادا کرنا ہوگا۔