قابض فورسز فرسٹریشن اورنفسیاتی شکست سے دوچار ہو کر نہتے شہریوں کو اغواء اور گھروں پر یلغار کرکے اپنی ذہنی تسکین کررہے ہیں۔بی این ایم
بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی ترجمان نے کہا کہ بلوچستان میں پاکستانی فورسز کی ظلم و جبر کی داستانیں انتہا کو چھو رہی ہیں۔بلوچ کے حق میں یکسرگونگا میڈیاپاکستان کی یک طرفہ اوردروغ گوئی پر مبنی موقف کی تشہیر وپروپیگنڈے کے لیے آسمان سرپراٹھالیتا ہے مگر بلوچستان میں پاکستان کی آتش و آہن کی برسات اور انسانی حقوق کی شدید ترین خلاف ورزیوں پر خاموشی اس امر کا باصراحت ثبوت ہے کہ بلوچ نسل کشی اوراذیت رسانی کے تمام تر طریقو ں کو روبہ عمل لانے میں پاکستا ن کی عدلیہ ،میڈیا،سول سوسائٹی اورنام نہاد انسان دوست ادارے سبھی برابرکے شریک ہیں ۔
ترجمان نے کہاکہ یہ نام نہاد ادارے بشمول عالمی انسانی حقوق کے ادارے اور عالمی میڈیا کل تاریخ کو جواب دہ ہوگا جب بلوچستان بھر میں راکھ کے ڈھیر اوراجتماعی قبروں کے آثار ہی ہوں گے ۔کیا یہ ادارے تاریخ کے سامنے اسی طرح چھپ سادھ لیں گے جس طرح آج بلوچ کے معاملے خاموشی اختیار کرچکے ہیں ؟ آج ظلم و درندگی کا کوئی ایسا طریقہ اور ذریعہ باقی نہیں رہ گیاہے جسے پاکستان بلوچ قوم کے خلاف استعمال نہیں کرچکاہے۔ طریقے بدل بدل کر بلوچ قوم پر مظالم اور دہشت کے پہاڑ گرائے جارہے ہیں۔
آج مشکے کے علاقے گورجک میں پاکستانی فوج نے قوم پرست جہد کار اختر ندیم بلوچ اور اس کے رشتہ داروں کو گھروں کو بلڈوز کرکے گرادیے ۔واضح رہے یہ پہلی دفعہ نہیں ہے کہ پاکستانی فوج نے معروف جہد کار اوراس کے رشتہ داروں کے گھروں کو بلڈوزکیا ہے۔اس سے قبل کئی بار ان کے گھروں کو جلانے کے ساتھ ساتھ بلڈوزکیا گیا ہے ۔پاکستان کئی سالوں سے اجتماعی سزا ء کے فارمولے پر عمل کررہاہے ،جوسیاسی کارکن پاکستانی فوج کے ہاتھ میں آجاتاہے تو دنیا کے تمام جنگی قوانین کو بندوق کی نوک پررکھ کرانہیں ماورائے عالمی قوانین اورغیرانسانی مظالم سے گزارکر شہید کردیتا ہے۔ ان کی لاشوں کو ناقابل شناخت حد تک مسخ کیا جاتا ہے۔ صرف سیاسی ورکراورجہدکار نہیں بلکہ عام نہتے بلوچوں کوبھی پاکستان انسانیت سوز درندگی کا نشانہ کر ان کی مسخ شدہ لاشیں پھینکنا معمول بن چکا ہے۔اجتماعی سزامیں فورسز رشتہ داروں کو نشانہ بنارہاہیں،ان کے گھروں کو جلایا اور بلڈوزکیا جارہاہے ۔کئی بار گھروں کو جلانے اوربڈوزکرنے سے تنگ آکر اختر ندیم کے ماموں غلام مصطفیٰ اور دیگر رشتہ دارعلاقہ چھوڑ کر حب بلوچستان اور کراچی منتقل ہوئے مگر وہاں بھی ان پر مظالم و تنگ کرنے کا سلسلہ جاری رہا۔ فروری 2016 میں ان کے ماموں غلام مصطفیٰ کو فورسز نے حراست کے بعد لاپتہ کیا۔ ہزاروں بلوچوں کی طرح ان کی بھی کوئی خبر نہیں کہ وہ زندہ ہیں یا تشدد کے دوران شہید کئے گئے ہیں۔ اسی طرح اخترندیم کے کئی رشتہ دار شہید اور لاپتہ کئے جا چکے ہیں۔ اپریل 2015 کو اختر ندیم کے بھائی باسط ، کزن اعجاز اور شاہ نواز کو ان کی شادی کے اگلے دن اُٹھا کر چند گھنٹے بعد لاشیں مقامی انتظامیہ کے حوالے کیں۔ ان میں اعجاز بلوچ کے بھائیء آفتاب بھی شامل تھے۔ اسی طرح آج تمپ نذرآباد میں شہید عاصم کے گھروں پر یلغار کرکے خواتین اور بچوں پر تشدد کی گئی اور پندرہ سالہ یوسف ولد محمد کو فورسز اغوا کرکے اپنے ساتھ لے گئے ۔
ترجمان نے ان مظالم کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان تمام عالمی اصولوں کو پامال کرکے جہد کاروں کے رشتہ داروں کو اغوا اور گھروں کا مسمار کرنے کے اجتماعی سزاء کے حکمت عملی پر عمل کررہاہے ۔بلوچ قوم مشکل حالات میں سہی مگر ایسے مظالم نہ صرف بلوچ قوم کے خلاف ہیں بلکہ یہ انسانی حقوق کے دعویدار اداروں کے چہروں پر ایک بدنماء داغ کی حیثیت سے ہمیشہ ثبت رہیں گے ۔
انہوں نے کہاطویل غلامی اوراستحصال کے خلاف بلوچ قوم اپنے متعین منزل کی جانب قربانیوں کا تاریخ رقم کرکے آگے بڑھ رہا ہے ۔قومی تحریک کی حدت اوربلوچ قوم کے بے شمار قربانیوں سے قابض فورسز فرسٹریشن اورنفسیاتی شکست سے دوچار ہو کر نہتے شہریوں کو اغواء اور گھروں پر یلغار کرکے اپنی ذہنی تسکین کررہے ہیں۔ یقیناًیہ بلوچ قوم و جد و جہد کی کامیابی ہے۔یہ عظیم کامیابی بلوچ شہداء کے لہو کا ثمر ہے ، اس سے پیچھے ہٹنایقیناًشہداء کے قربانیوں سے دھوکہ اور قوم کا مجرم بننا ہے۔ اس جدوجہدمیں تمام جہد کار ان مظالم کا پیشگی علم ہوکر تحریک کا حصہ بن گئے۔ یہ پاکستانی ریاست کی بھول ہے کہ وہ ایسے ہتھکنڈوں کے ذریعے بلوچ قومی تحریک کو کمزور کرے گابلکہ تمام تر جبر و دہشت خیزیو ں کا مقابلہ کرکے بلوچ قوم اپنی تحریک کو منطقی انجام تک پہنچائے گا۔