افغانستان میں امن مذاکرات کی کوششوں سے وابستہ سرکاری پینل نے بدھ کے روز طالبان کو پہلی بار یہ پیشکش کی ہے کہ وہ امن مکالمے کا آغاز کرنے کے لیے، کابل یا اپنی پسند کے کسی دوسرے ملک میں اپنا نمائندہ دفتر قائم کر سکتے ہیں۔
طالبان نے فوری طور پر اس پیشکش کو مسترد کیا۔ تاہم، اُنھوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ اُن کی حریف ’’امریکی قبضے‘‘ والی افواج ہیں، جنھوں نے کابل کی حکومت تشکیل دے رکھی ہے۔
ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ افغانستان میں غیر ملکی موجودگی ہی ’’اصل مسئلہ‘‘ ہے۔
اُن کے بقول، ’’ہمیں کابل میں دفتر قائم کرنے کی کوئی ضرورت نہیں، چونکہ نصف سے بھی زیادہ افغانستان ہمارے کنٹرول میں ہے اور سارا افغانستان ہی ہمارا دفتر ہے‘‘۔
غیر سرکاری طور پر 2013ء سے طالبان نے قطر میں اپنا خودساختہ ’’سیاسی دفتر‘‘ قائم کر رکھا تھا۔ لیکن، افغان حکومت نے ابتدا ہی سے اس تنصیب کو تسلیم کرنے سے انکار کیے رکھا۔ صدر اشرف غنی نے طویل عرصے سے مشرق وسطیٰ کے ملکوں سے مطالبہ کر رکھا تھا کہ طالبان کی جانے سے افغانستان بھر میں حملوں میں شدت آنے کے بعد، باغیوں کے دفتر کو بند کیا جائے۔
سرکاری سطح پر قائم کی گئی اعلیٰ سطحی امن کونسل کے ایک سینئر رُکن نے بدھ کے روز افغان دارلحکومت میں اخباری نمائندوں کی موجودگی میں اس نئی پیش کش کا اعلان کیا۔
محمد اکرم خپلواک نے کہا ہے کہ بغیر شرائط کے وہ امن عمل میں شامل ہونے پر تیار ہیں؛ یا یہ کہ طالبان جو بھی تجویز کریں ہم اُس طریقہٴ کار پر رضامند ہوں گے۔
خپلواک نے ’’قطر یا دیگر ملکوں میں یا پاکستان میں‘‘ رہنے والے باغی راہنما جنھیں جلاوطنی میں مشکل حالات کا سامنا ہے سے کہا کہ وہ ’’باعزت‘‘ مکالمے کے لیے، مذاکرات کی میز پر آجائیں، تاکہ تنازعے کی مشکلات کو ختم کیا جاسکے، جو افغانوں کو لاحق ہیں۔
خپلواک نے کہا کہ ’’اگر وہ دفتر قائم کرنا چاہتے ہیں، یا کسی بھی ملک میں ایسا کرنا پسند کریں گے، اور اُنھیں امن بات چیت کو بحال کرنے کے لیے سہولیات درکار ہوں، تو افغان حکومت اور اعلیٰ امن کونسل اس سلسلے میں سہولت کار بننے کے لیے تیار ہے‘‘۔
طالبان نے سال 2014 سے اب تک امریکی قیادت والی بین الاقوامی لڑاکا افواج کے خلاف اہم علاقائی پیش رفت حاصل کی ہے۔
ملک میں امریکی فوجوں اور نیٹو کے ’رزولوٹ سپورٹ مشن‘ کے کمانڈر، جنرل جان نکلسن نے گذشتہ ہفتے کہا تھا کہ افغان حکومت کو تقریباً 64 فی صد آبادی پر کنٹرول حاصل ہے، طالبان 12 فی صد آبادی پر قابض ہیں، جب کہ باقی 24 فی صد آبادی متنازع علاقے میں رہتی ہے