نام نہاد ہائی کمان چند درباری دانشوروں اورمفاد پرستوں کے نرغے میں بری طرح پھنسی ہوئی ہے – بی ایل ایف

966

بلوچستان لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) کے ترجمان گہرام بلوچ نے کہا کہ گزشتہ روز بی ایل اے (بلوچ لبریشن آرمی) ہائی کمان کے نام پر جاری بیان میں بی ایل ایف کے خلاف جس طرح غیرذمہ دارانہ الزام تراشی اورکردار کشی کی گئی ہے اس سے اس گروہ کی حواس باختگی، فرسٹریشن، ذہنی ناپختگی، اناپرستی اور غیرسنجیدگی کافی حد تک عیاں ہے۔ مذکورہ گروہ نے بڑے بھونڈے انداز میں اپنی کوتاہ اندیشی، کوتاہ نظری، غلطیوں اور ناکامیوں کا ملبہ بی ایل ایف پر ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ بی ایل ایف پر بی ایل اے میں انتشار کو ہوا دینے کا الزام لگانے والے اسی گروہ نے بلوچ قومی تحریک آزادی کے انتہائی قابل احترام رہنما مرحوم سردار خیر بخش مری اور مہران مری کے خلاف الزام تراشی و کردار کشی کی مہم چلا کر بی ایل اے کو تقسیم کیا۔ پانچ سال تک مسلسل بی ایل ایف اور اس کی قیادت کے خلاف سوشل میڈیا میں جھوٹی پروپیگنڈہ مہم چلائی گئی۔ وہ بلوچ قومی تحریک آزادی سے جڑی سیاسی جمہوری تنظیموں بی این ایم، بی ایس او اور بی آر پی کے خلاف مسلسل زہر اگلتے رہے۔ بحث، غور و تحقیق اور تنقید کے نام پر ملک اور بیرون ملک آزادی پسند بلوچ سیاسی کارکنوں، دانشوروں اور ہمدردوں کی نشاندہی کرکے پاکستانی خفیہ اداروں کا کام آسان کرتے رہے۔ اور بے بنیاد الزامات لگا کر تحریک سے جڑی قوتوں، ہمدردوں اور عوام کے اندر تحریک سے بددلی اور مایوسی پھیلانے کی ناکام کوشش کرتے رہے۔

گہرام بلوچ نے کہا کہ مرحوم سردارخیربخش مری کے قبرکی مٹی ابھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ مڈی کے نام پر اس گروہ نے یونائیٹڈ بلوچ آرمی (یو بی اے) کے خلاف اعلان جنگ کر دیا، جس کے نتیجے میں متعدد بلوچ سرمچار دشمن کے بجائے اسی عاقبت نااندیش گروہ کے ہاتھوں شہید ہوئے۔ اسی وجہ سے کئی ساتھی اور حامی بڑی تعداد میں مایوس اور بددل ہوئے، جن میں سے کافی لوگ چنگیز مری کے ذریعے سرکاری کیمپ میں جا بیٹھے اور بہت سے لوگ تحریک آزادی سے مکمل طور پر کنارہ کش ہوکر خاموش ہوگئے۔ یوں کوہستان مری جیسا ایک مضبوط محاذ ٹوٹ کر کمزور ہوگیا۔ اسی ہائی کمان کی انا کی تسکین کیلئے بلوچ قومی تحریک آزادی کی ایک عظیم بزرگ ہستی واجہ رحمدل مری کو اس گروہ نے اغوا کرکے لاپتہ کیا جو کہ ڈھائی سال سے زائد کا عرصہ گزرنے کے باوجود ہنوز لاپتہ ہیں۔ اسی گروہ نے پسنی میں بی ایل ایف کے ایک سرمچار پر قاتلانہ حملہ کرکے اسے زخمی کیا مگر بی ایل ایف کی قیادت نے تحمل سے کام لیتے ہوئے آپس میں مسلح تصادم کی سازشوں کو ناکام بنادیا۔

گذشتہ سال جب بشیرزیب بلوچ و دیگر (ان کا نام بی ایل اے کی نام نہاد ’’ہائی کمان‘‘ نے فاش کیا ہے وگرنہ یہاں حوالہ دینے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ ہم جنگی حکمت عملی اور اخلاقی ذمہ داریوں کے پیش نظر مسلح جد وجہد میں کسی کا نام فاش کرنے کے خلاف ہیں) نے اتحاد کے حوالے سے بی ایل ایف کی قیادت سے رابطہ کیا تو بی ایل ایف کی قیادت نے سمجھا کہ شاید اس گروہ کو اپنی غلطیوں کا احساس ہوچلا ہے۔ اسی لئے ہم نے جلدبازی میں کوئی فیصلہ کرنے کے بجائے رابطے جاری رکھنے پر اتفاق کیا اور اتحاد کی کوششوں کو بارآور بنانے کیلئے واجہ رحمدل مری کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ جبکہ ان دوستوں کا اصرار تھا کہ پہلے ساتھ بیٹھتے ہیں مسائل پر بات کرتے ہیں کوئی نہ کوئی حل نکل ہی آئے گا۔ اس تمام عرصے میں نام نہاد ہائی کمان نے اسلم بلوچ اوربشیر بلوچ سے نہ لاتعلقی کا اعلان کیا اور نہ ہی اتحاد کیلئے بنائی گئی کمیٹی سے انھیں نکالا۔ اسی ہائی کمان کے اپنے ہی کمیٹی سے مزاکرات کے بعد جب اتحاد کا اعلان ہوا تو تب بھی بی ایل اے کی جانب سے کوئی مخالفت سامنے نہیں آئی۔ اب اچانک اس اتحاد میں انھیں خرابی نظرآنے لگی ہے، جو کسی بھی ذی شعور کو ہضم نہیں ہو سکتا۔

گذشتہ مہینے جب جنیوا میں آزادی پسند سیاسی پارٹیوں نے میٹنگ کا اعلان کیا تو تب بھی اپنے بعض بنیادی نوعیت کے تحفظات کے باوجود بی ایل ایف نے اتحادکے لئے ان کوششوں کے آگے کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی۔

دراصل نام نہاد ہائی کمان اپنی جھوٹی اناو مطلق عنانیت کے قید اور چند درباری دانشوروں اورمفاد پرستوں کے نرغے میں بری طرح پھنسی ہوئی ہے۔ بی ایل ایف کے بارے میں ’’ہائی کمان‘‘ اور پاکستان آرمی و آئی ایس آئی کے الزامات میں حیران کن مماثلت پائی جاتی ہے۔ اگر آپ بی ایل ایف کے خلاف بی ایل اے ’’ہائی کمان‘‘ کے بیان اور آئی ایس آئی کی چارج شیٹ کو ایک ساتھ رکھیں تو دونوں میں فرق نکالنا جوئے شیر لانے کے برابر ہوگا۔ آخر میں ہم بلوچ سرمچاروں، سیاسی کارکنوں، دانشوروں اور بہی خواہوں سے اپیل کرتے ہیں کہ بی ایل اے ہائی کمان کے نام پر جو بلیم گیم سوشل میڈیا میں دوبارہ شروع کی گئی ہے اس گندے کھیل کاحصہ بننے سے گریز کرتے ہوئے صبروتحمل سے کام لیتے ہوئے اس گھناؤنی سازش کوناکام بنائیں۔