ہفتہ وار کالم ’’ نوشتہ دیوار‘‘ برزکوہی بلوچ کے قلم سے
شکست و زوال کے اسباب اور درباری لوگ
پاکستان کے سابق آمر جنرل ایوب خان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کیلئے ایک الگ اخبار شائع کیا جاتا تھا جس میں ہر طرف اچھا ہے، پورا پاکستان اس کی حمایت میں کھڑا ہے، اسے اپنا لیڈر مانتے ہیں۔
ایک دن ایوب خان گھر میں بیٹھا تھا کہ پاس ہی اس کے دو نواسے کھیل رہے تھے، اسی کھیل کود میں اچانک اس کے نواسوں نے ، مشہور و معروف نعرہ ’’ ایوب کتا ، ہائے ہائے‘‘ لگانا شروع کیا ۔
نواسوں کی آواز سن کر ایوب خان ششدر رہ گیا کہ یہ کیا کہہ رہے ہیں ۔
اس نے نوکر سے پوچھا کہ یہ میرے نواسے آج ایسا کیوں کہہ رہے ہیں ۔
تو نوکر نے کہا کہ جناب یہ نعرہ تو پورے پاکستان میں گونج رہا ہے ، یہ بچے جب اسکول جاتے اور آتے ہیں تو راستے میں لوگوں کو یہ نعرہ لگاتے ہوئے سنتے ہیں۔
تاریخ کے صفات کی ورق گردانی سے ہمیں ایسے درجنوں بلکہ سینکڑوں حقیقی واقعات ملتے ہیں جہاں بڑے سے بڑے سطلنت ، لیڈرز کو درباری مشیران نے حقیقی حالات سے بے خبر رکھ کر درباری ،شاعروں نے ان کی شان میں شاعری کرکے اور درباری دانشوروں نے ان کے حق میں قصیدہ خوانی کرکے زوال کی گہراہوں میں لے گئے۔
درباریوں کی اکثر یکساں فطرت اور طریقہ کار رہا ہے کہ وہ خوشنودی، خوشامدی اور چاپلوسی کرکے لیڈرز کو حقیقی صورتحال سے یکسر بے خبر رکھتے ہیں، اور ہمیشہ اس کے سامنے کہتے ہیں کہ سب کچھ خیر خیریت اور صحیح طریقے سے چل رہا ہے، عوام آپ سے بہت خوش ہے، لوگ آپ کی شخصیت سے متاثر ہیں، بلکہ ہر گذرتے دن آپ کی حمایت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔
لیکن تاریخ کے تلخ تجربات اور واقعات گواہ ہیں کہ بڑے سے بڑے اور تاریخی سلطنت ، اور پارٹیاں زوال کے شکار ہوچکے ہیں اورآج صرف بطور عبرت ان کا ذکر ہوتا ہے ۔
شاید درباری لوگوں کے علاوہ اور بھی وجوہات ہوں، لیکن اگر کوئی ہر دور کے زوال شدہ سلطنت، تحریک اور پارٹیوں کا صحیح معنی میں اور باریک بینی سے مطالعہ و تجزیہ کیا تو شکست و زوال کی اہم وجوہات میں سب سے اہم وجہ درباری لوگوں کا رہا ہے ۔
درباری لوگ وہ ہیں، جو اپنے اشعار تحریر اور مشوروں سے زمینی حقائق کو مسخ کرکے اپنے حضور کی نازک مزاج اور طبیعت کو مدنظر رکھ کر اسی کے مطابق صورتحال کو پیش کرتے ہیں، تاکہ بادشاہ سلامت اور لیڈر صاحب مجھ سے خوش ہو،اور دربار میں کوئی اوراچھا مقام حاصل ہو۔
اگر کوئی اور شخص کبھی حضور کے سامنے اصل حقائق کو بیان کرے یا حضور کو آگاہ کرے تو فورا سب سے پہلے درباری لوگ حضور کو کہیں گے، صاحب یہ تو جھوٹ بول رہا، یہ حقائق نہیں بلکہ آپ کو صرف ناکام ثابت کر رہا ہے، یہ گستاخی اور سازش کررہا ہے آپ کی شان میں ،یہ دوست نہیں بلکہ دشمن ہے آپ کو ایسے لوگوں سے دور ہونا چاہیے ،یہ آپ کے ہرگز خیرخواہ نہیں ہے پھر حضور بھی خوش ہوگا کیونکہ سچائی اور اصل حقائق شاید حضور کے نازک مزاج اور طبیعت کے برعکس ہونگے۔
اکثر بڑے لوگوں کا یہ فطرت ہوتا ہیں وہ ہمیشہ وہ سننا پسند کرتے ہیں اور وہ برداشت کرتے ہیں اور اس چیز سے بے انتہاء خوش ہوتے جو ان کی طبیعت خواہش اور مزاج کے مطابق ہو، گوکہ وہ جتنے بھی زمینی حقائق سے برعکس کیوں نا ہو۔
کیا من الحیث القوم بلوچ نے آج تک اس پہلو پر باریک بینی اور سنجیدگی سے سوچا ہے کہ ہماری قیادت، لیڈر شپ اور کمانڈر علم و ہنر تجربہ اور عمل کے حوالے زوال پذیر سلطنت، تحریک اور جماعتوں کے حساب سے ہونگے جن کو درباریوں نے اپنے غلط
بیانی، غلط پیغام رسائی، چاپلوسی اور خوشامدی کے ذریعے اصل حقائق سے لاعلم و بے خبر رکھ کر زوال کے دہانے پر پہنچا دیا؟
کیا بلوچ سیاست برائے بلوچ قومی آزادی میں آج کے دور کے مطابق ایسے درباری موجودنہیں ہے؟
اگر ہیں، پھر کہاں کس حد تک ہیں؟
کیا بلوچ تحریک اس وقت اُن تمام بڑے سے بڑے سلطنت ،بادشاہت اور پارٹیوں سے زیادہ منظم، مضبوط اور طاقتور ہیں جو درباری اثرات کے زیر سایہ زوال کے کھائی میں جاگرے؟
لازماََ ایسا نہیں ہے، پھر اس پہلو پر غور و غوص کب ہوا اور کس حد تک ہوا؟
اگر غور و غوص اورفکرمندی نہیں ہے، پھر خدا نہ کرے موجودہ تحریک زمینی حقائق کے برعکس اس دفعہ درباری لوگوں کی خوشامدی اور چاپلوسی کی بھینٹ نہ چڑھ جائے،اور اکثر تحریکوں میں درباری لوگوں کی پشت پناہی میں دشمن کی بلواسطہ یا بلاواسطہ ہاتھ ضرور رہا ہے اور دشمن اپنی طویل المدت پالیسی تحریک کو ختم کرنے کی خاطر ایسے درباری لوگوں کو تحریک میں روانہ کرتا ہے،تاکہ اک دم نہیں تحریک کو آہستہ آہستہ کمزور یا ختم کیا جائے۔
اب تحریک کی قیادت کے اوپریہ منحصر کہ وہ کیسے اور کس طرح ایسے رویوں اور طریقہ کو سمجھ سکے گا یا نہیں !
یہ آنے والے وقت یہ بتا دیگا۔