غور و فکر سے فکری معذوری کا خاتمہ ___ مرید بلوچ

699

جب بھی ہاتھوں میں قلم اٹھانے کی نوبت اس لئے آئے کہ اپنے جذبات ،خیالات اور دل و ذہن میں جو باتیں، نقشہ ا ور رائے درج ہیں انہیں عیاں کر سکوں تب تب یہ ضرور سوچتا ہوں کہ کیا وہی جو سوچتا ہوں لکھ دوں یا اس کی کڑواہٹ میں کمی کر کے اپنے ہی سوچ میں کچھ منافقانہ انداز میں ردوبدل کر دوں کیوںکہ سچ تو ہمیشہ سے ہی کڑوا رہا ہے۔ اس کڑواہٹ کے ساتھ اگر لکھنا شروع کر دیا تو ڈر ہے کہ کہیں اس قلم پر منکر فکر کا لیبل لگا کر سنگتوں کی لسٹ میں نا صرف آخری درجے پر رکھا جاوںگا بلکہ آزادی کی تحریک کے ساتھ منسلک ہماری مخلصی کو مختلف طریقوں سے اپنے اپنے طے کردہ پیمانوں میں تولا جائیگا۔ خیر جب نوبت قلم اٹھانے تک آ ہی چکی ہے، تو کوشش کرونگا کہ کچھ حد تک اپنی بات آپ تک پہنچا دوں اور کسی حد تک وہی روایتی طریقے سے منافقانہ ردوبدل بھی کروں تا کہ صفوں سے خارج نا کر دیا جاوٗں۔

بلوچ قومی تحریک میں تین شخصیات ڈاکٹر اللہ نظر، بشیر زیب اور حیر بیار مری سے ہمیشہ ہی بہت متاثر رہا ہوں، مگر بدقسمتی سے ہر بار انہی کے گرد تحریکی مسائلوں کے انبار کو دیکھ کر فیصلہ کر لیا تھا کہ اب صرف نظریہ پر یقین رکھنا ہے اور اس نظریہ پر ہی اعتماد کر کے آزادی تک پہنچنا ہے۔ ایک دیوان میں کسی دوست نے سوال کیا کہ سنگت کیا آپ حیر بیار مری کے نظریاتی ساتھی ہیں، تو ایک لمحے کیلئے میں سوچ میں پڑ گیا تھا کہ سنگت حیر بیار مری کا نظریہ کیا ہے؟ اور کیا اس نظریے کا کوئی تعارف بھی ہے۔ کیا سنگت کی تقلید و پیروکاری ہی سنگت کا نظریہ ہے یا ہر و ہ کارکن جوبلوچ قومی تحریک کے ساتھ مخلص ہے اور اس کاروان کا سپاہی ہے وہ سنگت حیر بیار مری کا ساتھی اور نظریاتی سنگت ہے۔ سنگت حیر بیار مری جنکا نام پہلی بار تب سنا تھا جب ہم نظریہ آزادی سے اس قدر آشنا نا تھے کہ وہ لندن میں گرفتار ہوئے تھے اور بی ایس او کے دوست ہمیں پریس کلب لے گئے، جہاں مظاہرہ ہوا اور سنگت کی تصویر نظروں سے گزری، اس کے بعد بس اتنا معلوم تھا کہ بلوچ تحریک کے ایک رہنما ہیں جو بیرونی سفارتکار ی کی زمہ داریاں اٹھائے ہوئے ہیں۔ پھر چلتے چلتے ایک موڑ پر یہ خبر ہوئی کہ اس تحریک کو شروع کرنے والوں میں سے ایک سرکردہ نام بھی سنگت حیربیار مری کا ہی ہے، تو سنگت کے بارے میں پڑھنا اور دیوانوں و مجلسوں میں دوستوں سے پوچھنا شروع کر دیا اور ہمیشہ اعتدال کے بجائے انتہا کو جواب پایا۔

کسی نے انتہا کی حد تک تعریفوں کی بارشیں کی، تو کسی نے انتہائی حد تک تہمت لگانا شروع کر دیا، خیر چونکہ میں بذات خود سنگت کی شخصیت سے متاثر تھا، تو تعریفیں ہی سمجھ میں آئیں اور باقی باتیں منافقانہ سمجھ کر رد کر دیا۔ بلوچ قومی تحریک کے آج کی حالت کا اگر اندازہ لگایا جائے، تو ایک چیز جو محسوس کی جا سکتی ہے کہ ایک وقت تھا کہ بلوچ سیاسی کارکن صرف مستقبل کا خواب دیکھتے تھے اور آج ایک وقت ہے کہ کبھی کبھار ماضی کے خواب دیکھنے لگتے ہیں کہ کاش وہ دن واپس آ جائیں یعنی مستقبل کا خواب دیکھتے دیکھتے آج ماضی کے خواب دیکھ رہے ہیں اور جب بھی مستقبل کی جگہ ماضی کی فکر زیادہ ہو تو سمجھ جائیں کہ منزل مستقبل کی رخ جس رستے کا انتخاب کیا ہے، اس رستے یا اس پر چلنے والے طریقہ کار میں کوئی خامی ضرور ہےاور ان خامیوں کے زمہ داری چاہتے یا نا چاہتے ہوئے سب سے پہلے اس قیادت یعنی ان عظیم لیڈران جن کے بارے میں سوچ کرہماری زبان سے صرف شہد ہی ٹپک سکتی ہے ہیں۔ یہ انہی کی کمزوریوں کے سر جاتا ہے جنہوں نے تحریک کا بِھیڑا اٹھایا ہوا ہے اور ایک عرصے سے تحریکی مسائل کا سبب بن رہے ہیں۔ مگر حل کی طرف نہیں جا پا رہے۔ ایک دانشور نے لیڈری کی تعریف کچھ اس طرح کی ہے کہ “کمزور لیڈر لوگوں کو صرف بتاتا ہے، ایک اچھا لیڈر تشریح کرتا ہے اور ایک بہترین لیڈر کر کے دکھاتا ہے اور عظیم ترین لیڈر دوسروں کو ہر لحاظ سے متاثر کرتا ہے با اثر لیڈر خراب حالات میں اپنے کردار و صلاحیتوں سے کامیابی حاصل کرتا ہے اور یہی وہ لیڈر ہیں جو ہر طرح کے حالات میں مسائل کا حل نکال لیتے ہیں کیونکہ وہ مسائل کے بجائے انکے حل پر نظر رکھتے ہیں”۔ مگر بلوچ قومی تحریک کی قیادت اس حوالے بلکل ناکام نظر آ رہی ہےاور اس ناکام قیادت کی کمزوریوں سے بڑھ کر تحریک کے اس حالت کی زمہ داری ان فکری طور پرمعذور پیروکاروں کی ہے، جو اپنی تمام سیاسی شعور کو کسی ذات کی پیروی سے وابستہ کرچکے ہیں اور اس پیروی کو ہی قوم پرستی قوم دوستی و قومی خدمت کا نام دے دیتے ہیں۔ یعنی فکری سنگت کا نعرہ لگانے والے کارکنان کی وابستگی کسی ایسے فکر سے نہیں جسکو دلائل کے ساتھ ثابت کر کے عام عوام کو متاثر کر سکیں بلکہ انکی وابستگی صرف اس فکر سے ہے کہ فلاں کبھی غلط نہیں ہو سکتا اور اس فلاں کی قدر و قیمت تحریک آزادی سے اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ اس کی منشاء ہی اصول بن جاتے ہیں اور اس کی ذات نظریے کی شکل اختیار کر لیتا ہے اور اسکی شخصیت ہی ہماری پہچان اور مقصد بن جاتی ہے۔

بلوچ کارکنان کی سیاسی شعور اور نظریاتی پختگی کا اندازہ لگانے کے لئے ان سے اگر یہ سوال کیا جائے کہ آج سے دس سال بعد تحریک کو کہاں دیکھ رہے ہیں تو شاید ہی کوئی ایسے پختہ نظریات سے لیس سنگت ہو، جو اس سوال کا جواب دلائل کے ساتھ دے سکتا ہو، اکثریت میں وہ کارکناں جواب کہاں سے لائیں جنہوں نے غور فکر کے بجائے صرف پیروی ہی سیکھا ہے اور چونکہ یہ جواب تو انکے ان شخصیات اور شخصی نظریے کے پیمانوں سے کبھی اترا ہی نہیں جنہوں نے تحریک کو محض حالات کے رحم و کرم پر چھوڈ دیا ہے۔ مزید اگرماضی کے ان مسائل کو چھیڑا جائے جس میں مجھ سمیت اکثر کارکناں براہ راست یا بلواسطہ شامل رہے ہیں یعنی کچھ سال پہلے جب بلوچ قومی تحریک میں آپسی کشمکش شروع ہوئی تو بہت سے با شعور نوجوان کارکن کسی شخص کی باتوں یا مشکل الفاظ کے چناوٗ کے ساتھ لکھی گئی تحریر سے متاثر ہو کر جنکے خلاف اٹھ کھڑے تھے، مخلتف نوعیت کے الزامات لگا رہے تھے، اچانک آج وہ قابل قبول ہوئے اور جو قابل قبول تھے آج نا قابل قبول، مگر یہ سب کیوں ،کس لئے ،کس بنا پر، تو جواب صرف ایک، فلاں کے بقول ۔ مختصراً یہ کہ اختلاف نظریات سے ہونے چاہئے تھے نا کہ شخصیات پر مگر بد قسمتی سے یہاں اختلاف بھی شخصیات سے اور اعتماد بھی شخصیات پراور اس درمیان اصول و نظریہ کو خدا نامی شہ ہی ڈھونڈ سکتا ہے۔

اب ایک نازک بحث کو چھیڑنا چاہوں گا، اس مقصد کیلئے کہ عام سیاسی کارکن اپنے رویوں کو سمجھ کر انہیں تبدیل کر سکیں، جیسا کہ حال ہی میں قومی فوج بلوچ لبریشن آرمی مسائلوں کا شکار ہے، تو اس نقطے سے قطع نظر کہ کون غلط ،کون صحیح اور کون ان مسائل کا زمہ دار ہے۔ ہمیں کن رویوں میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے، آج قومی فوج بلوچ لبر یشن آرمی کے دو حصے ہو چکے ہیں اور ہر حصہ دوسرے کو اصولوں کا منکر پکار کر خود صحیح ہونے کا دعویٰ کر رہا ہے اور عام کارکن بنا سوچے سمجھے اپنے اپنے نزدیکی و وابستگیوں کودھیان میں رکھ کر ایک کی حمایت اور دوسرے کی مخالفت کر رہا ہے۔ اگر کچھ پل کو ایک عام کارکن یہ سوچے کہ جب بی ایل اے کے دونوں حصے ایک ساتھ تھے اور پوری طاقت یکجا ریاست کے خلاف تھی تو کتنی کاروائیاں ہوتی تھیں اور آج جب دونوں حصے جدا جدا کاروائیوں میں مصروف ہیں تو پہلے کی نصبت ان کاروائیوں میں کمی ہوئی ہے یا اضافہ؟ یقینااضافہ ہوا ہے اور اس اضافے کی وجہ دشمن کو نقصان دینے کے ساتھ ساتھ کچھ شخصیات کی آپسی مقابلہ بازی بھی ہے۔ان مسائل کو زیرِ بحث لانے کا مقصد ہر گز یہ نہیں کہ کوئی شخص یا فرد تحریک کی قیادت نہیں کر سکتااور بلوچ قوم ہر ایک سے ناامید ہو جائیں بلکہ سیاسی کارکنوں کو کارکن سے لے کر اعلیٰ سے اعلیٰ فرد تک ہر ایک کے عمل کو تنقیدی نقطہ نظر سے دیکھنا چاہئے اور قوم کی قیادت ہر گز کسی ایسے شخص کے ہاتھ نہیں دینا چاہئے جسمیں اتنی قابلیت ہی نا ہو کہ بلوچ تحریک کو اندرونی مسائل سے چھٹکارا دلاسکے اور ذاتی خواہشات اورذہنی تسکین کو اجتماعی مفاد پر قربان کر سکے۔ اس وقت بلوچ کارکن ہی ہیں جو اس نازرک و مشکل حالات میں کردار ادا کر کے عوام کو مایوس ہونے سے بچا سکتے ہیں۔

تاریخ سے ثابت ہے کہ تحریکیں مسائل کا شکار ہوتی ہیں، کمزور ہو تی ہیں اور ناکام بھی ہو جاتی ہیں، مگر غور و فکر ہی کی وجہ سے ہزار کمزوریوں و ناکامیوں کے بعدایک توانا تحریک جنم لے سکتی ہے۔ بشرطیکہ کارکن فکری معذوری سے نکل کر رویوں میں تبدیلی لا ئیں، ثابت قدم رہیں اور ان تمام مسائل و مشکلات کے باوجود حوصلے کے ساتھ آگے بڑھتے جائیں، کیونکہ تحریکوں کی سب سے بڑی کامیابی ہی یہی ہے کہ وہ عوام کو مایوس نہیں ہونے دیتے، بلکہ ان میں امید و تبدیلی کی خواہش کو ہمیشہ زندہ رکھتے ہیں۔