بلوچ آزادی پسند رہنماء ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے ایک اخباری بیان میں کہا کہ بلوچستان میں خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے۔ بلوچستان میں کوئی شخص یا علاقہ ایسا نہیں جو ریاستی بربریت سے متاثر نہ ہو۔ فوجی آپریشن اور تلاشی کے نام پر خواتین و بچوں کی نہ صرف تذلیل کی جارہی ہے بلکہ انہیں اُٹھا کر ٹارچر سیلوں میں رکھ کر انسانیت سوز اذیتیں دی جا رہی ہیں۔ بلوچستان میں قانون، انسانی حقوق، میڈیا اور اظہار رائے کی آزادی جیسی چیزیں ناپید ہیں۔ کئی بلوچ صحافیوں کو قابض ریاست نے حق کی بات کہنے پر موت کے گھاٹ اُتار دیا ہے اور بیرونی صحافیوں کو بلوچستان کے بارے میں رقم طرازی پر اغوا، تشدد اور ویزا منسوخی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ نیویارک ٹائمز اسلام آباد کے بیورو چیف ڈیکلان واش کو بلوچ مسئلے پر لکھنے کی پاداش میں ویزا منسوخ اور پاکستان افغانستان کے نمائندے کارلوتھاگل کو ہوٹل میں پاکستانی ایجنسیوں کے اہلکاروں نے زدو کوب کرکے واپس بھجوا دیا کیونکہ انہوں نے حقائق جاننے اور لکھنے کی غلطی جیسی جرم کی تھی۔
قوم پرست رہنما نے کہا کہ میڈیا بلیک آؤٹ اور پاکستانی مظالم میں چین کے ساتھ پاکستان کا بلوچستان کے بارے میں معاہدات کے بعد شدت لائی گئی۔ ان میں نیشنل پارٹی کے رہنماؤں اور ان کی وزارت اعلیٰ کے دوران نام نہاد ترقی کے نام پر چین پاکستان اکنامک کوریڈور(سی پیک) منصوبے کے معاہدے پر دستخط کے بعد تشدد میں انتہا درجے کی شدت لائی گئی اور ہزاروں لوگوں کو اُٹھاکر غائب کیا گیا اور سینکڑوں بستیاں جلائی گئیں ۔ ان میں اکثر سی پیک روٹ پر واقع تھے۔ اگست 2016 کو کٹھ پتلی وزیر داخلہ سرفراز نے کہا نیشنل ایکشن پلان کے تحت 13,575افراد کو بلوچستان سے ’گرفتار‘ کیاگیاہے۔ دسمبر 2015 میں سیکریٹری داخلہ اکبر حسین درانی نے اعتراف کیا کہ اس سال 9,000 سے زائد مشکوک افراد کو ’گرفتار‘ کیا ہے۔ 2004 میں اس وقت کے وزیر داخلہ آفتاب شیر پاؤ، جو نواب اکبر خان بگٹی قتل کیس میں نامزد مجرم بھی ہیں، نے 4000 بلوچوں کو ’’گرفتار‘‘ کرنے کا اعتراف کیا۔ یہ قریبا 27000بنتے ہیں جن کا اعتراف ریاستی سطح پر ہوا ہے۔ مظالم کے ان دو دہائیوں میں ٹوٹل چالیس ہزار بلوچوں کو اٹھا کر لاپتہ کیا گیا ہے اور سینکڑوں کو تشدد کے دوران شہید کرکے لاشیں جنگل، ویرانوں اور سڑکوں پر پھینکی گئی ہیں۔ یہ نسل کشی ہے۔
ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے کہا کہ ان مظالم کا مقصد سی پیک منصوبے کو کامیاب بنا کر سازش کے تحت ماہرین کے نام پر کروڑوں چینی اور دوسرے غیر ملکیوں کی بلوچستان میں آباد کاری کا منصوبہ بنایا گیا ہے تاکہ بلوچستان کی ڈیموگرافی کو بدل کر بلوچوں کو ہمیشہ کیلئے اپنے ہی سرزمین پر اقلیت میں تبدیل کرکے ان کی شناخت کو ہمیشہ کیلئے ختم کیاجاسکے۔ اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کیلئے نیشنل پارٹی کی لیڈرشپ پاکستان کے ساتھ مل کر بلوچ نسل کشی کا ارتکاب کر رہا ہے۔ سی پیک روٹ و اس کے قرب و جوار، گوادر، دشت، تربت، سامی، شہرک، ہوشاپ، کولواہ، بالگتر، پروم، بلیدہ زعمران، پنجگور، ناگ، بسیمہ سمیت مختلف علاقوں میں زمینی و فضائی بمباری و شیلنگ سے کئی گاؤں صفحہ ہستی سے مٹائے گئے ہیں اور لاکھوں لوگوں کو بے گھر کرکے کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور کی گئی ہے۔ اس میں نیشنل پارٹی کی قیادت شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار بن کر عارضی دنیاوی مراعات و آسائش کیلئے بلوچ نسل کشی میں کالونائزر پاکستان کا ساتھ دیکر قابض ریاست کے ساتھ جرائم کا مرتکب ہے۔ اس طرح نیشنل پارٹی پاکستان کے ساتھ بلوچ قوم کا سب سے بڑا مجرم ٹھہرتا ہے کہ ان کی دور حکومت کی ڈھائی سال کی تباہ کاریاں پورے مشرف دور سے بھی زیادہ ہیں۔ تاریخ کے ظالم قلم سے ان کا نام جعفر و صادق سے بھی بدتر لکھا جائے گا۔
اللہ نذر بلوچ نے کہا کہ غلام سماج میں ترقی اس قوم کی فلاح و بہود کیلئے نہیں بلکہ سامراجی مقاصد کو آگے لے جانے کیلئے کئے جاتے ہیں۔ سی پیک ایک ایسا ہی منصوبہ ہے جس کے تحت سڑکیں تعمیر کرکے فوجی رسد کو آسان بنایا جائے گا تاکہ کارروائیوں کی شدت میں اضافہ لانے میں آسانی ہو۔ اس کے علاوہ وسائل کی لوٹ مار میں تیزی لانا مقصود ہے۔ ترقی و و سائل کا منبع گوادر ہے جسے پینے کا پانی دستیاب نہیں، جو ایک سازش ہے تاکہ لاچار، بے یار و مددگار بلوچ دوسرے علاقوں کی طرح یہاں سے بھی ہجرت پر مجبور ہوکر گوادر کو ابھی سے دوسری قوموں کے حوالے کرکے اسے پاکستان و چین کا ابدی حصہ بنایا جا سکے۔ سی پیک بلوچ قوم کو ختم کرنے کا پاکستان و چین کا سامراجی منصوبہ ہے۔ اسے کامیاب ہونے دینا کرہ ارض پر بلوچ قوم کوناپید ہونے کی اجازت دینا ہے۔بلوچ قوم اس کے خلاف اپنی پوری قوت استعمال کرے گی اور نیشنل پارٹی سمیت تمام وفاق پرست جماعتوں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑا رہے گی۔
قوم پرست رہنما نے کہا کہ سی پیک منصوبہ ایک سنہرا خواب ہے، جو غلامی کو طول دینے اور آزادی کی سوچ کو ختم کرنے کی ناکام کوشش ہے۔ مگر اس سے ہر بلوچ نبرد آزما ہے اور سرکاری آلہ کاروں، جو اِن سازشوں میں ملوث ہیں کو پہچان چکی ہے۔ بلوچ قوم باشعور ہوکر اِن خام خیالیوں سے نکل کر بلوچستان سے قابضین کو نکال کر آزاد اُس آزاد بلوچستان کی بحالی کی جد و جہد میں مصروف ہے جہاں انصاف، مساوات، مذہبی آزادی و رواداری اور انسانیت کا راج ہو۔