اس سال انسانی حقوق کے بین الاقوامی دن کا موضوع ہے، ’انسانی حقوق کے لیے کھڑے ہو جائیں‘۔ لیکن کئی ماہرین کے بقول پاکستان میں انسانی حقوق کے کارکن جب ایسا کرتے ہیں، تو ان میں سے کئی جبری طور پر غائب کر دیے جاتے ہیں۔
انسانی حقوق کے شعبے میں پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے ڈوئچے ویلے کے ساتھ ایک انٹرویو میں پاکستان میں انسانی حقوق کی علمبردار سرکردہ شخصیات میں سے ایک اور ملکی سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی سابقہ صدر عاصمہ جہانگیر نے تین بڑے مسائل کی نشاندہی کرتے ہوئے بتایا، ’’پاکستان میں مذہبی عدم برداشت، اظہار رائے کی معدوم ہوتی ہوئی آزادی اور قانون کی کمزور عملداری اس وقت ملک کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔ قانون کی کمزور عملداری کی ایک وجہ عام شہریوں کو عدالتوں کی طرف سے انصاف کی فراہمی کا غیر یقینی ہونا بھی ہے۔ انسانی حقوق کے احترام کی صورت حال کے غیر یقینی ہونے کی ایک وجہ عدالتوں کا رویہ بھی ہے۔ یہ عدالتیں دراصل فوجی حکومتوں کی باقیات ہیں اور اس بات کا مظہر ان کے رویے اور فیصلے ہیں۔ ‘‘
عاصمہ جہانگیر نے اس بارے میں افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں مجموعی طور پر بنیادی انسانی حقوق سے متعلق آگاہی ریاستی پالیسیوں، ان پر عمل درآمد اور فیصلوں میں نظر نہیں آتی۔ اس کے علاوہ انتظامی فیصلوں کی سطح پر ریاستی عملداری کو یقینی بنانےوالے ادارے، مثال کے طور پر پولیس، بھی بظاہر انسانی حقوق کے فلسفے کو ناسمجھتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ عاصمہ جہانگیر نے پاکستان میں انسانی حقوق کی پامالی کا سب سے بڑا ذمہ دار ریاست کو ٹھہرایا۔
جب ڈی ڈبلیو نے عاصمہ جہانگیر سے یہ پوچھا کہ جنوبی ایشیائی تناظر میں انسانی حقوق کی صورتحال کے لحاظ سے پاکستان اس وقت کہاں کھڑا ہے، تو انہوں نے کہا، ’’انسانی حقوق کی پامالی مختلف پیمانے پر ہر جگہ ہی ہوتی ہے۔ لیکن بھارت اور سری لنکا جیسے ممالک میں جمہوری استحکام کے باعث ملزمان کو کٹہرے میں لایا جا سکتا ہے جبکہ پاکستان میں سیاسی عدم استحکام کے باعث صورتحال کافی ابتر ہے۔ مثال کے طور پر سری لنکا میں جبری گمشدگیاں اب ماضی کاحصہ بن چکی ہیں جبکہ پاکستان میں یہ آج بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے، جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ بھارت میں مذہبی انتہا پسند ووٹوں کی طاقت سے انسانی حقوق کی صورتحال خراب کر رہے ہیں جبکہ پاکستان میں آج تک مذہبی قوتیں ووٹوں کی طاقت سے اقتدار میں نہیں آئیں۔ اگر پاکستان میں جمہوری رویے اور اقدار تقویت پائیں تو ان سے حاصل ہونے والی سویلین بالادستی کی مدد سے انسانی حقوق کی صورتحال بہتر بنائی جا سکتی ہے۔‘‘
عاصمہ جہانگیر نے مزید کہا، ’’پاکستان میں کئی حوالوں سے بہتری بھی آئی ہے لیکن چند حوالوں سے مزید خرابی بھی آئی ہے۔ مثال کے طور پر آج ملک میں مذہب کے بارے میں کوئی بھی کوئی بات نہیں کر سکتا۔ پھر لوگ اچانک غائب بھی ہو جاتے ہیں لیکن ملکی انٹیلجنس ایجنسیوں سے کوئی کچھ پوچھ ہی نہیں سکتا۔‘‘
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان یا ایچ آر سی پی پاکستان کا ایک غیر سرکاری ادارہ ہے، جو ملک میں انسانی حقوق کے لیے سرگرم سب سے بڑی اور فعال ترین غیر حکومتی تنظیم ہے۔ اس کمیشن سے عشروں تک ایک اہم مرکزی عہدیدار کے طور پر منسلک رہنے والے انسانی حقوق کے سرکردہ علمبردار اور معروف صحافی آئی اے رحمان نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں کہا،’’پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال بہت اچھی نہیں ہے۔ بنیادی حقوق لوگوں کو ملتے ہی نہیں۔ بلاجواز لوگوں کو پکڑ لیا جاتا ہے۔ وہ اچانک غائب ہو جاتے ہیں اور پھر ان کی لاشیں برآمد ہوتی ہیں۔‘‘
آئی اے رحمان کے مطابق،’’پاکستان میں جمہوریت بھی ڈاواں ڈول ہے۔ بنیاد پرست قدامت پرستوں نے ریاست کو بھی اغوا کیا ہوا ہے۔ خواتین اور اقلیتوں کے حقوق پہلے ہی بہت کم ہو چکے ہیں اور انسانی حقوق کی پامالی بڑھ گئی ہے۔ پاکستان میں انسانی حقوق کا احترام کرنے والے دیگر ممالک کی نسبت یہ صورتحال اس لیے بھی خراب ہو چکی ہے کہ یہاں کسی حکومت میں قوانین کی عملداری کو یقینی بنانے کا عزم نظر ہیں آتا۔‘‘
پاکستان میں فرسودہ رسوم و رواج کے خلاف آواز اٹھانے اور اس حوالے سے ایک مہم چلانے والی معروف سماجی کارکن ثمر من اللہ سے جب ڈی ڈبلیو نے یہ پوچھا کہ پاکستان میں انسانی حقوق سے متعلق جو کچھ قانون کی کتابوں میں لکھا ہے، وہ عملی طور پر نظر کیوں نہیں آتا، تو انہوں نے کہا، ’’سب سے بڑا مسئلہ قوانین کے احترام اور انہیں نافذ کرنے کا ہے۔ پاکستان میں جتنی بھی قانون سازی کی گئی ہے، وہ کسی بھی معاملے یا مسئلے کو حل کرنے کے لیے کافی ہے۔ مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے، جب بات قانون کی عملداری کی ہوتی ہے۔ جب تک قوانین کا عملی نفاذ نہیں ہو گا، اس وقت تک قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنا کام پوری طرح اور مکمل غیر جانبداری سے ویسے نہیں کریں گے، جیسا کہ قوانین تقاضا کرتے ہیں، تب تک پاکستانی معاشرے میں کوئی حقیقی تبدیلی دیکھنے میں نہیں آئے گی۔‘‘
اقوام متحدہ کی طرف سے انسانی حقوق کا عالمی دن ہر سال دس دسمبر کو اس لیے منایا جاتا ہے کہ 1948ء میں دس دسمبر کو ہی اس ادارے نے انسانی حقوق کا عالمگیر اعلامیہ منظور کیا تھا۔ دوسری طرف پاکستان میں انسانی حقوق کے عدم احترام کی مجموعی صورت حال کا پریشان کن ہونا اس لیے بھی ایک تکلیف دہ حقیقت ہے کہ پاکستان کو اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل کا رکن بھی منتخب کیا جا چکا ہے، جو اسلام آباد حکومت کے مطابق پاکستان کے لیے ایک اعزاز ہے۔
اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کونسل کے رکن ممالک کی تعداد سینتالیس ہے۔ پاکستان کو اسی سال موسم خزاں میں گیارہ دیگر ریاستوں کے ساتھ اس کونسل کا تین سال کے لیے رکن منتخب کیا گیا تھا۔پاکستان عالمی ادارے کی اس ہیومن رائٹس کونسل کا جنوری دو ہزار اٹھارہ سے دسمبر دو ہزار بیس تک رکن رہے گا اور اس کے انتخاب کی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے رکن ممالک میں سے دو تہائی سے زائد نے حمایت کی تھی۔