فرانس اور الجزائر کے دو سو سے زائد شدت پسندوں نے افغانستان میں کیمپ قائم کردیا

224

شام اور عراق کے بعد اب افغانستان میں جڑیں پکڑنے والی ’اسلامک اسٹیٹ‘ میں فرانسیسی و الجزائری جہادیوں کی نشاندہی ہوئی ہے۔ پہلی مرتبہ افغانستان میں کسی فرانسیسی جہادی کی موجودگی کا انکشاف ہوا ہے۔

شمالی صوبے جوزجان کے ایک ضلع درزاب کی ضلعی انتظامی کے نگران محمد داور نے نیوز ایجنسی کو بتایا کہ فرانس اور الجزائر سے تعلق رکھنے والے جہادی رواں برس نومبر میں افغانستان میں داخل ہوئے تھے۔ کابل میں یورپی اور امریکی فوجی ذرائع نے داور کے دعوے کی تصدیق کی ہے۔ درزاب ضلع پر اسلامک اسٹیٹ کا غلبہ بتایا گیا ہے۔

افغانستان پہنچنے والے جہادیوں کی حتمی تعداد کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا ہے۔ بعض رپورٹوں کے بعد ایسے دو سو جہادیوں نے درزاب کے نواحی گاؤں بی بی مریم کے قریب اپنا کیمپ قائم کر دیا ہے۔ مقامی لوگوں نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو ان کی تعداد دو سو تک بیان کی ہے۔ اس گروپ کے ایک سرکردہ شخص کو مقامی لوگ ’حاجی‘ کے نام سے پکارتے ہیں۔

 یہ ضرور بتایا گیا کہ ان کے ہمراہ تقریباً پچاس بچے ہیں اور بعض کی عمریں دس برس تک ہیں۔ ان بچوں کو بھی جہادی بنانے کی تربیت دی جا رہی ہے۔ اے ایف پی کے مطابق مقامی لوگوں کے مطابق یہ جہادی لمبے تڑنگے اور صحت مند ہونے کے علاوہ فوجی وردیاں پہنے پھرتے ہیں۔

یہ جہادی اب وسطی ایشیائی ریاست ازبکستان کے ساتھ جڑے سرحدی علاقے میں پھیل چکے ہیں۔ ایسی بھی رپورٹس ہیں کہ یہ جہادی کابل پر سنگین حملوں میں شریک ہو چکے ہیں۔ افغان سرزمین پر قدم رکھتے وقت ان کے ہمراہ تاجک، چیچن اور ازبک مترجم بھی ہیں۔

جوزجان صوبے کے گورنر کے ترجمان محمد رضاغفوری کا کہنا ہے کہ درزاب علاقے میں قفقاذ علاقے کی لوگوں جیسی شبہات رکھنے والے لوگ دیکھے گئے ہیں۔ ترجمان کے مطابق فرانسیسی زبان بولنے والے ان لوگوں میں مردوں کے ساتھ ساتھ عورتیں بھی شامل ہیں۔

افغان سکیورٹی ذرائع نے شمالی افغانستان میں جڑیں پکڑتی ’اسلامک اسٹیٹ‘ میں فرانسیسی اور الجزائری جہادیوں کی موجودگی کو ایک نئے خطرے کا پیش خیمہ قرار دیا ہے۔ یہ تنظیم پہلے ہی ننگر ہار اور کنڑ کے صوبوں دہشت گردانہ سرگرمیوں میں مصروف ہے۔

مبصرین کے مطابق افغانستان میں فرانسیسی جہادیوں کی موجدگی یقینی طور پر فرانس کے حکومتی اور خفیہ حلقوں کے لیے یک نئی پریشانی بن سکتی ہے۔