سیکورٹی فورسزنہتے شہریوں کے ماروائے عدالت گرفتاریوں اور قتل میں تیزی لا رہے ہیں – بی بی گل بلوچ

262

بلوچ ہیومن رائٹس آرگنائزیشن کے مرکزی چیرپرسن بی بی گل بلوچ نے کراچی پریس کلب میں بلوچستان میں ماروائے عدالت گرفتاریوں، قتل، فوجی آپریشن پر مبنی واقعات کے ماہانہ رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کے صورتحال میں بہتری کے بجائے مزید شدت پیدا ہوتا جارہا ہے، سیکورٹی فورسز ملکی و عالمی انسانی حقوق کے قوانین کو کسی خاطر میں لائے بغیر نہتے شہریوں کے ماروائے عدالت گرفتاریوں اور قتل میں تیزی لا رہے ہیں۔ سیکیورٹی فورسز کے کاروائیوں نے بلوچستان میں عام زندگیوں کو غیر محفوظ بنا دیا۔

انہوں  نے نومبر کے مہینے میں انسانی حقوق کے پامالیوں کے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ اس مہینے بلوچستان بھر سے  مختلف شعبہ فکر سے تعلق رکھنے والے 116افراد گرفتار کرکے غائب کیے گئے جبکہ کراچی سے سیکیورٹی فورسز نے ایک کاروائی میں  بلوچ طلباء تنظیم بی ایس او کے مرکزی سیکریٹری جنرل ثناءاللہ بلوچ اور دو مرکزی کمیٹی کے ممبران حسام بلوچ، نصیر احمد، بی این ایم کے ممبر رفیق بلوچ کو گرفتار کرکے لاپتہ کردئیے اس کے علاوہ  ایک اور کاروائی میں کراچی یونیورسٹی کینٹین سے شعبہ سیاسیات کے طالب علم صغیر احمد کو گرفتار کرکے لاپتہ کردیا گیا ۔ جبکہ بلوچستان کے مختلف علاقوں میں پرتشدد کاروائیوں میں 13 افراد قتل کیے گئے جن میں سے 5 کی شناخت  نہ ہوسکی۔ اسی مہینے اغواہ ہونے والوں میں 25افراد بازیاب بھی ہوئے۔ اس کے علاوہ سیکیورٹی فورسز نے چادر و چاردیواری کے پامالی کرتے ہوئے ضلع آواران، کیچ، پنجگور اور ڈیرہ بگٹی کے 10علاقوں میں فوجی آپریشن کرکے عام شہریوں کے عزت نفس کو مجروح کرکے مالی و جانی نقصان پہنچایا۔

بی بی گل بلوچ نے کہا کہ گذشتہ ماہ ریاستی فورسز کے ہاتھوں اغواہ ہونے والے بی ایچ آو او کے سیکریٹری اطلاعات نواز عطاء، کمسن طالب علم آفتاب بلوچ ، الفت بلوچ و دیگر چھ نوجوان طالب علموں کے بارے میں تاحال معلومات نہیں دی جارہی ہے اور نہ ہی ان کو کسی عدالت کے سامنے پیش کیا گیا۔ نواز عطا ء انسانی حقوق کے سرگرم کارکن ہے، انسانی حقوق کے سرگرم کارکن کی اس طرح ماروائے عدالت اغواہ نما گرفتاری پاکستان کے اعلٰی عدلیہ سمیت ریاست کی عملدرآمدی پر سوالیہ نشان ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ پرتشدد کاروائیوں میں اضافے کے باعث بلوچستان کے مختلف علاقوں سے عام شہری ہجرت کرکے دوسرے صوبوں میں مہاجرین کی زندگی بسر کرنے میں مجبور ہیں جبکہ سویلین حکومت بلوچستان کے معاملات میں بے اختیار ہو چکے ہیں عام لوگوں کے زندگیوں کو تحفظ دینے میں مکمل ناکام ہو چکے ہیں۔ چیرپرسن نے عدلیہ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں  پرتشدد کاروائیوں میں اس قدر  اضافے کے باوجود عدلیہ کسی بھی قسم کا سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کررہا ہے۔ بی بی گل بلوچ نے عدلیہ سمیت تمام بااختیار ریاستی اداروں کو متوجہ کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کے حوالے سے ریاستی پالیسیوں میں تبدیلی کے حوالے سے اپنے ذمہ داریوں کو سنجیدگی سے نبھا ئے کیونکہ پرتشدد ریاستی پالیسیوں نے بلوچستان کو ایک جنگ زدہ علاقہ بنا دیا ہے۔